صحافت کوبندوق کی نوک پر غلام نہیں بنایاجاسکتاہے

 پورے ملک میں اداروں کی تباہی کے ساتھ ساتھ عوام کی سوچ کو بھی منفی بنانے کے ایجنڈے پر کام شروع ہو چکا ہے این جی او کے کردار سے لیکر حکومتی فلاحی اداروں تک لوٹ مار کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور ہر فرد اس دوڑ میں آگے بڑھنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے وزرا کی فرعونیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے چند خیر خواہوں کو نوازنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کررہے اور انکے نیچے کام کرنے والے افسران کی رعونیت بھی کسی سے کم نہیں ہے اور تو اور ہمارے بعض افسران اپنے وزیر کو بھی کسی کھیت کی مولی نہیں سمجھتے آپ بہت دور نہ جا ئیں پنجاب کے محکمہ ایکسائز کو ہی دیکھ لیں جہاں نہ صرف وزیر اور انکے ڈی جی کی بول چال تک بند ہوچکی ہے بلکہ وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اسی طرح پاکستان بھر میں متعدد محکموں کے افسران اپنے وزیروں کو گھاس تک نہیں ڈالتے جس طرح وزیر الیکشن جیتنے کے بعد اپنے حلقہ کے عوام کو بوجھ سمجھتے ہیں بلکل اسی طرح کا رویہ انکے ساتھ حکومت میں رکھا جارہا ہے اور کوئی کھل کر ان کے خلاف نہیں بولتا بلکہ سب تماشہ دیکھنے میں مصروف ہیں ان حکومتی وزیروں اور اراکین اسمبلی نے عوام کا جو حشر کررکھا ہے اس پر بھی سب خاموش ہیں مہنگائی نے غریب انسان کا جینا مشکل کردیا ہے جبکہ مرنا اس سے بھی مشکل ہوچکا ہے اور زندگی کی سانس کو بحال رکھنے کی اسی کش مکش میں ہر فرد کی توجہ لوٹ مار کی طرف ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ ملاوٹ زدہ اشیاء کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے کمیشن مافیا کا ہر طرف راج ہے اور تو اور ایک جائز کام کروانے کے لیے بھی سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور آخر کار جائز کام اور اپنا حق مانگنے والے کو اپنا کام بھی ناجائز ہی محسوس ہونے لگتا ہے اور جب کبھی موقعہ ملنے پروہ کسی ملزم کی طرح ڈرتا ہوا مذکورہ وزیر سے مل ہی لیتا ہے تو اس وقت اسے ایسا رویہ برداشت کرنا پڑتا ہے کہ یا تو وہ اپنا حق مانگنا ہی چھوڑ دیتا ہے یا پھر کسی اور راستے کا انتخاب کرلیتا ہے ہمارے اپوزیشن لیڈروں کو ان سب باتوں کا علم ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے اور کان لپیٹ کر دوسری طرف نکل جاتے ہیں پاکستان میں اس وقت اگر کوئی شور مچا رہا ہے تو وہ شیخ رشید ہے جو ہر جگہ اور ہر وقت عوامی مسائل کی بات کرتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن متحد نہ ہوئی تو حکومت سب کو’’کھا‘‘جائے گی ،مجھے حکومت کے خلاف احتجاج کیلئے 4کروڑ نمازی نہیں حکومت کا سیاسی جنازہ اٹھانے کیلئے 4لوگ ہی چاہئیں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کر گئی تو پھر اﷲ ہی حافظ ہو گا‘اپریل سے دسمبر تک نوازشریف کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے وہ یا تو رہ جائے گا یا گھر چلا جائے گا ‘میں اکیلا ہی ون مین آرمی ہوں اور سب کو ایل بی ڈبلیو کروں گانوازشریف دور میں ہر پاکستانی 5550کا مقروض ہو گیا -

