فرق صاف ظاہر ہے...... عادت +
قرض + بھیک
حکمرانوں نے کشکول ہاتھ میں تھام کر پاکستان کا امیج خراب کیا ہے
بھارتی حکمران قرض اور امداد و بھیک تڑی لگا کر اور ہمارے عاجزی اور
انکساری سے مانگتے ہیں
لوگ کہتے ہیں کہ بد عادات کو اپنانا آسان، اِنہیں نباھنا مشکل اور اِنہیں
چھوڑنا انتہائی ناممکن ہے اِسی طرح سینٹ آگسٹائن کا ایک قول ہے کہ ” عادت
پر اگر کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ بہت جلد ضرورت میں تبدیل ہوجاتی ہے“ اور
آج ساری پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا بھی یہ بات اچھی طرح سے سمجھ چکی ہے
کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے تمام وسائل پر بھروسہ کرنے کے بجائے قرضوں پر
انحصار کرناشروع کردیا ہے اور انہیں کشکول ہاتھوں میں تھامے قرض مانگنے کی
ایک ایسی عادت پڑگئی ہے کہ اَب اِس پر سے اِن کا کنٹرول بھی ختم ہوچکا ہے
اور اَب نگر نگر گھوم گھوم کر قرض مانگنے کی عادت اِن کی ضرورت میں تبدیل
ہوچکی ہے اور یوں حکمرانوں نے اپنی ضرورت کے تحت کشکول ہاتھ میں تھام کر
پاکستان کا امیج دنیا بھر میں خراب کردیا ہے۔
اور جانسن کا کہنا ہے کہ ”عادت کی زنجیریں دیکھنے میں معمولی نظر آتی ہیں
لیکن رفتہ رفتہ یہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ تمام زندگی توڑے نہیں
ٹوٹتیں“اور آج کسی کو جانسن کی اِس کہی ہوئی بات انکار نہیں کہ ہمارے
حکمرانوں کی قرض مانگنے کی عادت ایسے مضبوط ہوچکی ہے کہ قرض مانگنے کی عادت
کی زنجیر اِن سے تمام زندگی توڑے نہیں ٹوٹ سکتی اور اَب شائد یہ خود بھی
اپنی اِس طرح قرض مانگنے کی عادت چھوڑنا بھی چاہیں تو یہ نہ چھوڑ سکیں۔
کیونکہ اِنہیں قرض مانگنے کے بہانے دنیا گھومنے کا جو مزہ منہ لگ چکا ہے۔
اِن کے نزدیک اُس کا کیا کہنا یہ مزہ ہی کچھ اور ہے۔
اگرچہ گزشتہ دنوں ملک کے ایک روزنامے نے فرینڈز آف پاکستان کے قرض کے حوالے
سے اپنے یہاں ایک خبر کچھ اِس طرح سے شائع کی ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی
جانب سے ”ان کے“ پاکستان کے لئے اربوں ڈالرز کے فنڈز حاصل کرنے کے لئے قائم
فورم”فرینڈز آف پاکستان “(ایف او پی) نے بڑی ہی خاموشی کے ساتھ معاملہ ورلڈ
بینک کی گود میں ڈال دیا اور یوں (ایف او پی) نے وہی کام کیا ہے جس کے بارے
میں صدر آصف علی زرداری نے ایک سال قبل ہی فورم شروع کرتے وقت خاص طور سے
خبردار کیا تھا اخبار آگے چل کر اپنی اِس خبر میں لکھتا ہے کہ یہ گروپ
سیاسی مباحثے کے کلب میں تبدیل ہوگیا اور منتظمین کی عزت کیری لوگربل نے
بچالی ہے (کیا عزت بچالی ہے کیری لوگر بل کے بدلے امریکا کی سخت ترین شرائط
نے پاکستانی قوم کی عزت کا جنازہ ہی نکال کر رکھ دیا ہے ) فرینڈز آف
پاکستان کی شکل میں پاکستان کو گزشتہ ایک سال سے وقتاََ فوقتاََ امداد ملنے
کا ایک آسرا تھا وہ بھی اب مصلحتوں کا شکار ہوکر ہاتھ سے گیا۔ اَب کیا بنے
گا۔؟ اور اگر پاکستان کو کیری لوگر بل کے تحت سالانہ ڈیڑہ ارب ڈالر امداد
کے لئے امریکا نے جو سخت ترین شرائط اور نئی حدیں مقرر کی ہیں جس میں
امریکہ نے واضح طور پر ملک کی تینوں مسلح افواج کو اِس بات کا پابند کیا ہے
