آئی ایم ایف کی تلوا گیر حکومت نے بجلی
مہنگی کر کے عوامی پر مہنگائی کا بم گرا دیا ہے
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے
حکومت کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان کی لاج رکھنے کا وقت ہے
رینٹل پاور منصوبوں کی منظوری ....اور آئی ایم ایف کی نئی چال
عوام کو روٹی ، کپڑااور مکان مہیا کرنے کا نعرہ لگاتے نہ تھکنے والی حکومت
اور اِس کے حکمرانوں کی یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ ایک طرف تو پہلے باقاعدہ
ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں بے لگام
اضافہ کیا اور پھر جس عوام کے بے حد اصرار اور احتجاجوں کے بعد حکومت نے
محض دکھاوے کے لیے گزشتہ دنوں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اونٹ کے منہ
میں زیرہ برابرکمی کر کے ایک طرف تو عوام کو یوں بے قوف بنایا کہ عوام بھی
یہ دیکھ لے اور جان لے کہ اِس عوامی حکومت اور اِس کے عوام دوست حکمرانوں
کو عوام کی تکالیف کا کتنا احساس ہے کہ انہوں نے اِن کی خواہش کے مطابق
پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھی ہوئی قیمتوں کو اپنی پہلی فرصت میں کم کر کے ایک
اچھا اقدام کیا ہے تو اُدھر ہی دوسری طرف اِن ہی حکمرانوں نے آئی ایم ایف
کے دباؤ میں آکر آئی ایم ایف کے ڈیکٹیشن کے مطابق اپنی پہلے سے ہی تہہ شدہ
پلاننگ کے تحت یکم اکتوبر سے بجلی کے نرخ میں یکدم سے 6 فیصد کا اضافہ کر
کے ملک کی ساڑھے سترہ کروڑ کمزور اور لاغر عوام پر مہنگائی کا بم بھی
گرادیا ہے اور میرے نزدیک یہ حکمران اِس طرح کر کے آج یوں مطمئین ہیں کہ
عوام تو عوام ہیں ۔ اِن کا کیا ہے ۔؟ حکمران انہیں خواہ جتنا بھی ذلیل کریں
اور جتنے بھی جوتے بھیگا بھیگا کر ماریں۔ یہ حکمرانوں کے تو ہوتے ہی دم
چھلے ہیں۔ یہ حکمرانوں کو چھوڑ کر کہیں بھاگنے والے نہیں ہیں۔ اِن کی فکر
حکمرانوں کو نہیں کرنی چاہئے۔ بس حکمران وہ کام یکسوئی اور خندہ پیشانی سے
کئے جائیں جس کے کرنے سے امریکی سرکار اور آئی ایم ایف جیسا دنیا کا بڑاسود
خود ادارہ اِن کے تلوا گیری سے خوش ہوتا رہے اور بس رہے نام امریکا کا.....اِس
کے علاوہ حکمرانوں کو عوام کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ اگر حکمرانوں کو کوئی
فکر کرنی بھی چاہئے تو وہ صرف امریکا کی اور آئی ایم ایف جن کی خوشنودی سے
حکمرانوں کو مسندِ اقتدار نصیب ہوتا ہے۔
اصل میں ہمارے پاکستانی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ بین الاقوامی ادارہ
آئی ایم ایف اِن سے ناراض ہوگیا۔ تو حکمرانوں کا کیا بنے گا۔ عوام کا کیا
ہے وہ تو ہر اُس لیڈر کو اپنا مسیحا جانتی ہے جو اِس کے مسائل حل کردے ۔عوام
کو تو اِن کے مسائل انتخابات سے قبل جیسے تیسے حل کر کے تو منایا جاسکتا ہے
مگر یہ ادارہ آئی ایم ایف اگر اِن سے ناراض ہوگیا تو پھر اِس کوئی نہیں منا
سکتا۔ اِس لئے حکمرانوں نے آئی ایم ایف کی خوشنودی کو مقدم جانا اور عوامی
تکالیف کو درگزر کرتے ہوئے وہ ہی کیا جس کے بارے میں یہ بہت پہلے ہی یہ
عندیہ دے چکے تھے کہ ہم اکتوبر میں آئی ایم ایف کے ترجیحی دباؤ میں ہر صورت
میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کریں گے۔ خواہ اِس کے خلاف پور اپاکستان ہی
احتجاجی تحریک چلائے مگر جو فیصلہ ہم آئی ایم ایف سے کرچکے میں اِس سے ایک
قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور یوں جو حکمرانوں نے کہا وہ انہوں نے آج