شیخ رشید نے اپنی سیاست کا آغاز جس غربت کی دلد ل سے کیا تھا وہ چاہتے ہیں کہ اس دلدل سے عوام کو نکالیں اگر اسی طرح ہمارے باقی کے سیاستدان بھی بن جائیں تو ملک میں راتوں رات تبدیلی کا عمل شروع ہو جائیگا اور اس کے لیے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا بھی بہت بڑا رول ہے کہ جس طرح کی سیاست کا آغاز انہوں نے کیا خود کوئی عہدہ لینے کی بجائے ورکروں کو نوازا اور پھر ان ورکروں سے عام ورکروں کے رابطے بحال ہوگئے اور ایم کیو ایم بھی مضبوط ہوگئی اگر الطاف حسین واپس پاکستان آتے ہیں تو حکومت میں شامل ہونے کی بجائے شیخ رشید اور فیصل رضاء عابدی کے ساتھ ملکر ملک کو اندھیروں سے نکالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ تینوں جب میدان میں نکلیں گے تو پھر باقی کے بھی جو عوامی خدمت کے دعویدار ہیں وہ خود بہ خود ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اورپھر پاکستانی قوم پیچھے کیسے رہ سکتی ہے اور رہی ایک کروڑ نمازیوں کی تلاش وہ نہ جانے کب اکٹھے ہوں اور کب مولانا طاہر القادری صاحب ان کی امامت کروائیں کیا ہی بہتر ہو کہ مولانا طاہرالقادری صاحب صرف چارلوگو ں کی جماعت کا اعلان کرکے میدان میں اﷲ اکبر کی صدا بلند کریں کیونکہ جنازہ اٹھانے کے لیے چار ہی افراد کی ضرورت پڑتی ہے باقی تو ثواب کی نیت سے ساتھ شامل ہوتے ہی رہتے ہیں -

قوم کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ابھی بھی چند انگلیوں پر گنے جانے والے لوگ انکے حقوق کی بات کرتے ہیں جب یہ بھی نہ رہیں گے تو پھر عوام کی کھال کے جوتے پہنے جائیں گے وہ بھی مردہ نہیں زندہ لوگوں کی کھینچ کر اس لیے جو عوام کی بات کرتے ہیں وہ عوام کی خاطر پہلے خود اکٹھے ہو جائیں اسکے بعد قوم ان کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار بن جائیگی ورنہ قوم کی باتیں کرکے قوم کو بیوقوف بنانے والوں کی نہ پہلے کمی تھی نہ اب ہے کیونکہ امیدوحسرت کی کرنیں جب ڈوبنے لگتی ہے اورمایوسیوں کا سمندر ٹھاٹیں مارنے لگتا ہے تو اس وقت اندھیرے کا وقت کاٹنا بہت مشکل ہوجاتا ہے مگر جب روشن صبح کا آغاز ہوتا ہے تو پھر اندھیرے کے زخم تکلیف تو بہت دیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں اس لیے کیا ہی بہتر ہو کہ ہمارے حقوق کی بات کرنے والے یہ چند سیاستدان ہمیں ہمیشہ یاد رہیں نہ کہ وہ بھی کسی اندھیری راہوں میں گم ہوجائیں۔
 جو ادارے یا لوگ یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ صحافت کو بندوق کی نوک پر غلام بنایا جاسکتا ہے وہ آج تو کم از کم احمقوں کی جنت کے ہی متلاشی دکھائی دیتے ہیں۔ عجب دہشت گردی کا دور چلا ہے کہ یہاں تو کوئی جان محفوظ ہی نہیں ہے۔کس کو محافظ جانیں اور کس کو منصف بنائیں؟حامد میر سے میرا اچھے کالم نگار اور بہترین اینکر پرسن ہونے پر عقیدت کا رشتہ ہے ۔جبکہ نہ تو میری ان سے کوئی ملاقات ہے اور نہ وہ مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں․․․․عجب تماشہ ہے کہ انتہائی محفوظ علاقہ جس پر سیکورٹی کے انتظامات بھی سابق آمر پرویز مشرف کی کراچی آمد کی وجہ سے انتہائی سخت ہونے کے باوجود اور اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ہے کہ حامد میر کی کراچی آمد کا کسی کو علم نہ ہونے کہ باوجود ان پر ٹارگیڈ حملہ کر کے انہیں خون میں کیونکرنہلا دیا گیا؟جس سے یہ بات یقینی لگتی ہے کہ اس حملہ میں ہائی فائی لوگوں کے ہاتھ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے!!!ان کی گاڑی کو پہلے ایک مسٹنڈے کلر نے برج کے نیچے نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔گاڑی کی اسپیڈ بڑھنے پر دہشت گردوں نے ان کا پیچھا کیا اور تین جانب سے گاڑی کوحصار میں لیکر ان پر دابارا فائیر کھولا گیا ۔دونوں جانب دو موٹر سائکلیں اور ایک کالے رنگ کی کار اس حملے میں استعمال کی گئی تھی۔ٹارگیٹرز کی کوشش تو شائد یہ تھی کہ حامد میر کا قصہ ہی تمام کر دیں مگر ایسا اس مقولے کے تحت’’جس کو اﷲ رکھے اُسے کون چکھے‘‘نہ ہوسکا ۔پہلی گولی چلنے پر حامد میر کے ڈرائیور نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھادی مگر آگے شاہراہفیصل پر گاڑی کی رفتار کم ہونے پر قاتل ان کے قریب پہنچ گئے اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر فائرنگ شروع کری جس سے حامد میر کو مزید کئی گولیاں اور لگیں اور وہ لہو لہان ہوگئے۔مگر قاتل و دہشت گرداسکوڈ کے ا رکان جس کے بھی پالتو تھے اپنے مقاصد کی تکمیل میں قدرت کے غیبی ہاتھوں کی وجہ سے نا کام رہے۔ پوری قوم کی دعاؤں کے نتیجے میں حامد میر ربِ کائنات کے حکم سے تین گھنٹے کے آپریشن کے بعد بڑی تیزی کے ساتھ رو بہ صحت ہو رہے ہیں۔

