سیکولر امیدواروں کی الجھن میں گرفتارمسلم رائے دہندگان

یاد رکھئے ! اگر ہم ذات پات ، مسلک، رشتہ داری اور سطحی گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد نہ ہوسکے تو انسانیت کے قاتل کو مسند اقتدار تک پہنچانے کے مجرم بھی ہم ہی ہوں گے۔

ملک کی سولہویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کے لیے انتخابی عمل جاری ہے۔ ۵۴۳ ؍نشستوں میں سے ۲۳۲ ؍پر انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ انتخابات میں ہر پارٹی یا اتحاد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے حکومت تشکیل کرسکے۔ حالیہ انتخاب ان معنوں میں گذشتہ انتخاب سے مختلف ہے کہ اس میں فرقہ پرست طاقتیں جارحانہ فرقہ پرستی میں یقین رکھنے والے انسانیت کے قاتل نریندر مودی کی قیادت میں دلی کے تخت پر قابض ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں اور اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک کے حق میں بے حد خطرناک ہوگا۔ اپنے مشن کی تکمیل کے لیے یہ طاقتیں میڈیا کے دوش پر سوار ہوکر ہر طرح کی جائز وناجائزحرکت کر رہی ہیں اور پوری طرح متحد ہیں جبکہ خود کو سیکولر کہنے والی جماعتیں باہم دست وگریباں ہیں۔ ان حالات میں یہ انتخاب رائے دہندگان کی بصیرت کا امتحان ہے۔ انہیں ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملک سیکولرزم کے اپنے دیرینہ خطوط پر گامزن رہے گا اور آئین وقانون کی حکمرانی برقرار رہے گی یا جارحانہ فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوگا اور سیکولرزم کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا جائے گا۔

مسلمانوں کی اہمیت کا احساس اور کبھی ہو یا نہ ہو لیکن انتخاب کے وقت ہر پارٹی کی نظر مسلمانوں پر ہوتی ہے۔ بھلے ہی مودی ٹوپی پہننے سے انکار کریں لیکن راج ناتھ سنگھ کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہے کہ ملک میں تقریبا پونے دو سو نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس لئے انہیں اپنے ووٹوں کی قیمت کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن سیاسی جماعتیں اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر مسلمان اپنی اس طاقت کا صحیح ادراک کرلیں تو وہ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سیکولرزم اس ملک کی ضرورت ہے اور خوش گوار امر یہ ہے کہ ملک کی اکثریت سیکولرزم میں یقین رکھتی ہے لیکن یہ مسلمانوں کی مجبوری بھی ہے اس لئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری ان پر دوسروں سے زیادہ ہے کیونکہ فرقہ پرستوں کی زد پر وہی رہتے ہیں ۔ کوئی سیاسی پارٹی فتح حاصل کرتی ہے یا شکست سے دو چار ہوتی ہے اس سے دوسروں کو بہت فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے انتخاب کے جو مراحل بچ گئے ہیں ان میں مسلمانوں کو بہت زیادہ سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے ووٹ تقسیم نہ ہونے پائیں۔

اس قت ہمارے پیش نظر بہار کا انتخابی منظر نامہ ہے۔ بہار میں پارلیمنٹ کی ۴۰؍ نشستیں ہیں جن میں سے ۱۳؍ پر انتخابی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ جن نشستوں پر انتخاب باقی ہے وہ بے حد اہم ہیں۔ اس لئے کہ ان میں بیشتر حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ سیمانچل ، کوسی ، متھلانچل سمیت ان حلقوں میں ان کا فیصد ۲۰؍ سے ۶۹؍ تک ہے۔ اس کے باوجود گذشتہ انتخاب میں کشن گنج کے علاوہ ساری نشستیں فرقہ پرستوں یا ان کے حامیوں کے قبضہ میں چلی گئیں اور یہ مسلم ووٹوں کے انتشار کی وجہ سے ہوا۔ اگر مسلمانوں نے سوجھ بوجھ سے کام لیا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوتے بلکہ ایوان میں مسلم نمائندگی میں بھی اضافہ ہوتا جس کی کمی کا رونا ہم روتے رہتے ہیں۔ اگر اس بار مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچالیا تو دونوں باتیں ہوسکتی ہیں۔ مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی نہ تو کوئی لیڈرشپ ہے اور نہ ہی وہ کسی کو لیڈر تسلیم کرنے کو تیار ہیں ۔ مسلم تنظیموں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خود ہی آپس میں متحد نہیں ہیں تو بھلا قوم کو کیسے متحد رکھ سکتی ہیں۔ مسلم تنظیموں اور دانشوروں کی جانب سے جیسی رہنمائی کی توقع تھی وہ نہ ہوسکی سوائے اس مبہم اپیل کے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار میں آنے سے روکیں اور سیکولر امیدواروں کو ووٹ دیں ۔ ساتھ ہی ان کی جانب سے مسلم نمائندگی میں اضافہ کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ کاغذی اپیل کی بجائے حلقوں کی سطح پر سیکولر امیدواروں کی نشاندہی کی جاتی۔ جب یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو ووٹ نہ دیا جائے تو یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ کسے ووٹ دیا جائے۔

