حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی وجہ سے میڈیا اور
آئی ایس آئی کے درمیان ہونے والے تنائو کسی بھی اعتبار سے قومی مفاد میں
نہیں۔ آئی ایس آئی اور میڈیا ریاست کے دو اہم ستون ہیں میڈیا کے پاس اظہار
رائے کی تلوار ہے، تو آئی ایس آئی کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کا شاہد مکمل
ادارک میڈیا کو نہیں ہے، اظہار رائے کی تلوار کا امین ہونا اس امر کی دلیل
نہیں کہ محض زبان کی تلوار سے ریاست کا تحفظ کرسکیں گے، سبھی اداروں کا
اپنا اپنا دائرہ اختیار ہے، جب کوئی ادارہ اس دائرے سے باہر نکل کر دوسرے
ادارے کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو ملکی نظام میں تلاطم آجاتا
ہے، اگر ایسے بر وقت چیک کرلیا جائے تو حالات بگڑنے سے بچ جاتے ہیں، آزادی
صحافت مقدس پیشہ ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ قومی سلامتی کوملحوظ خاطر نہ
رکھا جائے، اس حوالے سے ایک تجزیہ نگار کے الفاظ بڑی اہمیت کے حامل ہیں،
حامد میر کے تنازعے میں ایک نہیں درجنوں صحافیوں کے اصولوں کے بخیے ادھیڑ
دیئے گئے وہ کچھ لکھا سنا اور کہا گیا جو کسی عام پیشہ ورانہ طور پر چلائے
جانے والے ادارے کے لیے باعث خفت ہے، الزامات کو معلومات میں بدل دیا گیا
ہے، نا قابل اشاعت قابل اشاعت ہیں اول فول تجزیہ بن گیا اور بے پرکی ہانکنے
والے آزادی صحافت کے علمبردار بن بیٹھے ہیں، غدر مچا ہوا ہے، جہاں صحافت
اور خرافات میں فرق نہیں رکھا جائے گا، تو نتیجہ وہی ہوگا جو ہمارے سامنے
ہیں، اگر آپ کسی کو قاتل کہیں گے تو کم از کم وہ آپ کو غدار تو کہے گا، جب
صحافت کے نام پر طافت کا کھیل کھیلا جائے گا تو پھر اسی کھیل کے اصول لاگو
ہونگے اور وہ اصول ایک ہی ہے کہ طاقت کے کھیل میں کوئی اصول نہیں-
گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کو جن اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے
اس سے نمٹنے کے لیے ملکی میڈیا کو انتہائی ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا
میڈیا نے یہ آزادی کئی دہائیوں کی شبانہ روز محنت اور نا مساعد حالات کا
مقابلہ کرکے حاصل کی ہے، اس آزادی کو کسی کی انا کے خاطر بھینٹ نہیں چڑھانا
چاہیے، مستحکم جمہوریت اور ذمہ دار میڈیا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و
ملزم ہیں، پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اس وقت آزادی تیسری دنیا
اسلامی دنیا اور ترقی پذیر ممالک میں مثالی حثییت کی حامل ہے، لیکن اسکا
مطلب یہ نہیں کہ ہم سلامتی کے اداروں کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھیں ، صحافی
اور دانشور معاشرے کے ایک ایسا طبقہ شمار کیے جاتے ہیں جن کا ہاتھ وقت اور
حالات کی نبض پر ہوتا ہے، وہ ایک تواتر سے واقعات اور منظر ناموں کا مشاہدہ
اور تجزیہ کررہے ہوتے ہیں، آئی ایس آئی کو جس بے جاں تنقید کا نشانہ بنایا
جارہا ہے اسکا تدراک کرنا ضروری ہے-
جنگ گروپ کی انتظامیہ نے حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد جس تواتر سے بغیر
کسی تحقیق کے قومی سلامتی کے ادارے پر الزام تراشیاں کی اسکی مثال نہیں
ملتی آئی ایس آئی پر بہتان تراشیاں کرکے جنگ گروپ نے نہ صرف اپنے ادارے کی
ساکھ کو نقصان پہنچایا، بلکہ مقدس صحافتی پیشے کو بدنام کرکے صحافتی اصولوں
کو خاک میں ملادیا، اب عوام خود جیو کے خلاف مظاہرے رلیاں نکال کر اپنی فوج
اور آئی ایس آئی سے اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر آچکی ہیں اتنی بدنامی کے
بعد بھی جیو نیوز اپنی ہٹ دھرامی پر قائم ہے، اور تواتر کے ساتھ ائی ایس
آئی کے خلاف میڈیا ٹرائل کرنے میں مصروف ہیں، بقول شیخ رشید صاحب کے جیو کے
کچھ لوگ عوام پر اپنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں، آئی ایس آئی پر الزامات سے
بھارتی مندروں میں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں-
مجھے خوف آرہا ہے کہ اس لڑائی سے جو اب شروع ہوئی ہے ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں
اس سے کوئی تیسری قوت فائدہ نہ اٹھا لے اور میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ
حکومت اور فوج ایک پیچ پر نہیں ہے، ایک فزکس کے پیچ پر ہیں اور دوسرا
کیمسٹری پر ہے، اگر حالات کو سبنھالنا ہے تو نواز شریف اپنے ان تھری ایڈیٹ
کو قابو میں رکھیں یہ کہتے تھے کہ کشکول توڑ دیں گے یہ تو دیگچا لے کر
پھرتے ہیں، میری خواہش ہے کہ عمران خان طاہرالقادری جماعت اسلامی اور عوامی
مسلم لیگ مل کر باہر نکلیں طاہرالقادری نے مجھے کہا ہے کہ میں اس بار فائنل
رائونڈ کھیلنے آئوں گا، جیو کے مالک میر شکیل الرحمان سے درخواست کرتے ہیں
کہ وہ اپنے باپ دادا کا اثاثہ ضائع ہونے سے بچائے اور قومی سلامتی کے
اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے سے باز رہے- |