بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارت کی طرف سے طویل عرصہ سے پاکستان کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیاجارہا ہے
کہ یہاں ہندو ؤں کے اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان کے جان و مال محفوظ نہیں
ہیں۔اس سلسلہ میں نہ صرف پوری دنیامیں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششیں کی
گئیں بلکہ وطن عزیز پاکستان خاص طور پر سندھ میں موجود ہندو ؤں کو گمراہ
کرنے کی مذموم سازشیں کی گئیں اور سبز باغ دکھائے گئے کہ وہ بھارت آجائیں
تو انہیں وی آئی پی پروٹوکول دیاجائے گا۔ وہ امن و سکون سے رہیں گے۔ ان کے
کسی لڑکی کے مسلمان ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہے گا۔ بھارت سرکار کی جانب سے
پاکستانی ہندوجو بڑی تعداد میں وہاں مندروں میں پوجا پاٹ کیلئے جاتے ہیں۔
ان کی ذہنی سازی کی گئی کہ آپ ایک ماہ کیلئے وزٹ ویزا پر آتے ہیں۔ آپ چھ یا
سات برسوں تک آسانی سے اس کی توسیع کرواسکتے ہیں جس کے بعدبھارتی شہریت
حاصل کرناانتہائی آسان ہوجاتا ہے۔انہیں بتایا گیا کہ آپ سے قبل بھی کئی
پاکستانی ہندوبھارتی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ بھارت کی طرف سے سندھ کے جن
علاقوں میں ہندو اکثریت میں ہیں وہاں ایسی این جی اوز کھڑی کی گئیں جنہیں
باقاعدہ یہ مشن سونپا گیا کہ وہ اس حوالہ سے ہندوؤں کی ذہن سازی کریں اور
انہیں بھارت ہجرت کرنے کے فوائد بتلائے جائیں۔ مذکورہ این جی اوز نے عمر
کوٹ، مٹھی ، تھرپارکر اور دیگر دور دراز کے علاقوں میں آباد نہایت غریب
ہندوؤں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا اورسادہ لوح لوگوں کو طریقے بتلائے گئے
کہ لاہور سے براستہ واہگہ بھارت جانا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں
کھوکھرا پار مونا باؤ ٹرین روٹ کے ذریعے بھارت جانا بہت آسان ہے اور اس میں
صرف چند سو روپے لگتے ہیں۔ ایک مرتبہ یہ چند سو روپے خرچ کر کے آپ اپنے اور
اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بناسکتے ہیں اور اگر آپ اتنابھی نہیں کر سکتے تو
ہم اس سلسلہ میں بھی آپ کی مدد کو تیار ہیں۔ جیکب آباد، سکھر ڈویژن،
لاڑکانہ اور بلوچستان میں موجود ہندوؤں کو بھی یہی سبق پڑھایاجاتا رہا ۔
چند سال قبل کئی ہندو خاندان اس پروپیگنڈا کا شکار ہوئے اور بھارت چلے گئے
جس پر انڈیا نے اس مسئلہ کو بہت زیادہ اچھالا، پوری دنیا پر واویلا کیاگیا
اوراس کے ایک ریاستی وزیر ایم راما چندن نے راجیہ سبھا میں تحریری بیان جمع
کروایا کہ 2009ء سے 2011ء تک تین سالہ مدت کے دوران بھارت نے سات سوسے زائد
پاکستانی ہندوؤں کو بھارتی شہریت دی ہے اور ہمیں مزید ہندوؤں کی درخواستیں
بھی موصول ہوئی ہیں۔بھارت سرکار نے چند سو ہندوؤں کی مبینہ ہجرت پربہت شور
مچایااور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک میں اقلیتوں کے غیر محفوظ
ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا لیکن وہ ہندو جو بیچارے بھارتی پروپیگنڈے کا شکار
ہو کر یہاں سے چلے گئے وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورہو گئے اور شدید
سردی کے ایام میں دہلی کی سڑکوں پر راتیں بسر کرتے رہے مگر کوئی انہیں وہاں
پوچھنے اور پناہ دینے والا نہیں تھا۔ خود بھارتی میڈیا میں یہ خبریں نمایاں
انداز میں شائع ہوئیں کہ پاکستان سے ہجرت کر کے جانے والے بچے اور عورتیں
سرد موسم کے رحم و کرم پر ہیں اور دہلی میں جنتر منتر کے قریب کھلے کیمپ
میں زندگی کے ایام گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔اس دوران بھارتی حکومت کی
جانب سے یہ ہدایات بھی جاری کر دی گئیں کہ یہ لوگ بھارت چھوڑ کر واپس
پاکستان نہ جائیں اور دوسری طرف لمبے عرصہ تک ان کی شہریت کابھی بندوبست
نہیں کیا گیا جس سے یہ متاثرین دوہرے کرب کا شکار ہو کر رہ گئے کیونکہ ایک
جانب وہ پاکستان چھوڑ کر آچکے تھے اور دوسری طرف بھارت میں کوئی ان کا حال
پوچھنے والا نہیں تھا۔بھارت سرکار کا یہی وہ رویہ تھا کہ اس کا ہندوؤں کی
ہجرت اور ان کے پاکستان چھوڑنے کا مذموم پروپیگنڈا زیادہ دیر نہیں چل
سکا۔پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائی گئی ہے۔ بانی
پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنے خطبات میں بارباریہ بات کہی
تھی کہ پاکستان میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ ویسے
بھی اسلام اقلیتوں کے حقوق کا مکمل محافظ ہے اور دنیاکے کسی مذہب میں
اقلیتوں کو اتنی آزادی نہیں جتنی پاکستان میں انہیں حاصل ہے۔ وہ آزادی سے
اپنے تہوار مناتے اور عبادت کرتے ہیں انہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔تھرپارکر،
عمر کوٹ اور مٹھی کے وہ علاقے جہاں کے ہندوؤں کو بھارت ہجرت کے سبق پڑھائے