تمام مسلم رائے دہندگان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ فرقہ پرست کون ہے۔ اسے پہچاننے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہے۔ ان کی الجھن کا سبب سیکولر امیدوار ہیں۔ ہر پارٹی سیکولر ہونے کی دعویدار ہے اور سب کے امیدوار میدان میں ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ مسلم امیدواروں کا انتخاب کریں یا اس سیکولر امیدوار کا جس کی پوزیشن مضبوط ہو۔ لیکن یہ نصیحت اس لیے ناکافی ہے کہ نہ تو سبھی مسلم امیدوار منتخب ہونے کا حق رکھتے ہیں اور نہ ہی عام آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ کس امیدوار کی پوزیشن مستحکم ہے۔ جہاں مسلمان ۲۵؍ فیصد سے یا اس سے زیادہ ہیں وہاں وہ جس طرف چلے جائیں اس کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ جہاں تک مسلم نمائندگی میں اضافہ کا سوال ہے میرے خیال میں یہ غیر ضروری اور لا یعنی بات ہے۔ کوئی بھی مسلم امیدوار اپنی پارٹی کا نمائندہ ہوتا ہے اور اسی کا وفادار اپنی قوم کا نہیں۔ اس کے اندر مسلم مسائل پر اپنی پارٹی کے اندر اور باہر کھل کر اظہار خیال کرنے کی جرأت نہیں ہوتی، ہم نے دیکھا ہے کہ بے قصور مسلم نوجوان دہشت گردی کے نام پر اندھا دھند گرفتار ہوتے رہے اور ان کے لبوں میں جنبش نہیں ہوئی۔ کسی نے لب کشائی کی بھی تو یہ کہنے کے لیے کہ انڈین مجاہدین گجرات فساد کا رد عمل ہے یا بابری مسجد کے بعد دہشت گردی پیدا ہوئی۔ گویا یہ اپنے قوم کے نو نہالوں کو تحفظ کیا فراہم کرتے ان کے گناہگار ہونے کی تصدیق کردی۔ ویسے استثنائی صورت ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام سیکولر جماعتیں مسلم آبادی والے حلقوں سے مسلمانوں کو ہی کھڑا کردیتی ہیں اور اور گویا اس طرح خود ہی فرقہ پرستوں کے لیے بازی مارنے کی راہ آسان بنادیتی ہیں۔ اگر مسلم امیدوار واقعی مخلص ہوتے تو آپس میں نہ ٹکراتے۔ لیکن سیاست کے تو کھیل ہی نرالے ہوتے ہیں اور کسی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دے۔ اختر الایمان نے ضرور ایک راہ دکھائی ہے جس کا مثبت اثر کش گنج کے انتخاب پر ہوگا لیکن بہر حال سیاست کی اخلاقیات ان کے اس اقدام کو درست نہیں قرار دیتی ہے۔ کیا ہمیں شاہنواز حسین اور محبوب علی قیصر کو بھی مسلمان ہونے کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیے ۔ حالانکہ ان کا تعلق فرقہ پرست بی جے پی یا اس کی حلیف جماعت سے ہے۔ یوں بھی اب مسلمان اتنے بے شرم ہوچکے ہیں کہ انہیں بی جے پی میں شامل ہونے میں بھی عار محسوس نہیں ہوتی۔ صابر علی تو خیر سے نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے لیکن ایم جے اکبر ، جمشید اشرف اور اخلاق احمد کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ایسے میں تو ہمیں رام بلاسوں سے شکایت بھی نہیں ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہمیں موجودہ وقت میں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پارلیمنٹ میں مسلم ممبران کی بھیڑ اکٹھا کرنی ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا امیدوار مرکز میں فرقہ پرستوں کو روکنے میں معاون ہوسکتا ہے۔