کہ سیاسی اور عدالتی معاملات میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا جائے گا اگر امریکی
شرائط پوری نہیں کی گئیں تو امداد روک دی جائے گی، اور پاکستان دہشت گرد
عناصر کی حمایت نہیں کرے گا، القاعدہ یا طالبان سے منسلک لشکر طیبہ، جیش
محمد جیسے کسی بھی گروپ کو اپنی سرزمین پڑوسیوں کے خلاف استعمال کرنے نہیں
دیگا ( میرے نزدیک یہ شرط امریکا نے گزشتہ سال نومبر2008 میں بھارت
میںرونما ہونے والے دہشت گردی کے واقع کے بعد بھارت کی ضد اور اِس کی ہٹ
دھرمی کے باعث محض اُس قیاس اور مفروضے کی بنا پر شامل کی ہے جس میں بھارت
نے اپنے یہاں نومبر میں ہونے والی دہشت گردی کا سارا ملبہ پاکستان کے سر دے
مارا تھا اور اِس نے الزام لگایا تھا کہ اِس کے یہاں ہونے والی اِس دہشت
گردی میں پاکستان کی ایک تنظیم ملوث ہے جو پاکستان میں رہ کر بھارت میں
دہشت گردی کرا رہی ہے۔ یوں بھارت کی اِس اڑیل پن کی وجہ سے امریکا نے نہ
چاہتے ہوئے بھی یہ شرط اپنی امداد کی مد میں شامل کی ہے حالانکہ اِس کی
ایسی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی یہ شرط بھی میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ
امریکا نے محض بھارت کو پاکستان سے متعلق اپنے منفی پروپیگنڈے کو بند کرنے
اور بھارت کو خوش کرنے کے لئے لگائی ہے۔ ویسے بھارتی حکمران اِس گمان میں
قطعاً نہ رہیں کہ امریکا کو یہ پتہ نہیں ہے کہ نومبر 2008 میں جو دہشت گردی
کا واقع بھارت میں رونما ہوا تھا وہ خود بھارتی حکمرانوں کا ہی کیا دھرا
تھا جس کی انہوں نے بہت پہلے ہی سازش تیار کررکھی تھی) بہر کیف! امریکا کی
ایک شرط یہ بھی ہے کہ ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث افراد تک رسائی دینی پڑے گی، (اِس
کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جو کہ بہت ہی مشکل ہے اور یہ ہم ساڑھے
17کروڑ پاکستانیوں کی خیریت کا مسئلہ ہے پاکستانی قوم کسی بھی طرح اپنے
قومی ہیروز تک امریکیوں کی رسائی نہیں ہونے دے گی) اور اسی طرح ایک شرط یہ
بھی ہے کہ دہشت گردی کے ٹھکانے ختم کرائے جائیں(جس کے لئے پاکستان پہلے ہی
کمر بستہ ہے) امریکی معلومات پر ہائی لیول ٹارگیٹس کے خلاف بروقت کارروائی
کرے گا، اور آخر میں امریکہ نے ایک بار پھر حکومت پاکستان کو متنبہ کرتے
ہوئے کہا ہے کہ شرائط پر پوری طرح سے عمل نہ کیا گیا تو امداد روک دی جائے
گی اور اِس کے ساتھ ہی امریکہ نے اپنی اِس امداد کے استعمال کو یقینی بنانے
کے لئے امریکی دفتر کے قائم کی بھی شرط حکومت پاکستان سے منظور کرانے کو
کہا ہے۔
اِن تمام امریکی شرائط اور سخت ترین حدیں مقرر کئے جانے کے بعد سے تو ایسا
لگ رہا ہے کہ جیسے امریکا پاکستان کو 5 سال کے دوران کیری لوگر بل کے تحت
ملنے والی ساڑھے 7ارب ڈالرز امداد کی مد میں پاکستان کو خرید لے لگا۔ میرے
خیال سے تو اِس منظر اور پس منظر میں ہمارے پاکستانی حکمران اگر ذرا سی ہمت
پکڑیں اور اتنی ساری سخت ترین شرائط اور حدیں مقرر کئے جانے کے بعد کیری
لوگر بل کی مد میں ملنے والی یہ امریکی امداد لینے سے منع کر دیں تو کوئی
