آج ایک معروف نیوز چینل پر ایک
ایسی خبر نشر ہو رہی تھی جسے سُن کر ہم چونک اُٹھے ۔خبر یہ تھی کہ ایک
لاہور ی خاتون نے اپنے میاں کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے کہ اُس کے شوہر نے
اُس کے پیٹ میں ’’ٹریکر‘‘ فِٹ کروا دیا ہے تاکہ اُس کی نقل و حرکت کا پتہ
چل سکے ۔یہ خبر شاید ابھی تک NGO,s کی خواتین تک نہیں پہنچی لیکن ہمیں یقین
ہے کہ جونہی یہ خبر آزادی ِ نسواں کی علمبرداروں تک پہنچے گی تو اِک شورِ
قیامت اُٹھے گا اور پوری دُنیا کو پتہ چل جائے گا کہ پاکستانی خواتین کتنی
آزاد و خود مختار ہیں ۔ویسے اِس ’’بیہودہ‘‘ حرکت پر جلسے جلوس اور ریلیاں
نکالنے کا تو ہمارا حق بنتا ہے کیونکہ اگر احتجاجی ریلیاں نہ نکالیں تو
ہماری NGO,s کو یورپ اور امریکہ سے ملنے والی ڈھیروں ڈھیر امداد کے بند
ہونے کا شدید خطرہ ہے ۔ہم جب بھی آزادیٔ نسواں یا حقوقِ نسواں کی بات کرتے
ہیں تو پتہ نہیں مردوں کے پیٹ میں کیوں ’’مروڑ‘‘ اُٹھنے لگتے ہیں ؟۔وہ تو
اﷲ بھلا کرے NGO,s کی خواتین کا جو ہماری آزادی کی جنگ میں ہمہ وقت مصروف
رہتی ہیں ۔اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو ہم تو مَر ہی گئے ہوتے ۔
خاتون کے پیٹ میں ٹریکر فِٹ کرنے کا واقعہ سُن کر ہمارے ذہن میں ایک اچھوتا
اور نرالا خیال یہ آیا ہے کہ اگر حکومت کو ہمارے عظیم ’’کمانڈو‘‘ سے اتنا
ہی خطرہ ہے کہ وہ موقع پا کر باہر کھسک لیں گے تو حکومت اُن کے پیٹ میں بھی
ٹریکر فِٹ کر وا دے لیکن مسٔلہ یہ ہے کہ بِلّی کے گلے میں گھنٹی کیسے
باندھیں؟۔ ہمارے کمانڈو تو انجیو گرافی بھی پاکستان میں کروانے سے انکاری
ہیں کہ اُن کے خیال میں یہاں سبھی ’’نالائق‘‘ بستے ہیں ، پھر بھلا وہ اپنے
پیٹ میں’’ سوراخ‘‘ کیسے کروا لیں ۔کمانڈو نے جب اسلام آباد سے کراچی جانا
تھا توپہلے تو مختلف روٹ لگائے گئے اور ہر روٹ کی سڑک کو گھنٹوں بند رکھا
گیا ۔پھر ایئر پورٹ پرتمام جہازوں کو ’’گراؤنڈ‘‘ کر دیا گیا اور فضاء میں
پرواز کرنے والے جہازوں کو اُتنی دیر تک لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جب
تک اُن کا طیارہ پرواز نہیں کر گیا ۔ہو سکتا ہے کہ ہماری’’با خبر‘‘
ایجنسیوں نے یہ اطلاع دی ہو کہ فضاء میں پرواز کرنے والے جہاز طالبان سے
بھرے ہوئے ہیں اور اگر اُنہیں لینڈ کرنے کی اجازت دی گئی تو کمانڈو کا بچنا
محال ہے ۔بہرحال جو کچھ بھی ہوا پرویز مشرف صاحب بخیریت اپنی بیٹی کے گھر
پہنچ گئے ۔وہ اُسی سڑک سے گزرے جس پر حامد میر کا جسم گولیوں سے چھلنی کیا
گیا لیکن حامد میر تو محض ایک صحافی اور اینکر ہے ۔وہ کوئی سابقہ صدر ، چیف
آف آرمی سٹاف اور آل پاکستان مسلم لیگ کا بانی صدر تو نہیں تھا کہ اُس کے
لیے سڑکوں پر روٹ لگایا جاتا اور آرمی اور رینجرز کی گاڑیوں کے جلوس میں
گھر تک پہنچایا جاتا ۔پرویز مشرف کی کراچی آمد پر سب سے خوبصورت تبصرہ قائدِ
حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ کا تھا ۔اُنہوں نے فرمایا کہ مشرف صاحب کی
کراچی آمد اُن کی بیرونِ ملک روانگی کا پہلا مرحلہ ہے ۔اب وہ ملک سے نکل
جائیں گے اور الزام سندھ حکومت پر آ جائے گا ۔ویسے حیران ہم بھی ہیں کہ آخر
پرویز مشرف صاحب اپنے چَک شہزاد کے محل کو چھوڑ چھاڑ کر کراچی کیوں سدھارے
َ؟۔ اُن کے محل میں تو اُنہیں دُنیا جہان کی ہر سہولت میسر تھی اور دل
بہلانے کا سامان بھی ۔پھر آخر کونسی ایسی آفت آن پڑی کہ وہ اپنی پسندیدہ
ترین چیزوں کو داغِ مفارقت دے کر کراچی آ گئے ۔اگر اُنہیں اے ایف آئی سی کے
ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں تھا تو پی این ایس شفاء تو اُس سے کہیں کم تر درجے
کا ہسپتال ہے ۔اگر وہ ’’بیماریٔ دل ‘‘میں مبتلاء ہیں تو پھر اے ایف آئی سی
ہی بہتر تھا لیکن لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے
۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ پرویز مشرف صاحب کے جسم میں بھی ’’ٹریکر‘‘ فِٹ کر
کے اُنہیں کھُلا چھوڑ دیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا جائے کہ پاکستان
