ظالموں کو اقتدارسے دور رکھنے کے لیے مسلمان کیا کرے؟

 ووٹ صحیح امیدوار کو دینا - گناہوں سے بچنا - دعاء کا اہتمام کرنا
حذیفہؔ مو لا نا غلا م محمد صاحب وستا نویؔ

ا پنے وو ٹ کو استعما ل کر نا شر عاً ضرو ر ی ہے
حضرت ابو بکر صد یق رضی اﷲ عنہ سے روا یت ہے کہ سرورِ کو نین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ار شا د فر مایا: ’’ الناس اذارأوا لظا لم فلم یا خذ و ا علی ید یہ أو شک أن یعمہم اﷲ بعقاب ‘‘ (جمع الفوا ئد : جلد۲ ص ۵۱: بحوالہ ابو داؤ د وتر مذ ی )
’’ اگر لو گ ظا لم کو دیکھ کر اس کا ہا تھ نہ پکڑ یں، تو کچھ بعید نہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذا بِ عا م نا زل فر مائیں ۔‘‘

اگر آپ کھلی آنکھو ں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہو رہا ہے ، اور انتخا با ت میں سر گر م حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجے میں مٹا نا، آپ کی قد رت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فر ض ہے کہ خا مو ش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہا تھ پکڑ کر اس ظلم کو رو کنے کی مقد و ر بھر کو شش کریں۔

بہت سے دین دار لوگ سمجھتے ہیں کہ، اگر ہم اپنا وو ٹ استعما ل نہیں کر یں گے تو اس سے کیا نقصا ن ہو گا ؟ لیکن سنئے کہ سر کا ر دو عا لم صلی اﷲ علیہ وسلم کیا ارشا د فر ما تے ہیں ؟ حضرت سہل بن حنیف رضی اﷲ عنہ سے مسند احمد میں روایت ہے کہ آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ار شا د فر مایا:
’’ من اذل عندہ مؤمن فلم ینصرہ وہو یقد ر علی ان ینصرہ اذ لہ اﷲ علی رؤو س الخلائق ۔‘‘ (ایضا : جلد۲ ص ۵۱: بحوالہ ابو داؤ د وتر مذ ی )
’’جس شخص کے سا منے کسی مو من کو ذلیل کیا جا رہا ہو اور وہ اس کی مدد کر نے پر قد ر ت رکھنے کے با وجو د مدد نہ کر ے ،تو اﷲ تعالیٰ اسے ( قیا مت کے مید ا ن میں) بر سر عا م رسوا کرے گا۔
ووٹ نہ دینا حرا م ہے
شر عی نقطہ نظر سے ووٹ کی حیثیت شہا دت اور گوا ہی کی سی ہے ، اور جس طر ح جھو ٹی گوا ہی دینا حرا م اور نا جائز ہے ۔اسی طرح ضرور ت کے مو قع پر شہا دت کو چھپا نا بھی حرا م ہے ۔ قر آ ن کر یم کا ار شاد ہے :
﴿ولا تکتموا الشہا دۃ ومن یکتمہا فإنہ آثم قلبہ ﴾ (البقرۃ )
’’اور تم گوا ہی کو نہ چھپا ؤ ، اور جو شخص گو ا ہی کو چھپا ئے، اس کا دل گنہگا ر ہے ۔ ‘‘
اور حضرت ابو موسیٰ اشعر ی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ار شا د فر ما یا : ’’ من کتم شہادۃ اذا دعی الیہا کا ن کمن شہد بالز و ر ‘‘ (جمع الفوا ئد : طبر ا نی صفحہ ۶۲جلد ۱ )
’’ جس کسی کو شہا دت کے لیے بلا یا جائے ، پھر وہ اسے چھپا ئے تو وہ ایسا ہے جیسے جھو ٹی گو اہی دینے والا ‘‘ ۔
ووٹ بھی بلا شبہ ایک شہا دت ہے ، قر آ ن و سنت کے یہ تما م احکا م اس پر بھی جاری ہو تے ہیں ، لہٰذا ووٹ کو محفوظ رکھنا دیندا ری کا تقا ضا نہیں ، اس کا زیا دہ سے زیا دہ صحیح استعمال ہر مسلما ن کا فر ض ہے ۔