بات نہیں ہم فرینڈز آف پاکستان کی بے رخی کے بعد یہ کیری لوگر بل کو نہ لے
کر بھی زندہ رہ لیں گے اور دنیا کو یہ بتا دیں گے کہ ہم تمہاری امداد کے
محتاج نہیں ۔۔۔بس صرف ایک بار حکمران بھی ہمت پکڑ کر دنیا کو اِن کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر یہ باور تو کرا دیں کہ اِن سخت ترین امریکی شرائط کے بعد
ساڑھے 7ارب ڈالرز امداد کے عوض پاکستان کسی بھی طرح امریکی کالونی بن کر
اور پاکستانی قوم امریکی غلام بن کر ہرگز رہنا پسند نہیں کرے گی۔
ٰقرض اور امداد کی آڑ میں پاکستان کو امریکا کس طرح سے بلیک میل کررہا ہے
یہ بات تو اَب ہمارے غیور اور محب وطن پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو
سمجھنی چاہئے کہ امریکا اور اِسی طرح دیگر ممالک پاکستان کی مجبوریوں کا کس
طرح سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کیوں کہ امریکا اور اور دیگر ممالک یہ بات اچھی
طرح سے جان چکے ہیں کہ قرض، اور امداد کی شکل میں بھیک پاکستانی حکمرانوں
کی عادت اور مجبوری بن چکی ہے کہ اِس کے بغیر اَب یہ ایک قدم بھی آگے نہیں
بڑھ سکتے لہٰذا جس قدر ہوسکے اِن عادی قرض خور اور امداد کے
متلاشی(پاکستانی حکمرانوں اور عوام )کو دبایا جائے اور اپنا الو سیدھا کیا
جائے۔
دنیا میں بھیک مانگنے اور قرض لینے کے اپنے اپنے ڈھنگ نرالے ہیں اَب اِسی
کو ہی دیکھ لیں کہ قرض لینے کے لئے پاکستانی حکمرانوں کی امریکا کے آگے عجز
انکساری ہی امریکیوں کو اِس بات پر اکساتی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی بے
حسی اور اِن کی پلے درجہ کی مفلسی کا یوں مذاق اڑایا جائے کہ دنیا اِن کی
حیثیت کو سمجھنے لگے۔ ویسے یہاں ایک بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور بھارتی
حکمرانوں میں یہ فرق واضح ہے کہ پاکستانی حکمران کشکول ہاتھوں میں تھامے
دنیا بھر میں قرض اور امداد کی بھیک مانگنے جب نکلتے ہیں تو اِنہیں اِن کی
عجز و انکساری کے باوجود بھی قرض اور کبھی امداد کی مد میں بھیک سخت ترین
شرائط کے ساتھ ملتی ہے تو کبھی اِنہیں یوں ٹرخا دیاجاتا ہے۔
مگر بھارت جو ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی والا ملک ہے اور یقیناً اُس کے
مسائل بھی ہم سے زیادہ ہی ہوں گے اِس کے حکمران جب کبھی ہم سے زیادہ
بڑاکشکول اٹھائے دنیا بھرمیں قرض اور بھیک کی شکل میں امداد کے لئے نکلتے
ہیں تو اِن کی آنکھیں نیچے نہیں ہوتیں اور اِن کے سر جھکے ہوئے نہیں ہوتے
ہیں۔ بلکہ اُس وقت اِن کے سر تنے ہوئے اور اِن کے سینے چوڑے ہوتے ہیں یوں
بھارتی حکمران پاکستانی حکمرانوں کی طرح عجز انکساری سے نہیں بلکہ امریکا
سمیت سب کو تڑی لگا کر قرض و بھیک اور امداد مانگ رہے ہوتے ہیں۔ مگر اِس
شان و شوکت سے کہ کوئی انہیں بلیک میل نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی اِن کو
اِن کی ضرورت سے کم دیتا ہے۔ بلکہ بھارتی حکمران تو اتنے پہنچے ہوئے ہیں کہ
امریکا اور اِس جیسے اور ممالک خود بھارت چل کر آتے ہیں اور اِس کے کشکول
میں اتنا کچھ ڈال جاتے ہیں کہ بھارتی حکمرانوں کو ہمارے حکمرانوں کی طرح
