حامد میر پر قاتلانہ حملے کے تناظر میں آئی ایس آئی اور
اسکے چیف پر لگائے جانے والے الزامات کے پس پردہ چھپے منصوبہ کی تہہ تک
پہنچنے کے لیے ہٹلر کا یہ قول پڑھئیے ۔پھر آپ کو سارا کھیل سمجھ آجائے گا
…… ایڈولف ہٹلر کہتا ہے’’ کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ
ہے ،کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنا دو کہ وہ اپنے
ہی محافظوں کو اپنا دشن سمجھنے لگے‘‘ حامد میر پر حملے کے فوری بعد آئی ایس
آئی اور اسکے چیف پر الزامات لگانا بہت ہی غیر معمولی واقعہ ہے۔ اب ملک کے
سیاسی رہنماوں کا موقف جاننے کے لیے ان کے بیانات کا مطالعہ کرتے ہیں۔جماعت
اسلامی کے ایک راہنما سینٹر پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’’ ابھی تک
تحقیقات میں حامد میر پر حملے کے الزام کا الزام آئی ایس آئی پر لگا ہے۔
تحقیقات مکمل ہونے تک یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ جرم آئی ایس آئی نے نہیں
کیا‘‘ دوسرے لفظوں میں پروفیسر صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ آئی ایس
آئی اور اسکے چیف کو بے گناہ قرار نہیں دیا گیا لہذا ہم آئی ایس آئی کو’’
مجرم ‘‘ کہتے رہیں گے۔جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق نے کہا ہے
کہ فوج اور ھکومت کے درمیان اگر کوئی تناو ہے تو اسے ختم ہونا چاہئے۔
سابق وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزماں کائرہ کہتا ہے کہ’’حامد میر کے ساتھ
جو ہوا وہ قابل مذمت ہے،تاہم بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے الزام لگانا درست
نہیں ہے،جیو ٹی وی مضبوط اور طاقتور ادارہ ہے اور وہ مسلسل طاقت کا مظاہر
کر رہا ہے۔‘‘ قمر الزماں مذید کہتا ہے ’’ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب جیو کی
طرف سے کہا گیا تھا کہ ہم جس چاہیں حکومت میں لے آئیں جب کوئی ادارہ اس طرح
کا گمنڈ کرتا ہے تو وہ برحال خطرناک ہی ہوتا ہے‘‘ اسی بیاں میں قمع الزماں
کائرہ آگے چل کر بہت ہی پتے کی بات کہتا ہے۔کہ’’ جب حامد میر کا واقعہ
رونما ہوا تھا تو وزارت دفاع اور وزارت اطلاعات کا کام تھا کہ وہ آگے سامنے
آتیں اگر وہ نہیں آئیں تو تو انکی سوچ ہوگی کہ اگر ہم نے کہا کہ جیو نیوز
کو بند کر دیا جائے تو بھی حکومت کے لیے منفی تاثر پیدا ہوگا‘‘ معروف بزنس
مین عقیل کرین ڈھیڈی بھی ایک دور کی بات لایا ہے ۔کہتا ہے کہ حامد میر کی
گاڑی میر شکیل الررحمن کے سمدھی کی کمپنی کی ملکیت ہے ۔ کسی بھی حادثے کے
بعد سب سے پہلے گاڑی کے ڈرائیور اور مقتول یا مضروب کے گارڈز سے پوچھ گچھ
کی جاتی ہے ۔مگر یہاں ایسا نہیں ہوا ۔تحقیقاتی اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ
حامد میر کے ڈرائیور ،گارڈ اور گاڑی کے مالک سے سلسلہ انجباتی شروع کرے ۔
ایم کیو ایم کی رہنما واسع جلیل کے خیال میں حامد میر کے گارڈ اور ڈرائیور
تک دیگر چینلزکی رسائی نہ ہونا ایڈونچرازم ہے۔
سب سے اہم اور موقعہ کی اہمیت اور مناسبت سے اہم سولات ایم کیو ایم کے قائد
الطاف حسین نے اٹھائے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں۔کہ ’’ حامد میر نے اپنی کراچی آمد
اطلاع ،وقت اور فلائیٹ نمبر کی معلومات جیو انتظامیہ کے کن کن لوگوں کو
فراہم کی تھی؟ اور جن جن لوگوں کو انکی کراچی آمد کی خبر تھی ……حامد میر کو
ائیرپورٹ سے لانے کے لیے کیا انتظامات کیے گے تھے ؟انہوں نے حامد میر کو
بلٹ پروف گاڑی فراہم کی تھی ……جن افراد کو حامد میر کی کراچی آمد کی اطلاع
تھی انہوں نے کس کس کو اس سے آگاہ کیا تھا؟الطاف حسین کہتا ہے کہ ’’حامد
میر تو کوئٹہ جا رہا تھا تو پھر اسے کراچی آنے کے لیے کس نے مجبور یا قائل
کیا؟ الطاف جیو انتظامیہ سے یہ بھی سوال دریافت کرتے ہیں کہ قاتلانہ حملے
کے بعد حامد میر کو ہسپتال( جہاں اب وہ زیر علاج ہیں) میں ڈرائیور خود اپنی
مرضی سے لایا تھا یا حامد میر کے کہنے پر اسے اس ہسپتال میں لایا گیا ؟ یو
ں تو الطاف بھائی نے اور بھی بڑی اہمیت کے حامل سوالات کیے ہیں ۔مگر ان سب
کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں سو چیدہ چیدہ لکھ دئیے ہیں تا کہ سند رہے اور
جیو انتظامیہ انکا جواب فراہم کر سکے۔
