نظریہ چاہیے کوئی بھی ہو ، جبر کے ذریعے کسی پر مسلط کرنے
کی اجازت دنیا کا کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو نہیں دیتا ۔اسلام توخود امن
و سلامتی کا نام اورمکمل نظام حیات ہے اور دین میں جبر کا ازخود سب سے بڑا
مخالف ہے لہذا کسی بھی قومیت کا شہری اس حوالے سے متضاد رائے نہیں رکھتا کہ
اسلام کے نام لیوا کبھی بھی اصلاح کے نام پر فساد کے پھیلاؤ کا سبب نہیں
بنیں گے۔ پاکستان کی بنیاد صرف دو قومی نظرئیے پر رکھی گئی تھی اور نظریہ
کبھی بھی ایک دو سال کی پیداوار نہیں ہوتا کہ متحدہ ہندوستان کے حامی یکدم
پاکستان کے بانی بن گئے بلکہ تاریخ میں پسنے والی قوموں میں انقلاب مختلف
ادوار میں پیدا ہوتے ہوئے آتش فشاں بن جاتے ہیں اور ایک دن وہ لاوا پھوٹ کر
تباہی مچا دیتا ہے۔ جنگ آزادی1857ء کے دس سال بعد 1867ء میں سید احمد خان
نے اردو ، ہندی جھگڑے کے باعث ہندو ،مسلم علیحدہ علیحدہ اور کامل قوموں کا
نظریہ پیش کردیا تھا ۔یہ نظریہ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے والوں کے لئے
دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا اور پاکستان کی تخلیق کیلئے اس
نظریہ کو اخذ کرکے 1947ء میں پاکستان کو ہندوستان سے الگ مملکت میں ڈھالا
گیا ۔مکتبہ علی گڑھ کے قائدین نے اس دو قومی نظرئیے کو منطقی انجام تک
پہنچانے کیلئے 1906ء میں نہ صرف شملہ وفد کو منظم کیا بلکہ آل انڈیا مسلم
لیگ کے نام سے مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ نمائندہ سیاسی جماعت بھی قائم
کردی۔دو قومی نظریہ کے خالق کے طور پر علامہ اقبال کا نام بھی ہے جنھوں
نے1930ء الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی
صدارت میں دو قومی نظرئیے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا۔1936ء سے 1938ء تک
سراقبال نے جتنے مکتوب جناح کو بھیجے ہیں اس میں بھی دو قومی نظرئیے کا عکس
صاف نظر آتا ہے۔محمد علی جناح خود دو قومی نظرئیے کے سب سے بڑے حامی تھے
انھوں نے نہ صرف آل انڈیا نیشنل کانگریس کی تاحیات صدر بننے کی پیش کش کو
مسترد کیا بلکہ علما ء دیو بند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی مول
لی اور اسی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیا۔پاکستان مذہبی آزادی کے نام پر
حاصل کیا گیا تھا ۔جس میں تمام مذاہب کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گذار
سکے۔قائد اعظم جانتے تھے کہ بیرونی جارحیت کیا ہوتی ہے اور اس کے لئے کن
عزم کی ضرورت ہے ۔انگریز مسلمانوں کے خلاف کیا کرنا چاہتا تھا اس کے متعلق
قائد اعظم نے اکتوبر 1938ءسندھ مسلم لیگ کی سالانہ کانفرنس میں کہا تھا کہ
"برطانیہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بھیڑیوں کے حوالے کرنا چاہتا ہے ، اس میں
شبہ نہیں کہ برطانیہ سے وہی بازی لے جا سکتا ہے جس میں قوت ہو ۔"متحدہ
ہندوستان کے مشہور نیشنلسٹ اخبار "مدینہ"(بجنور) کی ۱۷ ِاپریل ۱۹۶۳ ٗ کی
اشاعت میں مولانا اسرا راحمد آزاد دیو بندی کا ایک مقالہ شائع ہواتھا جس
میں انہوں نے لکھا تھا "یہ الزام بے بنیاد ہے کہ علما ء ہند اَس ملک میں
اسلامی حکومت کیلئے کوشاں رہے ہیں ۔دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والے
علما ء نے کم از کم اس صدی کے آغاز سے ہندوستان میں جمہوری اور سیکولر
حکومت کو اپنا واضح نصب العین قرار دے لیا تھا "۔دارالعلوم دیو بند کے شیخ
الحدیث اور جمعیت العلما ء ہند کے صدر (مولانا) حسین احمد (مرحوم) کا ارشاد
تھا "ایسی جمہوری حکومت جس میں ہندو ، مسلمان ، سکھ ، عیسائی سب شامل ہوں ،
حاصل کرنے کیلئے سب کو متحدہ کوشش کرنی چاہیے ایسی مشترکہ آزادی اسلام کے
عین مطابق ہے اور اسلام میں اس آزادی کی اجازت ہے ۔(رُمزم ،مورخہ ۷ ِ
جولائی ۱۹۳۸ ء) ۔"مولانا مدنی کا پمفلٹ ، متحدہ قومیت اور اسلام کے صفحہ
نمبر ۶۱ میں فرماتے ہیں"کانگریس میں ہمیشہ ایسی تجاویز آتی رہتی ہیں اور
پاس ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے مذہب ِ اسلام کے تحفظ ار وقار کو ٹھیس نہ
پہنچے ۔" اگست ۱۹۴۸ ء محمد علی جناح کی جس تقریر کو وجہ جواز بنا کر نظریہ
پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ہم ایسے بھی موضوع بحث نہیں بناتے
کیونکہ نصابی کتابوں سے اس اقتباس کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کرنے
کے بعد طوطے کی طرح پاکستانیوں کو "نظریہ پاکستان" رٹانے کی کوشش کی جاتی
رہی بالاآخر اس اقتباس کو بھی نصاب سے ختم کردیا گیا اور قوم کو قیاس