انتخا با ت خالص دنیا وی معا ملہ نہیں
جیسا کہ او پر عر ض کیا جا چکا ہے کہ وو ٹ ایک شہا دت ہے اور شہا د ت کے بار ے میں قر آ ن کریم کا ارشاد ہے : ﴿ واذا قلتم فا عد لو ا ولو کا ن ذا قربیٰ ﴾ ’’ اور جب کوئی با ت کہو تو انصا ف کر و ، خو ا ہ وہ شخص ( جس کے خلاف با ت کہی جا رہی ہے ) تمہا را قر ابت دا ر ہی کیوں نہ ہو ‘‘ ۔

لہٰذا جب کسی شخص کے بار ے میں ضمیر اور دیا نت کا فیصلہ یہ ہو کہ، جس شخص کو وو ٹ دے رہے ہو، وہ ووٹ کا مستحق نہیں ہے ، یا کو ئی دوسرا شخص اس کے مقا بلے میں زیا د ہ اہلیت رکھتا ہے ، تو اس وقت محض ذا تی تعلقا ت کی بنا پر اسے وو ٹ دے دینا ’’ جھو ٹی گو اہی ‘‘ کے ذیل میں آ تا ہے ۔ اور قر آ ن کریم میں جھو ٹی گو اہی کی مذ مت اتنی شد ت کے ساتھ کی گئی ہے کہ، اسے بت پر ستی کے ساتھ ذ کر فر ما یا گیا ہے ۔ ار شا د ہے : ﴿ فاجتنبوا الر جس من الا وثان واجتنبو ا قول الزو ر ﴾ ’’ پس تم پر ہیز کرو بتو ں کی نجا ست سے اور پر ہیز کر و جھو ٹی بات کہنے سے ‘‘ ۔

حضرت ابو بکر صد یق رضی اﷲ عنہ فر ما تے ہیں :کہ ایک مر تبہ آ نحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فر مایا کہ کیامیں اکبر الکبا ئر (بڑ ے بڑ ے گنا ہ ) نہ بتا ؤ ں ؟ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہر ا نا ، اور والدین کی نا فر ما نی کرنا ، اور خو ب اچھی طر ح سنو ا! جھو ٹی گوا ہی ، جھو ٹی با ت ! حضرت ابو بکر صد یق رضی اﷲ عنہ فر ما تے ہیں کہ آ نحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم تکیہ لگا ئے ہوئے بیٹھے تھے ، جب جھو ٹی گوا ہی کا ذکر آ یا تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور ’’ جھو ٹی گو اہی ‘‘ کا لفظ با ر بار ار شا د فر ما تے رہے ؛ یہا ں تک کہ ہم دل میں کہنے لگے کہ کا ش ! آپ خا مو ش ہو جا ئیں ۔
(بخاری و مسلم ،جمع الفوا ئد : صفحہ ۱۶۲جلد ۲ )

یہ وعید یں تو صر ف وو ٹ کے اس غلط استعما ل پر صا د ق آ تی ہیں، جو محض ذا تی تعلقا ت کی بنا پر دیا گیا ہو ، اور روپے پیسے لے کر کسی نا اہل کو وو ٹ دینے میں جھو ٹی گوا ہی کے علا و ہ ر شوت کا عظیم گنا ہ بھی ہے ۔

لہٰذا و و ٹ ڈا لنے کے مسئلہ کو ہر گز یو ں نہ سمجھا جا ئے کہ یہ ایک خا لص دنیوی مسئلہ ہے ، اور دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ یقین رکھئے کہ آخر ت میں ایک ایک شخص کو اﷲ کے سا منے کھڑ ا ہو نا ہے ، اور اپنے دو سر ے اعمال کے ساتھ اس عمل کا بھی جواب دینا ہے کہ اس نے اپنی اس ’’شہادت ‘‘کا استعمال کس حد تک دیا نت دار ی کے ساتھ کیا ہے ۔

نا اہل کو وو ٹ دینا شدید تر گنا ہ ہے
بعض حضرا ت یہ بھی سو چتے ہیں کہ اگر نا اہل کو و و ٹ دینا گنا ہ ہے،س تو ہم کو ن سے پا کبا ز ہیں ؟ ہم صبح سے لیکر شا م تک بے شما ر گنا ہو ں میں ملو ث رہتے ہیں ، اگر گنا ہوں کی طو یل فہر ست میں ایک اور گنا ہ کا اضافہ ہو جائے تو کیا حر ج ہے ؟