ریاست میں بی جے پی- ایل جے پی-راشٹریہ لوک سمتا پارٹی ، راجد -کانگریس اور جنتا دل یو اور سی پی آئی کا اتحاد ہے۔ چونکہ ایل جے پی کا اتحاد بی جے پی کے ساتھ ہے اس لیے اس کے امیدوار کو ووٹ دینا بی جے پی کو ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ کانگریس کی بنیاد بھلے ہی سیکولرزم پر ہو لیکن اس کے اقتدار میں مسلمانوں کو چین کے دن کم ہی نصیب ہوئے ہیں تاہم اگر بی جے پی اور کانگریس میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا مجبوری ہو تو Lesser Evil کے طور پر کانگریس ہی اس کی حقدار ہوگی۔ فرقہ پرستوں سے لوہا لینے میں لالو پرساد کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بوجوہ وہ فرقہ پرستوں کی حمایت کبھی نہیں کرسکتے۔ جنتادل متحدہ سترہ سالوں تک بی جے پی کی حلیف رہی ہے اور بظاہر مودی کے وزیر اعظم کے امیدوار بنائے جانے پر یہ اتحاد ختم ہوا ہے ۔ گویا اگر بی جے پی نریندر مودی سے دستبردار ہوجائے گی تو جدیو کے لیے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ حالیہ منظر نامہ یہ ہے کہ جد یو کا مقابلہ بی جے پی اور راشٹریہ جنتادل دونون سے ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا پہلا دشمن راجد ہے۔ مسلم آبادی والے حلقوں میں اس نے راشٹریہ جنتا دل کے مقابلہ میں جو امیدوار دیئے ہیں اس کا مقصد جیتنا نہیں بلکہ راشٹریہ جنتادل کے امیدواروں کو ہرانا ہے۔ اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ دونوں آپس میں ٹکرائیں اور دونوں ہی شکست سے دوچار ہوجائیں ۔ اگر یہ مقصد نہ ہوتا تو بیگو سرائے سے جد یو اور مدھوبنی سے سی پی آئی کا امیدوار ہوتا۔کیونکہ بیگو سرائے جد یو کی جیتی ہوئی نشست ہے جس سے مناظر حسین منتخب ہوئے تھے جبکہ مدھوبنی میں جدیو نے پچھلی بارامیدوار نہیں دیا تھا۔ یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے جسے مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے ۔ مسلم لیڈروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بآسانی سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ان سطور کے راقم کو کم از کم مدھوبنی سے جد یو کے امیدوار پر اس لیے افسوس ہے کہ وہ مسلم مسائل پر کھل کر بولتے تھے اور مسلمانوں کی حق تلفی کے لیے ریاست کے وزیر اعلی کو پانی پی پی کر کوستے تھے لیکن بالآخر خو د انہیں کا شکار ہوگئے اور اب حالت یہ ہے کہ جن خرابیوں کے واسطہ سے وزیر اعلی کو کوستے تھے پارٹی سے ٹکٹ ملتے ہی وہ ساری خرابیاں وزیر اعلی کی خوبیوں میں بدل گئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب مرکز میں کسی ایک پارٹی کے اقتدار کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔ انتخاب کے بعدجو بڑا محاذ ہوگا اسی کی حکومت ہوگی۔ علاقائی پارٹیاں اس میں اہم کردار ادا کریں گی۔ سیاست میں مستقل دوستی یا دشمنی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر کانگریس کی قیادت والے اتحاد کو حمایت دینے کا سوال پیدا ہوا تو جد یو اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ایسانہیں کرسکے گا کیونکہ کانگریس کے ساتھ راشٹریہ جنتا دل ہوگا۔ لیکن اگر بی جے پی والے محاذ کو حکومت سازی کے لیے حمایت دینے کی ضرورت پڑتی ہے تو نریندر مودی اور دیگر متازعہ ایشوز کے چھوڑنے کی شرط پر جد یو کے لیے اس کی حمایت میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی بھلے ہی اس کا اعتراف نہ کرے لیکن وہ یہ سمجھ چکی ہے کہ اس کے لیے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانا آسان نہیں ہے اور راج ناتھ سنگھ کا مسلم پریم اسی کا اشاریہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اس امیدوار کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جو مرکز میں فرقہ پرستوں کو روکنے میں موثر کردار ادا کرسکے۔

مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کا یک سبب ذات ، برادری اور مسلکی تقسیم بھی ہے۔ پھر یہ کہ مقامی سطح کی سیاست کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے۔ ایک ہی بستی میں ایک محلہ کے لوگ کسی امیدوار کی حمایت کرتے ہیں تو دوسرے محلہ والے محض اس لیے اس کی مخالفت کریں گے کہ ان کا مخالف گروہ اس کا حامی ہے۔ پارلیمانی انتخاب میں بھی ان کی ذہنیت پنچایتی انتخاب سے بلند نہیں ہوپاتی جو بد قسمتی کی بات ہے ۔ اس لیے ہر طرح کے آپسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر ملک وقوم کے مفاد میں ووٹ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشکل گھڑی میں زندہ قومیں متحد ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ مشکل گھڑی ہے جو ہم سے اتحاد کی متقاضی ہے۔ اگر ہمیں اپنی سیاسی بے وزنی ختم کرنی ہے تو اس کے لیے اتحاد شرط اولین ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کا صد فی صد ووٹ استعمال ہو۔ عام طو پر مسلم خواتین حق رائے دہی کا استعمال نہیں کرتی ہیں یہ رویہ درست نہیں ہے۔ جہاں بندوں کو تولنے کی بجائے گننے کا دستور ہو وہاں اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یاد رکھئے کہ اگر ہم ذات پات ، مسلک، رشتہ داری اور سطحی گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر متحد نہ ہوسکے تو انسانیت کے قاتل کو مسند اقتدار تک پہنچانے کے مجرم بھی ہم ہی ہوں گے اور اس دن ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم ہوگا۔

Shakil Ahmed Salfi
About the Author: Shakil Ahmed Salfi Read More Articles by Shakil Ahmed Salfi: 5 Articles with 2767 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.