حامد میر ایسے صحافی اس قحط الرجال کے دور میں بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔انہی کے لئے شائد یہ شعر سب سے زیادہ موزوں لگتا ہے کہ ’’مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے‘‘ حامد میر جیسا جری صحافی موجودہ تاریخ میں بہت دیر سے پیدا ہواگا۔امریکن پٹھو،طالبان مذاکراتی عمل کو ثبوتاژ کرنے کی غرض سے پہلی فرصت میں تحریکِ طالبان پر اس حملے کی ذمہ داریاں ڈالنے میں منہمک ہوچکے تھے کہ ایک خبر کے مطابق کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد نے کہا ہے کہ حامد میر پر حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ اصل حکمرانی کس کی ہے انہیں بلوچ عوام پر خفیہ ادارے کے مظالم عیاں کرنے کی پاداش میں نشانہ بنایا گیا ہے۔مگر اسی کے ساتھ ایک خبر یہ بھی سامنے لائی گئی ہے کہ تحریک طالبان پنجاب نے حامد میر پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔اس کے برعکس تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی کے امیر عمر خراسانی نے حملے میں ملوث ہونے کی شدت کے ساتھ تردید کر دی ہے۔

حامد میر ایسا فرد ہے جو طاقتوروں اور اپنے آپ کوقانون سے بالا سمجھنے والے سرکشوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مظلوموں اور کمزوروں کے بارے میں بلا خوف و خطر سوالات بلند کرتا رہا ہے۔جس کے نتائج بھی وہ کئی بار بھگت چکا ہے اور اب بھی بھگت رہا ہے۔۔اس حملے سے پہلے کے دیئے گئے بیان میں حامد میر نے واضح کیا تھا کہ ’’اگر مجھ پر حملہ کیا گیا تو آئی ایس آئی کے چیف، جنرل ظہیرالاسلام اور دیگر حکام ذمہ دار ہونگے‘‘جس کی اطلاع حکومت ،فوج،گھر والوں اور چند دوستوں کو ،اور ان کے اپنے بھائی عامر میرنے جنگ گروپ کو بھی دے دی تھی۔حامد میر کے بھائی عامر میرکے بقول ویڈیو پیغام ریکارڈ کرا کے سی پی جے کو بھجواچکے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے اس اہم ادارے کے چند افراد پر لگنے ولے الزامات پر آرمی چیفجنرل راحیل شریف کا رد عمل کیاسامنے آتا ہے؟قوم یہ سمجھتی ہے کہ جنرل شریف،جنرل ظہیر الاسلام کو ایک طرف کر کے اس معاملے پر تحقیقات کرا کے قوم کو ضرور اعتماد میں لیں گے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس بات کا خوف ہے کہ لوگوں کے شکوک میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے گا اورجس سے ہماری بہادر فوج کے امیج پر ہمارے دشمن انگلیاں اٹھائیں گے۔یہ بات ہر صاحب دانش جانتا ہے کہ اداروں میں لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی ہے ۔ بلکہ ادارے کی عزت اور اس کا وقار سب سے زیاد اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