ڈنکے کی چوٹ پر بجلی کی قیمت میں یکمشت 6 فیصد اضافے کا اعلان کر کے کر
دکھایا اور اَب یہ بھی ہم پاکستانیوں کے لئے ایک ایسی مصمم حقیقت بن چکی ہے
کہ آئی ایم ایف پاکستان کے لئے ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے کہ جو پاکستان کو
قرض دے دے کر اِسے دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھوکھلا کئے جارہا ہے اور ہم
پاکستانی اور ہمارے حکمران اُس عادی ہیروئنچی کے مانند ہو کر رہ گئے ہیں کہ
جس کی زندگی کی سانسیں ہیروئن اور اِس کے نشے کے بغیر نہیں چل سکتیں اور
بلکل اِسی ہیروئنچی کی طرح جب اِسے ہیروئن کی طلب کے وقت ہیروئن مل جائے تو
اُس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک سی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ پھر سے ترو تازہ
ہو کر جھوم اٹھتا ہے بلکل اِسی طرح جب ضرورت کے وقت ہم پاکستانیوں اور
ہمارے حکمرانوں کو کہیں سے بھی قرض ملنے کی امید پیدا ہوجاتی ہے تو ہمارے
حکمرانوں کے دلوں میں اپنے منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اور بہت سی ایسی
غیر ضروری آرزوئیں اور امیدیں بھی پیدا ہونے لگتی ہیں کہ جن کی وجہ سے
ہمارے منصوبے ہماری خواہشات اور آرزوں کے شکنجوں کی نظر ہوکر رہ جاتے ہیں
اور پھر یوں ہماری غیر ضروری آرزوئیں تو پوری ہوجاتی ہیں مگر ہمارے وہ
ضروری اور اہم منصوبے دب جاتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم نے قرض لیا ہوتا ہے۔
اِسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ قرض لینے کا اپنا ایک الگ ہی نشہ ہوتا ہے اور
کسی اور چیز( خاص طور پر ہیروئن، شراب اور دیگر چیزوں) کا نشہ تو پھر ہوتا
ہی نشہ ہے جو ایک بار منہ لگ جائے تو پھر اِن کا چھٹنا مشکل ہوجاتا ہے اور
اِس کے ساتھ ہی ہمارے معاشرے میں یہ بھی بہت مشہور ہے کہ جو فرد اور کسی
بھی قوم کا حکمران ادائیگی قرض کے متعلق خود ہی سے دل فریب ذرائع آمدنی کا
تصور باندہ کر اپنے غیر ضروری اخراجات کے لئے بے دھڑک قرض لے تو وہ ایک
ایسی سخت ترین غلطی کا مرتکب ہوتا ہے کہ بسا اوقات جس کا اِسے بعد میں
ازالہ کرنا بھی ناممکن ہوجاتا ہے کیوں کہ قرض کوئی ایک فرد اپنی ضرورتوں کو
پورا کرنے کے لئے لے یا کسی ملک کا سربراہ اپنے حکومتی اُمور کو چلانے کے
لئے قرض کا کشکول اٹھائے اِس کے حصول کے لئے اپنا ہاتھ پاؤں اِدھر مارے تو
یہ سمجھ لیا جائے کہ اِس عمل سے گزرنے والا قرض کے ایک ایسے قفس میں آسانی
سے تو داخل ہورہا ہوتا ہے مگر اِس کے اِس عمل سے اِسے اَب یوں آسانی سے
باہر نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
خبر یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے گزشتہ مالی سال 2008-2009 کے دوران
8ارب80کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کئے اور ایک سرکاری اعداد و شمار کے
مطابق رواں مالی کے دوران گزشتہ سال سب سے زیادہ قرضہ آئی ایم ایف سے لیا
گیا اور اِسی سرکاری اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف
نے اب تک مجموعی طور پر پاکستان کو 3ارب 94 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا قرضہ
فراہم کیا ہے جو میرے خیال سے پاکستان جیسے مسائل میں چاروں جانب سے گھرے
ملک کے لئے صرف ایک ہی ادارے سے اِس کے تصور سے بھی کہیں زیادہ کا قرض ہے
اور پھر یوں اِس قرض کی آئی ایم ایف جیسے دنیا کے ایک بڑے سود خور ادارے کو
بروقت ادائیگی بھی پاکستان کے لئے ایک سنگین ترین مسئلہ ہوگی اور اِس قرضے