جاتے رہے ہیں وہاں قحط سالی صورتحال پیدا ہوئی تو بھارت کی پروردہ یہ این
جی اوز کہیں نظر نہیں آئیں بلکہ رفاہی و فلاحی تنظیم جماعۃالدعوۃ جس کے
بارے میں شدت پسندی کا بے بنیاد پروپیگنڈا کیاجاتا ہے اس کے رضاکارہر طرف
انسانیت کی خدمت کرتے نظر آئے۔دو دن قبل جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد
سعید نے خود مٹھی، تھرپارکر اور دیگر متاثرہ علاقوں کا دورہ کیااور اپنے
ہاتھوں سے بلاتفریق مذہب مسلمانوں اور ہندوؤں میں لاکھوں روپے مالیت کا خشک
راشن، سلائی مشینیں، بکریاں اور امدادی سامان پر مشتمل اشیاء تقسیم کیں۔ان
کی آمد پر مٹھی میں ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جسمیں اتنی کثیر
تعداد میں ہندوؤں نے شرکت کی کہ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی آنکھیں
کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ جماعۃالدعوۃ جیسی تنظیم
کے جلسہ میں اتنی بڑی تعداد میں ہندو کیسے پہنچ گئے؟ایسا ہی ایک مرتبہ پہلے
بھی دیکھنے میں آیا تھاکہ جب جماعۃالدعوۃ کے ادارہ خدمت خلق پر پابندیاں
لگائی گئیں تو سینکڑوں کی تعداد میں ہندو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں نے اپنے
خاندانوں کے ہمراہ حیدر آباد اور کراچی میں اس پابندی کے خاتمہ کیلئے
زبردست احتجاجی مظاہرے کئے اور میڈیا کو بتایاکہ یہ لوگ برسوں سے ہماری
خدمت کر رہے ہیں اور ہمارے جینے کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ بی بی سی ہندی سروس
نے حافظ محمد سعید کے دورہ کے دوران لیاجانے والا انٹرویو نشر کیاہے جس میں
بار بار نریندر مودی اور یہاں موجود ہندوؤں کی امداد کے حوالہ سے سوالات
کئے گئے ہیں جس پر انہوں نے بغیر کسی مذہب اور رنگ ونسل کے انسانیت کی خدمت
کو اپنا اسلامی فرض قرار دیا اور کہاکہ پاکستان میں ہندوؤں سمیت تمام
اقلیتوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس لئے نریندر مودی کوپاکستان
میں بسنے والے ہندوؤں کو بھڑکانے کی بجائے بھارت میں موجود مسلمانوں کے
تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔حافظ محمد سعیدنے یہ بھی کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ
مودی سنیں کہ پاکستان میں ہندوؤں کی زندگی کس قدر محفوظ ہے اور ان کی حالت
ویسی نہیں ہے جیسی بھار ت میں مسلمانوں کی ہے۔ بی بی سی ہندی سروس نے ان کے
ایک ٹویٹ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ اسلام ہمیں دوسرے
مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف تشدد کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ان کا یہ
انٹرویو ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ نے مودی
کے مخالفین کو پاکستان ہجرت کرنے اور وشوا ہندو پریشد کے سربراہ پراوین
توگاڑیہ کی طرف سے مسلمانوں کو دو دن میں ہندو علاقوں سے نکل جانے کی
دھمکیاں دی ہیں۔ اس سے دنیا کوبخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گرد ی کون
پھیلا رہا ہے؟ اور امن کون چاہتا ہے؟جماعۃالدعوۃ کی طرف سے ہندوؤں کی امداد
کی اس کے مخالفین بھی تحسین کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں بعض مقامات پر
ہندوؤں پر حملے کئے گئے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی بہت بڑی سازش ہے تاکہ
ہندوؤں کے دلوں میں نفرت اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کیاجاسکے۔جماعۃالدعوۃ
کے رضاکار پچھلے کئی برسوں سے ان علاقوں میں ہندوؤں کی مدد کر رہے ہیں جس
سے سینکڑوں کی تعداد میں ہندوخاندانوں نے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہے۔
جماعۃالدعوۃ تھرپارکر اور دیگر علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت کے واٹر
پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔ ہزاروں خاندانوں میں خشک راشن تقسیم کیا گیا ہے
اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے چیئرمین حافظ
عبدالرؤف مسلسل ان علاقوں میں موجود رہ کر خدمت انسانیت کے اس عمل کی
نگرانی کر رہے ہیں۔ جماعۃالدعوۃ کے رضاکار ان دور دراز علاقوں میں پہنچ کر
انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں جہاں تک کوئی نہیں پہنچ رہا۔ اﷲ تعالیٰ ان کے
اس عمل کو ضرور شرف قبولیت سے نوازے گا۔ پوری پاکستانی قوم کی دعائیں ان شا
ء اﷲ ان کے ساتھ ہیں۔ اس طرح یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ پاکستان میں
اقلیتوں کی عبادت گاہیں، جان و مال اور عزت و آبرو سب کچھ محفوظ ہے۔جب
ہندوؤں کو جماعۃالدعوۃ کی خدمت پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو بھارتیوں کو بھی
اس پر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ |