جدید ٹھگ

انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہوا اس مقام تک جا پہنچا ہے، ماضی میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انسان کا یوں مسلسل ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے چلے جانا اس کی غور و فکر اور تدبر کی واضح دلیل ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ غوروفکر اور علوم و فنون کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت سے لوگ جہالت پر مبنی اقدامات کی بدولت تنزلی کی گہری گھاٹیوں میں گرتے جارہے ہیں اور جعلی عاملوں و جعلی پیروں کے ہاتھوں استعمال ہوکر بلاسوچے سمجھے جان، عزت و آبرو اور مال برباد کرنے میں مشغول ہیں۔ آئے روز ملک میں جعلی عاملوں اور پیروں کے حوالے سے ایسے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں، جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، بلکہ ایسے واقعات کی صداقت پر یقین ہی نہیں آتا، کیونکہ کسی بھی عقل مند انسان سے ایسے گھناﺅنے افعال کا صادر ہونا ناممکن معلوم ہوتا ہے، لیکن کیا کیا جائے،کسی انسان سے جن احمکانہ حرکتوں کے صدور کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی ”برکت“ سے وہ سب کچھ ہورہا ہے۔

گزشتہ دنوں مری میں ماموں کے ہاتھوں دو بھانجوں کے لرزہ خیز قتل کے بعد ملک بھر میں جعلی عامل اور جعلی پیر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ مبینہ طور پر ظالم ماموں نے معصوم بھانجوں کو ایک ”جاہل عامل“ کے کہنے پر اپنی مراد پانے کے لیے سفاکیت کے ساتھ ذبح کیا، جبکہ اس واقعہ سے ایک روز قبل ہی ملتان میں بھی ایک نوجوان جعلی اور جاہل پیر کے ”فرمان “پر عمل کرتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ کسی جعلی پیر نے نوجوان کو بتایا کہ ان کے گھر کے نیچے خزانہ دفن ہے۔ نوجوان اس ”مدفون خزانے“ کو نکالنے کے لیے تقریباً 30 فٹ لمبی اور ٹیڑھی میڑھی تنگ سرنگ کھود کر اس میں خزانہ ڈھونڈنے جا گھسا۔ اس نوجوان کو اس سرنگ سے خزانہ تو نہ ملا، لیکن موت کا پروانہ ضرور مل گیا۔ اسی طرح ماہ گزشتہ کے آخر میں بھی میانوالی میں جعلی عامل کی کرتوت سامنے آئی تھی۔ جعلی عامل نے اپنے بے اولاد مرید کو یہ ہدایت کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر وہ کسی بچی کو قتل کرے گا تو اس کے اولاد ہوگی، جس پر ظالم و سفاک مرید نے جاہل پیر کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے ہی پڑوسی کی ایک چار سالہ بچی کو ذبح کردیا تھا۔ یہ تو صرف تین واقعات پیش کیے گئے ہیں، ورنہ پورے ملک کا سروے کرنے سے تو سالانہ اس قسم کے سیکڑوں واقعات سامنے آسکتے ہیں۔

ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اس قسم کے ”مذہب فروش“ اپنا دھندا چلانے کے لیے عوام کو ”الو“ بنانے میں مشغول ہیں۔ متعدد بار جعلی عاملوں اور پیروں کی جعل سازی سامنے آجانے کے بعد بھی عوام کی بڑی تعداد ان دھوکا بازوں کی” دکانوں“ کو چارچاند لگانے کا سبب بن رہے ہیں۔ زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان دھوکا بازوں کے ہاتھوں صرف کم پڑھے لکھے یا جاہل افراد ہی استعمال نہیں ہوتے، بلکہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد بھی بڑی تعداد میں ان دھوکے بازوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ، لیکن ان کے آستانے آباد کرنے والوں میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔ دھوکا باز عاملین چٹکی بجاتے میں خواتین کے مسائل کو حل کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹورتے ہیںاور سادہ لوح خواتین ان کی باتوں میں آکرمسائل کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت بھی گنوا بیٹھتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو مختلف قسم کے پریشان کن عوارض پیش آتے رہتے ہیں اور انسان کا ان عوارض سے پریشان ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن ہر پریشانی سے نکلنے کا بہترین حل بہتر پلاننگ ہوتا ہے۔ معاشرتی، معاشی و سماجی مسائل تو ہر معاشرے میں ہوتے ہی ہیں، ایسے مسائل تب ہی حل ہوسکتے ہیں جب انہیں طریقے کے مطابق حل کیا جائے۔ اگر کسی کو نوکری نہیں مل رہی، کوئی اچھا رشتہ نہیں مل رہا، کاروبار نہیں چل رہا، گھریلو ناچاقی ہے، گھر میںبیماری ہے اور اسی قسم کا کوئی مسئلہ ہے تو ان مسائل کے اسباب پر غور کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کسی کو نوکری اس لیے نہ مل رہی ہو کہ اس کمپیٹیشن کے دور میں وہ نوکری کے معیار پر پورا ہی نہ اترتا ہو۔ ممکن ہے کاروبار اس لیے نہ چل رہا ہو کہ کاروبار چلانے والے کو کاروبار کا صحیح طریقہ اور تجربہ ہی حاصل نہ ہو۔ بیٹی کے رشتے میں رکاوٹ اس لیے بھی ہوسکتی ہے کہ اس کی عمر زیادہ ہوگئی ہو اور زیادہ عمر میں لڑکیوں کے رشتے ویسے ہی کم آتے ہیں۔ گھر میں ناچاقی فریقین میں سے کسی کے مزاج کی بدولت بھی ہوسکتی ہے۔ طویل بیماری اس لیے ہو کہ ابھی تک کسی مستند ڈاکٹر سے علاج ہی نہ کروایا ہو یا ڈاکٹر مرض کی تشخیص ہی نہ کرپایا ہو۔ اس قسم کے مسائل کا عاملوں اور پیروں سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ حقائق کو نظرانداز کر کے ایسے مسائل کا حل عاملوں اور پیروں کے پاس جاکر ڈھونڈنا سراسر عقل کے منافی ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے، جنہیں کسی سائکاٹرسٹ، سائیکالوجسٹ کی ضروت ہوتی ہے، لیکن لوگ ایسے مسائل کا حل بھی عاملوں اور پیروں کے پاس جاکر ڈھونڈتے ہیں۔ کچھ لوگ محنت کیے بغیر عاملوں کے ذریعے شاٹ کٹ طریقے سے امیر بننا چاہتے ہیں، حالانکہ اگراس طرح راتوں رات امیر بننا ممکن ہوتا تو دوسروں کو امیر بنانے والا یہ عامل یوں آستانہ بنا کر مکھیاں نہ مارتا۔یہ صرف اورصرف عوام میں شعور اور فہم کی کمی ہے جو ہربات کا سرا عاملوں اور پیروں کے ہاتھ میں پکڑادیا جاتا ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہوجانے کے بعد لوگ اتنے بد حواس ہو جاتے ہیں کہ انہیں جہاں بھی امید کی تھوڑی سی کرن دکھائی دیتی ہے، اسی جانب چل پڑتے ہیں۔جبکہ عامل حضرات لوگوں کی نفسیاتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ جعلی عامل وجعلی پیر لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے خود کو روحانی اسکالر، روحانی ڈاکٹر اور پیر کامل ظاہر کرتے ہیں۔ اپنی ہنر مندی، قابلیت کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ مجبور لوگ ان سے مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، ان کے دعوﺅں کو سن کرمسائل کے گرداب میں پھنسے لوگ یہی خیال کرتے ہےں کہ ہماری پریشانی کا حل یقینی طور پر ان کے پاس ہے۔ یہ جعلی عامل اور جعلی پیر اپنی مہارت کا پروپیگنڈا نہایت تکنیک کے ساتھ کرتے ہیں، لوگوں کو ورغلانے کے لیے وال چاکنگ، بینرز، پمفلٹ اور اسٹیکرز کے علاوہ اب یہ اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بھی استعمال کرنے لگے ہیں۔ زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس قسم کے دھوکا بازوں کی تعداد میں بھی بے پناہ ترقی ہورہی ہے، جو معاشرے کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ دنیا کے تمام مہذب اور تعلیم یافتہ ممالک اور معاشروں میں اس قسم کے گھناو ¿نے کا روبار پر مکمل طور پر پابند ی عاید ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان لوگوں کا کاروبار عروج پر ہے ، جو عوام کو دھوکا دے کرنہ صرف انہیں لوٹ رہے ہیں، بلکہ موت سے بھی ہمکنا ر کر رہے ہیں۔معاشرے میں ایسے رستے ناسوروں کی صفائی کی ضرورت ہے۔ تمام صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ جعلی عاملوں اورجعلی پیروں پر پابندی کی سخت قانون سازی کریں، تاکہ آیندہ کوئی جاہل شخص کسی جعلی عامل اور جعلی پیر کے حکم پر کسی ماں کی گود نہ اجاڑ سکے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.