کی غریب حکومت اُن کی سکیورٹی پر اُٹھنے والے اخراجات کا بوجھ برداشت نہیں
کر سکتی۔ ہمیں بھی اب تھوڑا تھوڑا یقین ہونے لگا ہے کہ ہمارا کمانڈو با
لآخر کھسک ہی جائے گا ۔ویسے ایک بات ہے کہ ہمارے الطاف بھائی بھی تو دھڑلے
سے باہر بیٹھے ہیں اور میمو گیٹ سکینڈل والے حسین حقانی بھی ۔اگر مشرف صاحب
بھی وہاں چلے جائیں تو ہرج ہی کیا ہے کہ ’’خوب گزرے گی جو مِل بیٹھیں گے
دیوانے تین‘‘ ۔
ہمارے ایک بہت معروف لکھاری اور دانشور جو کسی زمانے میں نواز لیگ کے
ثناخواں اور پارلیمنٹ کے رکن تھے ، آجکل نواز لیگ پر گرجتے برستے رہتے ہیں
۔وجہ صرف یہ 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نواز نے اُنہیں پارلیمنٹ کا ٹکٹ
دینے سے انکار کر دیا جو ہمارے نزدیک سراسر گھاٹے کا سودا تھا ۔اتنے عظیم
لکھاری اور ارسطوانہ ذہن کے مالک دانشور، جن کے بارے میں بلا خوفِ تردید یہ
کہا جا سکتا ہے کہ’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ اُسے بھلا
ٹکٹ نہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ۔عظیم لکھاری نے اپنے کالم میں میاں نواز
شریف صاحب کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ وہ فوج کے ساتھ اُلجھاؤ کی پالیسی
اختیار کرتے رہتے ہیں اور کسی پُر اسرار اور گہرے نفسیاتی مسلے کی وجہ سے
دفاعی اداروں کے ساتھ نباہ کرنا دشوار پاتے ہیں ۔محترم لکھاری کہتے ہیں’’
وزیرِ اعظم نے اپنے بے لچک رویے اور اصول پرستی کا نمونہ بنتے ہوئے ریٹائرڈ
اور حاضر سروس آفیسرز کو تاؤ دلا دیا ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ جب شریف
برادران قید میں تھے تو مشرف نے اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں بیرونِ
ملک جانے کی اجازت دے دی تھی لیکن اب جب آرمی چیف پر ایسا وقت آیا تو سول
حکومت لچک کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی لکھا ’’ سوچنے
کی بات ہے کہ پرویز مشرف کے اتنے وسیع فارم ہاؤس کے گرد بم پروف دیوار
بنانے سے دبئی کا ٹکٹ کہیں زیادہ سستا پڑتا۔ کیا ہم براہِ کرم اِس موضوع پر
بات کرتے ہوئے آئین اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کرنے سے احتراز نہیں کر
سکتے ‘‘۔عرض ہے کہ جہاں تک پُر اسرار اور گہرے نفسیاتی مسلٔے کا تعلق ہے تو
محترم لکھاری اِس بارے میں ہم سے کہیں بہتر جانتے ہونگے کیونکہ اُن کا اور
میاں برادران کا ساتھ بہت پرانا ہے البتہ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ
ٹکٹ نہ ملنے کے غم میں محترم لکھاری گہرے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں ۔ جہاں
تک فوج کو تاؤ دلانے کا تعلق ہے تو اُس کا نظارہ اُنہوں نے پی ایم اے کاکول
کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں کر ہی لیا ہو گا جہاں میاں نواز شریف صاحب کو بطور
مہمانِ خصوصی بلایا گیا حالانکہ 2013ء کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں جنرل اشفاق
پرویز کیانی نے میاں صاحب کو دعوت نہیں دی تھی اور یہ کوئی ضروری بھی نہیں
تھا لیکن شاید جنرل راحیل شریف نے میڈیا پر اُٹھنے والے طوفان کو مدّ َ نظر
رکھتے ہوئے میاں صاحب کو دعوت دی تاکہ گَرد بیٹھ جائے اور ہُوا بھی ایسا ۔آج
سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین تناؤ قصّۂ پارینہ بن چکا ہے ۔۔۔مکرر عرض ہے
کہ یہ بجا کہ دبئی کا ٹکٹ بہت سستا ہے اور بم پروف دیوار بہت مہنگی لیکن
کیا کوئی ملک آئین و قانون کی حکمرانی کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے؟۔محترم
لکھاری نے اپنے کالم میں ایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے میں لگا دیا ہے کہ
میاں نواز شریف صاحب آمریت کی پیداوار ہیں لیکن شاید کسی گہرے نفسیاتی
مسٔلے کی وجہ سے وہ خود ہی یہ اقرار بھی کر گئے کہ اُنہیں آمریت ہی مرغوب
ہے کیونکہ جس آئین و قانون سے احتراز کا وہ درس دے رہے ہیں وہ صرف آمروں کا
ہی شیوہ ہے ۔
|