آرائیوں پر بحث مباحثے کے لئے چھوڑ دیا گیا ۔لیکن تاریخ یوں آسانی سے مٹا
ئی نہیں جاسکتی ۔ کسی شک و شبے سے بالاتر کم از کم یہ بات طے شدہ ہے کہ
محمد علی جناح نام نہاد خود ساختہ " مذہبی پیشوائیت" کی اجارہ داری نہیں
چاہتے تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد بحیثیت گورنر جنرل ، فروری ۱۹۴۸ ء میں
اہل امریکہ کے نام براڈ کاسٹ پیغام میں واضح طور پر کہا کہ "پاکستان کی
دستور ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے ۔ میں نہیں جانتا
کہ اس آئین کی آخری شکل کیا ہوگی ۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے
بنیادی اصولوں کا آئینہ دار جمہوری انداز کا ہوگا ۔اسلام کے یہ اصول آج بھی
اسی طرح عملی زندگی پر منطبق ہوسکتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوسکتے
تھے۔اسلام نے ہمیں وحدت ِانسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل و دیانت کی تعلیم
دی ہے ۔ آئین پاکستان کے مرتب کرنے کے سلسلہ میں جو ذمہ داریاں اور فرائض
ہم پر عائد ہوتے ہیں ان کا ہم پورا پورا احساس رکھتے ہیں، کچھ بھی ہو، یہ
امر مسلمہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت میں بھی تھیا کریسی رائج نہیں
ہوگی جس میں حکومت مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں دے جاتی ہے کہ وہ (بزعم خویش
)خدائی مشن کو پوارا کریں۔( تقاریر بحیثیت گورنر جنرل صفحہ ۶۵)"۔محمد علی
جناح نے واضح طور پر بتا دیا کہ وہ تھیا کریسی نظام کو رائج نہیں ہونے دیں
گے ۔محمد علی جناح سے اپریل ۱۹۴۳ ء میں صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن
نے ایک پیغام کیلئے درخواست کی ۔ آپ نے جواب میں فرمایا ـ"تم نے مجھ سے کہا
ہے کہ میں تمہیں کوئی پیغام دوں ، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ ہمارے پاس
پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے جو ہماری راہنمائی اور بصیرت افروزی کیلئے
کافی ہے ، وہ پیغام ہے خدا کی کتاب عظیم ، قرآن کریم ۔"(تقاریر ، جلد اول
صفحہ ۵۱۶)
۱۳ ِ نومبر ۱۹۳۹ ء قوم کے نام عید کا پیغام نشر فرمایا ۔(اس زمانے میں ملک
میں ہنگامہ اور فساد ہورہے تھے ) آپ نے قوم سے کہا ـ"جب ہمارے پاس قرآن
کریم ایسی مشعل ِ ہدایت موجود ہے تو پھر اس کی روشنی میں ان اختلافات کو
کیوں نہیں مٹا سکتے ؟ (تقاریر جناح ، شائع کردہ شیخ محمد اشرف ، جلداول
صفحہ۱۰۸)"وہ بندھن ، وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر ، خدا کی عظیم کتاب ،
قرآن مجید ہے ، مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں
زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی ۔۔۔ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول
ﷺ،فلہذا ایک قوم ۔(تقاریر ، جلد دوم صفحہ ۵۰)۔
اب جو عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ بزور طاقت کسی فرقے کے خلاف شدت پسندی کرکے
وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنا لیں گے تو ایسی سوچ خلاف اسلام ہے کیونکہ
جب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسلام بزور طاقت نہیں پھیلایا اور اصحاب
رسول ﷺ ،اسلامی حکومتوں یا تمام فقہ کے اماموں نے کبھی کسی فرقے کے خلاف
قتل وغارت کو جائز قرار نہیں دیا تو پھر پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و
غارت اور حملوں کا واحد مقصد ، اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پاکستان کی
بقا ء اور سا لمیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان کی بنیاد کو کمزور کرکے
بنگلہ دیش کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا مقصود ہے۔پاکستان کے بانیان اور اکابرین
نے کبھی بھی فرقہ وارانہ بنیاد پر انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد
نہیں کی۔ایک فلاحی و رفاعی مملکت کا بہتر ین تصور اسلام کے سوا کون دے سکتا
ہے اور دنیا میں لافانی اصولوں اور قوانین پر مشتمل نظام حیات قرآن کریم سے
بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے ؟۔محمد علی جناح نے کبھی کسی فرقہ وارایت کا پرچار
نہیں کیا۔ہمیں قائد اعظم کا پاکستان صرف جناح کے اصولوں کے مطابق بنانا
ہوگا کیونکہ اساس پاکستان بھی یہی ہے اور نظریہ بھی۔قائد اعظم محمد علی
جناح کے لاتعداد تقاریر ، ان کے قول و فعل ہی نظریہ پاکستان ہیں۔ اب یہ
ارباب اختیار کی مجرمانہ کوتاہی ہے کہ انھوں نے قوم کو بے خبر رکھا ہوا ہے۔ |