لیکن خوب سمجھ لیجئے کہ یہ نفس و شیطا ن کا سب سے بڑ ا دھو کہ ہے ، اول تو انسا ن اگر ہر گنا ہ کے ارتکا ب کے وقت یہی سو چا کر ے، تو وہ کبھی کسی گنا ہ سے نہیں بچ سکتا ، اگر کو ئی شخص تھو ڑی سی گند گی میں ملو ث ہو جائے، تو اس کو اس سے پا ک ہو نے کی فکر کر نی چاہیے، نہ کہ وہ غلا ظت کے کسی تالا ب میں چھلا نگ لگا دے ۔

دوسر ی با ت یہ ہے کہ گنا ہ گنا ہ کی نو عیتوں میں بھی بڑ ا فر ق ہے ، جن گنا ہو ں کے نتا ئجِ بد، پور ی قو م کو بھکتنے پڑ یں ، ان کا معا ملہ پرا ئیو ٹ گنا ہوں کے مقا بلے میں بہت سخت ہے ۔ انفر ا دی نو عیت کے جر ائم ، خو اہ اپنی ذات میں کتنے ہی گھنا ونے اور شدید ہو ں ، لیکن ان کے اثرا ت دو چا ر افر ا د سے آ گے نہیں بڑ ھتے ، اس لیے ان کی تلافی بھی عموماً اختیا ر میں ہو تی ہے ، ان سے تو بہ واستغفا ر کر لینا بھی آسا ن ہے ، اور ان کے معا ف ہو جا نے کی امید بھی ہر وقت کی جا سکتی ہے ۔ اور اس کے بر خلاف جس گنا ہ کا بر ا نتیجہ پور ے ملک اور پور ی قوم نے بھگتا ہو ، اس کی تلا فی کی کوئی صور ت نہیں ، یہ تیر کما ن سے نکلنے کے بعد و اپس نہیں آسکتا ،اس لیے اگر کسی وقت انسا ن اس بد عملی سے آئند ہ کے لیے توبہ کرلے ،تو کم از کم ما ضی کے جرم سے عہدہ برا ہونا بہت مشکل ہے ، اور اس کے عذا ب سے رہائی کی امید بہت کم ہے ۔

اس حیثیت سے یہ گنا ہ چو ری ، ڈا کہ ، زنا کا ری ، اور دوسر ے تمام گنا ہو ں سے شد ید تر ہے ۔ اور اسے دوسر ے جرائم پر قیا س نہیں کیا جا سکتا ۔

یہ درست ہے کہ ہم صبح وشا م بیسیوں گنا ہو ں کا ار تکا ب کر تے ہیں، مگر یہ سب گنا ہ ایسے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کسی وقت توبہ کی تو فیق بخشے تو معا ف بھی ہو سکتے ہیں ، اور ان کی تلا فی بھی کی جاسکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ،ہم اپنی گر دن ایک ایسے گنا ہ میں بھی پھنسا لیں جس کی تلا فی نا ممکن اور جس کی معا فی بہت مشکل ہے ۔

بعض لوگ یہ بھی سو چتے ہیں کہ لا کھو ں وو ٹو ں کے مقا بلے میں ایک شخص کے وو ٹ کی کیا حیثیت ہے ؟ اگروہ غلط استعمال بھی ہو جائے، تو ملک و قو م کے مستقبل پر کیا اثر اندا ز ہو سکتا ہے ؟

لیکن خو ب سمجھ لیجئے کہ اول تو اگر ہر شخص وو ٹ ڈالتے وقت یہی سو چنے لگے تو ظا ہر ہے کہ پوری آبا د ی میں کو ئی وو ٹ بھی صحیح استعمال نہیں ہو سکے گا ، پھر دوسر ی با ت یہ ہے کہ ووٹوں کی گنتی کا جو نظا م ہما رے یہا ں رائج ہے، اس میں صر ف ایک ان پڑ ھ ، جا ہل شخص کا وو ٹ بھی ملک و ملت کے لیے فیصلہ کن ہوسکتا ہے ، اگر بے دین ، بدعقیدہ اور بد کر دار امید و ار کے بیلٹ بکس میں صر ف ایک و و ٹ دو سرو ں سے زیا د ہ چلا جائے، تو وہ کا میا ب ہو کر پوری قو م پر مسلط ہو جائے گا ۔ اس طرح بعض اوقا ت صر ف ایک جا ہل اوراَن پڑ ھ انسان کی معمو لی سی غفلت ، بھول چو ک یا بد دیا نتی بھی پورے ملک کو تبا ہ کر سکتی ہے ، اس لیے مروجہ نظا م میں ایک ایک وو ٹ قیمتی ہے ، اور یہ ہر فرد کا شر عی ، اخلاقی ، اور ملی فریضہ ہے کہ وہ اپنے وو ٹ کو اتنی ہی توجہ اور اہمیت کے ساتھ استعمال کر ے، جس کا وہ فی الو ا قع مستحق ہے۔ (فقہی مقا لا ت : ۲۸۷/۲ تا۲۹۵)

پڑھ لیا آپ نے ووٹ کتنا اہم ہے؟!!!
ووٹ صحیح امیدوار کو دینے کے ساتھ ساتھ، ہم مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے ،ان اسبابِ ہلاکت سے بھی اپنے آپ کو بچایا جائے۔ صرف ووٹ دیکرظاہر پر اکتفاء سے کام نہیں چلے گا۔

ظالموں کے مسلط ہونے کے بنیادی اسباب چند ہیں:
۱-: مسلما نو ں کا خا ص طو ر پر اور عا م طو ر پر تمام انسا نو ں کا بڑ ے بڑ ے گنا ہو ں میں ڈو ب جا نا ۔
۲-:ناپ تول میں کمی کرنا۔
۳-: انفرادی واجتماعی زندگی میں اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت سے اعراض۔
۴-: دنیا سے شدید محبت کر نا ، دنیا کما نے کی خا طر نماز ،روزہ ، ذکر و دعاء سب تر ک کر دینا ۔
۵-: معاشرہ میں تکبر کا عام ہونا، یعنی ہر ایک کا عجب اور کبر میں اس طو ر پر مبتلا ہو نا کہ کوئی کسی کی نہ سنے ۔
۶-: ذکر اﷲ سے اعراض، نماز اور دعاء وغیرہ سے فرار۔
یہ ہیں اسبابِ رئیسیہ۔
آئیے! ہم عہد کرتے ہیں کہ انشاء اﷲ معاشرہ سے ان برائیوں کو مٹانے کی انتھک کوشش کریں گے۔

اﷲ ظالمین سے ہماری اور تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ، آمین۔

اگر ہم چاہتے ہیں دنیا سے فتنہ وفساد ختم ہو جائے اور امن وامان قائم ہوجائے، تو ہمیں قرآن کے بتلائے ہوئے اسباب ووسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔ حقوق انسانی کے نام پر جو نعرے لگائے جاتے ہیں یا جو کانفرسیں کی جاتی ہیں، اس کے فریب سے بچنا ہوگا؛ کیوں کہ وہ محض زبانی جمع خر چ ہے ، عملی میدان میں ان کی تجاویز صفر کا درجہ رکھتی ہے، اگر ان کی قرار دادیں امن وامان قائم کردیتیں، تو کیوںU.N.Oکے قیام کے ۶۵ سال بعد بھی، دنیا کے حالات تباہ کن ہیں، بلکہ مزید تباہی اور ہلاکت کی طرف بڑھ رہے ہیں، لہذا ہمیں مسلمانوں اور دیگر دنیا کو بتا نا ہوگاکہ ،یہ راستہ ہے ،امن وامان کے قائم کرنے کا اور الحمد ﷲ تاریخ اس پر شاہدِ عدل ہے ،بلکہ یہ مجرب عمل ہے ۔دنیا میں اس اسلامی نظام نے امن وامان کی بے مثال نظیریں قائم کی ہیں۔