حامد میر کے درج بالا انکشاف کے بعد میجر جنرل عاثم سلیم باجوہ جو فوج کے تعلقاتِ عامہ کے سربرہ ہیں۔کی جانب سے ایک د ھمکی آمیز بیان سامنے آیا ہے۔جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’پاک فوج‘‘ اور آئی ایس آئی پر الزامات قابلِ برداشت ہیں!!!یہاں ساول یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی نے فوج پر الزام تراشی کی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج پر کوئی بھی محبِ وطن پاکستانی الزام لگانے سے پہلے ہزار بار سوچے گاضرور۔ جنرل سلیم باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینئر صحافی حامد میر پر حملہ شرپسند عناصر نے کیا ہے۔آئی ایس آئی پر الزامات بے بنیاد ارو افسوس ناک اور گمراہ کُن ہیں،ڈی جی آئی ایس آئی کی تصاویر چلانے اور الزامات لگانے پر آئین وقانون کے مطابق چارہ جوئی کریں گے․․․․

اب عوامی مطالبہ یہ سامنے آرہا ہے کہ اگر اس قبیح فعل میں آئی ایس آئی ملوث نہیں ہے (اﷲ کرے کہ نہ ہو)توحامد میر پر حملہ کرنے والے ملزمان کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہیرے میں لا کر کھڑا کرنا اس ادارے کے لئے کونسا ناممکن ہے۔ ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا،،آئی ایس آئی کی انوالمنٹ کے حوالے سے سینئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے کچھ عناصر مخصوص مفادات رکھتے ہیں! اب سوال یہ ہے کہ حامد میر نے فوج پر تو الزام کہیں بھی نہیں لگایا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ جب کسی جنرل پر الزام آتا ہے تو اس جنرل کے حمائتی فوری طور پر اس میں فوج کے ادارے کو ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عظیم ادارے کی آڑ میں اپنے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ایک جانب یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ آئی ایس آئی کے تقدس کیلئے جنرل ظہیرالاسلام استعفٰے دیدیں ۔ملک کے اعلیٰ ترین جاسوس ادارے پر یہ الزام اتنا سنگین ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے․․․․ اس الزام کو بہر کیف دھونا جنرل راحیل شریف کی ذمہ داری ہے۔

وزیر اعظم محمد نواز شریف نے سینئر صحافی اور جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر قاتلانہ حملے کی انکوائری اور حملے کی عدالتی تحقیقات کرنے کیلئے کمیشن بنانے کا حکم دیدیا ہے۔جس کے تحت تین رکنی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کمیشن کے ارکان کا تقرر چیف جسٹس آف پاکستان نے کر دیا ہے۔ حکومت کی طرف سے حامد میر کے قاتلوں کی نشان دہی کرنے والوں کو ایک کروڑ روپے انعام بھی دینے کااعلان کر دیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن صحافیوں کو خطرات ہیں انہیں سکورٹی فراہم کی جائے ۔یہ تما م احکامات و ہدایت و زیرِ اعظم کیجانب سے دی گئی ہیں۔

حامد میر پر حملے کی تحقیقات تو پولس اور دیگر اداروں نے شروع کردی ہے ۔عینی شاہدین کے ذریعے مجرموں کے خاکے بھی تیار کر لئے گئے ہیں۔مگر تین دن گذر جانے کے باوجود اس حملے کی ایف آئی آر اب تک حکومت سندھ نے درج نہیں کی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ حامد میر کے قاتلوں تک پہنچنا حکومت یا پولس کے لئے قطعئی مشکل نہیں ہے ۔جیو فینسنگ کی تیکنک استعمال کر کے مجرموں تک پہنچا جا سکتا ہے۔جس کے ذریعے اُن لوگوں کو ان کے موبائل فون کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حامد میر کے کراچی ائیر پورٹ سے جیو دفتر کے راستے کے سی سی ٹی وی کیمرے پر اسرارطور پر خراب پائے گئے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پورے راستے کے کیمرے کن لوگوں نے خراب کئے ہیں؟ظاہر ہے چھوٹے لوگ یہ کام آسانی کے ساتھ کر ہی نہیں سکتے ہیں اس میں ضرور کوئی پر اسرار اور بڑی قوت شامل ہے۔ جو صحافت اور میڈیا کو بندوق کی نوک پر غلام بنائے رکھنا چاہتی۔جو فی زمانہ تو نا ممکن ہے۔
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.