کشکول ہاتھ میں اٹھائے ہر ماہ اور تین ماہ بعد کہیں جانے کی ضرورت ہی نہیں
پڑتی۔ اِن کے کشکول میں اتنا کچھ پڑا رہتا ہے کہ بھارت جیسا پیشہ ور بھکاری
ملک بھی ہماری طرح ہر روز کشکول اٹھائے قرض اور امداد کے لئے دنیا بھر میں
یوں مارامارا نہیں پھرتا کہ جیسے ہم پھر رہے ہوتے ہیں۔
اِس حقیقت کو تو شائد کوئی بھی نہ جھٹلا سکے کہ دنیا میں کونسا ایسا اِنسان
ہے کہ جس نے اپنی ضرورت کے وقت کسی دوسرے اِنسان سے اپنی طلب کے مطابق قرض
کی صورت میں کب رقم نہیں مانگی ہو اور جس سے مانگی اُس نے مانگنے والے کی
کب مدد نہ کی ہو۔ یہی تو انسانیت ہے کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کے کام آیا
جائے اور ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔ اِس طرح وقت پر ایک دوسرے کے کام آنے
سے معاشرے میں باہمی اخوت و مساوات اور انسانیت کے احترام کا رشتہ بھی قائم
رہتا ہے اور معاشرے میں خوشحالی بھی آتی ہے جس سے کسی بھی گھر سے اُس کے
باورچی خانے کی چمنی سے دھواں نکلنا بھی بند نہیں ہوتا اور اُس گھر میں لوگ
نہ تو بھوکے سوتے ہیں اور نہ ہی اُس گھر کے در و دیوار سے غربت و مفلسی اور
مفلوک الحالی کے سائے ہی ٹیک لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں معاشرہ بھی
اِس چھوٹے سے عمل سے ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن رہتا ہے۔
یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی قرض لینا کوئی اتنا معیوب فعل بھی نہیں ہے کہ
اِسے بلکل ہی حقیر جانا جائے اور قرض لینے والے کو حقارت سے دیکھا جائے
بلکہ ہمارے معاشرے ہی میں نہیں ساری دنیا میں ہر اُس شخص کو احترام کی نگاہ
سے دیکھا جاتا ہے کہ جو قرض لے کر اُسے اپنے وعدے کے مطابق مقررہ تاریخ پر
ادا کر دیتا ہے اُسے لوگ اِس کی اِس عادت کی وجہ سے اُس کی طلب کے مطابق ہر
بار قرض دینے میں کوئی حیل حجت اور ہچر مچر سے کام نہیں لیتے اور اُس کی
اِسی عادت کی بنا پر ہر بار قرض دے دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو
اپنی ضرورت کے وقت ہی کسی سے قرض مانگتے ہیں اور اپنے کئے ہوئے وعدے پر
اُسے ادا بھی کردیتے ہیں۔
مگر اِس کے ساتھ ہی بدقسمتی سے دنیا میں ایسے بھی بےشمار لوگ موجود ہیں کہ
جنہوں نے اپنی ضرورتوں کواِس قدر بڑھا لیا ہے کہ قرض لینا اِن کی عادت بن
گیا ہے وہ ایک قرض کی ادائیگی نہیں کرپاتے مگر دوسرے قرض کے لیے لوگوں کے
سامنے ہاتھ پھیلائے پھرتے ہیں۔ مگر جب لوگ انہیں سمجھ جاتے ہیں کہ قرض لینا
اِن کی عادت اور ضرورت بن چکی ہے تو یہ لوگ انہیں قرض دینے سے کترانے لگتے
ہیں۔ ایسے ہی جیسے اَب ایف او پی نے پاکستان کو قرض دینے اور اِس کی مدد
کرنے سے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
اَب یہ بات تو ہمارے حکمرانوں کو سمجھنی چاہئے کہ اپنی اندر خوداری کا جذبہ
بیدار کریں اور کوئی ایسا سامان کریں کے دنیا بھر میں قرض اور امداد مانگنے
کے حوالے سے پاکستان کے خراب ہوتے ہوئے وقار کو سنبھالا دیں اور ایسے
اقدامات کریں کہ ہمیں امریکا سے نہ تو قرض ہی مانگنا پڑے اور نہ ہی قرض کے
بدلے پاکستان کو امریکی کالونی بنانے جیسی شرائط ہی ماننی پڑیں۔ |