پاکستان بار کونسل نے بھی جیو گروپ کی جانب سے حامد میر پر قاتلانہ حملے
میں پاک فوج اور آئی ایس آئی کو ملوث کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چودہری نے بار کونسل ایک
بیان میں کہا ہے کہ ایک میڈیا گروپ کی طرف سے ایک منظم سازش کے تحت ملک کے
دفاع کو کمزور کرنے کے لیے پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے فوج اور آئی
ایس آئی پر الزامات انہیں دیوار سے لگانے کی سازش ہے۔میں نے جن شخصیات کا
موقف بیان کیا گیا ہے۔ان سب نے حامد میر پر قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں
نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اسبات پر بھی زور دیا ہے کہ اس سفاکانہ فعل کے
مرتکب کرداروں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ انہیں قرار واقعی سزا بھی
دی جائے۔
انسانی حقوق کی علمبردار اور ممتاز رہنما عاصمی جہانگیر کا کہنا ہے کہ
’’جیو نیوز نے تمام حدیں پار کرلی تھیں اور وہاں بے شرمی کی حد تک شہریوں
کی تذلیل کی جاتی تھی‘‘ البتہ عاصمہ جہانگیر نے کسی بھی میڈیا ہاوس کی بندش
کی مخالفت کی ہے،اور اسے مسلے کا حل قرار نہیں دیا۔تحریک انصاف نے حامد میر
پر قاتلانہ ح،لے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی ہے۔اور کہا ہے کہ آئی ایس
آئی پر الزامات دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔تحریک انصاف نے
ساری بگاڑ کی وجہ وزیر اعظم کی خاموشی اور وزرا کے غیر ذمہ دارانہ بیانات
کو ٹھہرا یا ہے۔ معروف صحافی و تجزیہ نگار اور سابق رکن قومی اسمبلی ایاز
امیر نے جیو نیوز کی انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ اس کو اس صورت حال میں
آئی ایس آئی کے خلاف مہم جوئی سے ا جتناب کرنا چاہئے تا کہ صورت حال کو
معمول پر لایا جا سکے جو ملک کے مفاد میں ہے۔ پاکستان براڈ کاسٹر ایسو سی
ایشن نے میڈیا کو ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرنے کی نصیحت کی ہے۔…… اﷲ کے
فضل و کرم سے حامد میر ہوش میں آگیا ہے۔اور اسکے بھائی نے انکا ایک بیان
بھی میڈیا کو پڑھ کر سنادیا ہے، بظاہر اس بیان میں آئی ایس آئی کے چیف
لیفنینٹ جنرل ظہیرالااسلام کا نام نہیں لیا گیا مگر ریاستی عناصر کے حواالے
سے الزام تراشی کا سلسلہ ہنوز جاری رکھا گیا ہے۔ اگرچار پانچ دن کی سوچ
بچار کے بعد بھی حامد میر اور عامر میر اپنے سابقہ موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں تو
ہر پاکستانی کی طرح میرا بھی یہی سوال ہے کہ اتنے دن پولیس کے روبرو پیش
ہوکر اپنا بیان قلم بند اور اپنے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے
کیوں نہیں پہنچے؟ جیسا کہ اسلام آباد پولیس نے عامر میر کے اس بیان کی
پرزور تردید کی ہے کہ انہوں نے اسلام آباد پولیس کو ملنے والی دہمکیوں کے
حوالے سے فون نمبر فراہم کیے تھے۔
سابق صدر آصف علی زرداری سے لیکر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تک اور
انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر سے عقیل کریم ڈھینڈی تک،تمام انسانی
حقوق کی اور صحافتی تنظیموں کے عہدے داران تک سبھی نے یک زبان ہوکر حامد
میر پر قاتلانہ حملے کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ ملزمان کو قانون کے کٹہرے
میں لانے کے لیے غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس
مقصد کے لیے چیف جسٹس سید تصدق حسین جیلانی نے تین رکنی تحقیقاتی کمیشن بھی
تشکیل دیدیا ہے۔جس کا پہلا باضابطہ اجلاس اٹھائیس اپریل کو کراچی میں طلب
کر لیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جیو کی انتظامیہ کو اس کمیشن پر اعتماد
نہیں اسی لیے تو انہوں نے اس کمیشن کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
میرے خلاف میں جیو نیوز اس لڑائی کو بہت ہی وسیع پیمانے پر لیجانے کا آرزو
مند ہے۔ لیکن یہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے جو چاہئے پسند کرے ۔اسے سوچنا
ہوگا کہ یہ معاملہ اب پیمرا کے پاس ہے اسے فیصلے کرنے دینا چاہئے کیونکہ
ادارے کا احترام سیکھ کر ہی جینا جیو کا نعرہ ہے۔اب اس پر خود اداروں کا
احترام کرنا لازم ہے۔ |