ازالۂ فساد کا قرآنی علاج
۱-: دین محمدی پر ایمان اور اس کی سچی تابعدار ی:
ابو بکر ابن عیاش﴿ولا تفسدوا في الارض بعد اصلاحہا ﴾کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ، دنیا فساد زدہ تھی، پھر اﷲ نے محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ اس کو امن وامان اور ازالۂ فساد کے لیے موضوع بنایا، لہذا اب جو طریقۂ محمدی(صلی اﷲ علیہ وسلم) کے خلاف بلائے گا ،گویا وہ فساد پھیلائے گا۔
۲-: اسلامی بھائی چارگی:
مسلمانوں کو آپس میں محبت ومودت کے ساتھ رہنا ہوگا اورخاندا نیت ، و طنیت وغیرہ کے بجائے ، ہر حال میں اسلا میت کو تر جیح دینا ہو گا اور ضرورت و اضطرا ر کی صورت میں امن پسند غیرو ں سے را بطہ رکھنا ہو گا ۔
﴿ والذی کفروا بعضہم اولیاء بعض ولا تفعلوہ تکن فتنۃ في الارض وفساد کبیر﴾ (سورہ انفال: ۷۳)
۳-: فساد کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہونا ضروری ہے:
صرف زبان خرچی سے کام نہیں چلے گا،بلکہ فسا داور مفسدین کو اپنی استطا عت کے بقد ر روکنا ہو گا، جیسے مفسد ین کو و و ٹ نہیں دینا ہو گا ، غیر اسلا می ریا ست میں ایسے قو ا نین پر رو ک لگا نے کی کو شش کرنا ہوگا، جو باعثِ فسا د ہو ں،اور ایسے قوانین جو فسا د کو روکنے میں مؤ ثر ہوں،انہیں نافذ کروانے کے اقد ا ما ت کر وا نا ہوگااور حکا م کو عد ل وانصا ف کر نے پر مجبو ر کر نا ہو گا ۔
۴-: ظا لمین اور فا سد ین کے لیے بد دعا کر نی ہو گی ۔ انبیا ء کر ا م کا طریقہ بھی یہ رہا ہے، مثلا ًحضرت لو ط علیہ السلا م نے کہا:
﴿ رَبِّ انْصُرْنِيْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ نوح علیہ السلام نے کہا ﴿رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْکَافِرِیْنَ دَیَّاراً﴾ اسی طرح کہا ﴿انی مغلوب فانتصر﴾ اسی طرح جب اہل مکہ نے بہت ظلم کیا تو آپ ﷺ نے کہا ’’اَللّٰہُمَّ عَلَیْکَ بِاَبِیْ جَہْلٍ وَعَلَیْکَ بِعُتْبَۃَ وَعَلَیْکَ بِالْوَلِیْدِ وَاُمَیَّۃَ وَعُقْبَۃَ‘‘ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں یہ سب بدر میں قتل کئے گئے۔
قرآن وحدیث سے دفعِ ظلم کے لیے وارد دعائیں :
۱-: رَبِّ انْصُرْنِيْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ۔
۲-: رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی اْلاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارا۔ً
۳-: رَبِّ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔
۴-: رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃَ لِلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ۔
۵-: رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔
۶-: رَبِّ فلَاَ تَجْعَلْنِيْ فِيْ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ۔
۷-: رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِلَّذِ یْنَ کَفَرُوْا۔
۸-: اَللّٰہُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَأۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ۔ (مسلم)
۹-: اَللّٰہُمَّ انْجِ الْمُسْلِمِیْنَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ اَللّٰہُمَّ أشْدُدْ وَطْئَکَ عَلَی الظَّالِمِیْنَ وَاجْعَلْہَا سِنِیْنَ کَسِنِیْ یُوْسُفَ َ۔
۱۰-: اَللّٰہُمَّ اِنّیْ اَعُوْذُبِکَ اَنْ أضِلَّ أوْ اُضَلّ أوْ اَزِلَّ أوْاُزَلَّ أوْ اَجْہَلَ اَوْ یُجْہَلَ عَلَیَّ اَوْ اَظْلَمَ اَوْ اُظْلَمَ ۔
۱۱-: اَللّٰہُمَّ اِنَّانَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحُزْنِ وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَقَہْرِالرِّجَالِ۔
۱۲-: اَللّٰہُمَّ لَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا بِذُنُوْبِنَا مَنْ لَایَرْحَمُنَا۔
۱۳-: لَااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔
۱۴-: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ ۔

مسلما نو ں کو چا ہیے کہ مذ کور ہ با لا ادعیۂ ما ثور ہ کو نما ز و ں کے بعد اور اپنی دعاؤں میں با ر بار دہر ا تے رہیں ، یہی حضرا ت انبیا ء کا طر یقہ رہا ہے کہ حتی المقد و ر ظلم و فسا د کو ر و کنے کے ظا ہر ی اسباب اختیا ر کر نے کے سا تھ ساتھ خا ص طور پر رو رو کر اﷲ سے دعاء کر تے رہیں ، تب جا کر ظا لمین سے نجا ت مل سکتی ہے اور ہم آئند ہ بھی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔
 

Huzaifa Ghulam Muhammad
About the Author: Huzaifa Ghulam Muhammad Read More Articles by Huzaifa Ghulam Muhammad: 5 Articles with 10463 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.