کے بعد بھی کہیں سے کوئی یہ اُمید بھی نظر نہیں آتی ہے اور اِس کے امکانات
بھی بہت ہی مشکل ہیں کہ پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک آئندہ اپنی ضروتوں کو
پورا کرنے کے لئے اِس سود خور ادارے سمیت کسی اور سے بھی قرض نہیں لے گا
اور اِس صورت حال میں اگر یہ کہا جائے کہ یقیناً پاکستان ہی دنیا کا وہ
واحد اسلامی ملک ہے کہ جو ایک ایٹمی اور خود مختار ریاست ہونے کے باوجود
بھی آئی ایم ایف جیسے سود خور (دیمک کی طرح چاٹنے والے) ادارے کی چنگل میں
پوری طرح سے پھنس چکا ہے کہ جس سے اِسے اَب خود کو چھڑانا مشکل ہی نہیں
بلکہ ناممکن بھی ہوچکا ہے اور اِس کے ساتھ ہی حکمرانوں کو یہ بات بھی اچھی
طرح سے ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ قرض کے سہارے نہ تو کوئی ملک ترقی کی
راہوں پر گامزن ہی ہوسکتا ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی ریاست اور ملک اپنے
اندر استحکام ہی لاسکتا ہے کیوں کہ قرض ایک ایسی دو دھاری تلوار کی مانند
ہے کہ جس کی وصولی کی دھار میں تو جزوقتی مزح اور اِس کی ادائیگی کی دھار
میں گھاؤ ہی گھاؤ (زخم ہی زخم) ہوتے ہیں جس کی زد میں پہلے تو قرض دار خود
آتا ہے اور اِس کے بعد وہ شخص جس نے قرض دار کو اپنی رقم دی ہوئی ہوتی ہے۔
تو اِس کے ساتھ ہی اِدھر یہ امر بھی قابل افسوس ہے کہ حکومت پاکستان نے
دنیا کے بڑے سود خور ادارے آئی ایم ایف سے بے انتہا سود پر قرضے حاصل کرنے
کے بعد اِسے اسٹینڈ بائی پروگرام میں اِس بات کی بھی پوری طرح سے یقین
دہانی کرا دی ہے کہ قرضوں کی ادائیگی اور ٹیکس ہدف پورا نہ ہوا تو ضمنی بجٹ
بھی آسکتا ہے اس پر آئی ایم ایف نے اِسے یہ نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین
الاقوامی امدد تو وقتی ہے پاکستان کو ٹیکسوں سے ہی اپنی آمدنی بڑھانا ہوگی
اسٹینڈ بائی پروگرام کی تفصیلات کے مطابق محصولات بڑھانے کے لئے مختلف ٹیکس
اقدامات کئے جائیں گے اور یہ اقدامات سپلیمنٹری (ضمنی) بجٹ کے تحت بھی کئے
جاسکتے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے ٹیکسوں میں ردوبدل
بھی کی جاسکے گی اور یوں اِن اقدامات کی منظوری آئندہ مالی سال کے بجٹ میں
پارلیمنٹ سے حاصل کی جائے گی جبکہ میرے نزدیک یہ کوئی ضروری نہیں کہ حکومت
آئی ایم ایف کے واضح ڈکٹیشن کے بیحاف پر ملک میں اپنے ٹیکس اور قرضوں کی
ادائیگی کے ہداف کو پوراکرنے کے لئے کوئی ضمنی بجٹ لائے اور پھر اِسے ڈنڈے
کے زور پر آئندہ سال مالی سال کے بجٹ میں پارلیمنٹ سے اِس کی منظوری کروائے
اِس صورت حال میں یہاں ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ حکومت اپنے دلفریب اوردل
کش نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کی لاج رکھتے ہوئے اپنی اولین ترجیحات میں
پاکستان جو تمام قدرتی وسائل اور معدنیات سے مالامال ہے اِس کے اِن تمام
قدرتی وسائل اور معدنیات کو بروئے کارلاتے ہوئے جس قدر جلد ممکن ہوسکے اِس
کے اِن وسائل سے اپنے تمام اہداف کو پورا کرے اور ساتھ ہی آئی ایم ایف جیسے
سود خور ادارے کے قرضے کی ادائیگی کو بھی فوری طور پر عمل میں لائے تاکہ یہ
ادارہ (آئی ایم ایف )جو اپنے پنجے ملک کے چپے چپے میں پوری طرح سے اپنے
شاطرانہ پن کی وجہ سے گاڑ چکا ہے اِس کے اِن گڑے زہریلے پنجے ملک سے اکھاڑ
پھینکیں جائیں اور ملک کو اِس کے چنگل سے آزاد کیا جائے جس کی وجہ سے ملک
قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔
تو اُدھر ہی دوسری طرف یہ بھی ایک انتہائی حوصلہ شکن امر یہ ہے جیسا کہ
حکومت پاکستان نے گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کی ہدایت پر ملک میں بجلی کے
بحران سے نمٹنے کے لئے ملک میں رینٹل پاور منصوبوں کی منظوری کی بھی توثیق
کردی ہے اور اِس کے ساتھ ہی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ شیڈول کے
مطابق بجلی کی قیمتوں میں اکتوبر 2009سے اپریل 2010 تک بتدریج 26 فیصد تک
اضافے کا بھی عندیہ دیا تھا اس سلسلے میں پہلا مرحلہ حکومت نے گزشتہ دنوں
ملک بھر میں بجلی کی قیمتوں میں 6فیصد اضافے کا اعلان کر کے اپنے منصوبے کی
توثیق کردی ہے اور اِس طرح یقیناً حکومت کی جانب سے ملک کی عوام پر ایک بار
پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے مد میں مہنگائی کا بم گرا دیا گیا ہے۔
جِسے عوام کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کریں گے اور وہ زندہ درگور ہو کر
رہ جائیں گے اور یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اِس کے بعد بھی بتدریج
اضافے کی اِس روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ہمیشہ غریبوں سے ووٹ حاصل
کر کے اقتدار سنبھالنے والی حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرادی ہے
اور اِس کے ساتھ ہی اِس حکومت نے آئی ایم ایف کو یہ بھی تسلی دی ہے کہ بجلی
پر دی جانے والی سبسڈی 2011 تک مکمل طور پر ختم کردی جائےگی۔ جبکہ ملکی
وسائل کے بجائے آئی ایم ایف کی ہدایت پر ملک میں انرجی (بجلی) کی کمی اور
اِس کی ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے کے لئے رینٹل پاور منصوبوں کی جب
اپوزیشن کی جماعتوں نے کھلم کھلا اپنے اعتراضات اٹھائے تو اِس پر ملک کے
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اپوزیشن کے کچھ لوگ رینٹل پاور
پراجیکٹ کی اِس لئے کھلم کھلا مخالفت کررہے ہیں کہ اِن کے قیام سے حکومت
ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی تو اِس کے بعد
اِن لوگوں کے پاس حکومت کی مخالفت کرنے کے لئے کچھ نہیں بچے گا وزیر اعظم
کا یہ خیال بلکل غلط ہے کہ پاور منصوبوں کی تکمیل کے بعد اپوزیشن کے پاس
حکومت کی مخالفت کرنے کو کچھ نہیں بچے گا وزیر اعظم صاحب! یہ آپ مت بھولیں
کہ اپوزیشن کے پاس تب کچھ نہیں بچے گا اُس وقت تو اپوزیشن کے پاس آپ کے اِس
پراجیکٹ پر تنقید کرنے کے لئے اور بھی کئی راہیں کھل چکی ہوں گی جو آپ کے
اُس وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گی کیوں کہ اپوزیشن کا تو کام ہی تنقید
کرنا ہے اور وہ اپنے اِس عمل سے قطعاً باز نہیں آتی میرے خیال سے آپ کے اِس
رینٹل پاور منصوبوں کی تکمیل سے قبل ابھی اپوزیشن کی تنقید بجا ہے کیوں کہ
جب آپ کے اپنے ہی ملک میں بجلی پیدا کرنے اور موجودہ بحران کو فوری طور پر
ختم کرنے کے لئے اتنے قدرتی اور جدید سائنسی وسائل موجود ہیں تو آپ کو پھر
کیا پڑی ہے کہ آپ رینٹل پاور پراجیکٹ کا سہارا لیں اور پھر آپ اِس کے کرائے
کی ادائیگی کے لئے بھی میڈِ ان پاکستان کا (بنا ہوا) کشکول ہاتھوں میں
اُٹھائے آئی ایم ایف سے ہی قرضے مانگتے پھریں ذرا سوچیں وزیر اعظم صاحب.....قوم
کچھ سال اور اندھیرا برداشت کر لے گی مگر اِس پر کے اِسے روشنی کرائے کی (رینٹل
پاور پراجیکٹ سے) نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے ذاتی طور پر اپنے بنائے گئے نئے
پاور پراجیکٹس کی چاہئے۔ (ختم شد) |