ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس
توبجلی کے بل دیتے نہیں...... ؟؟ مگرغریب بل دے کر بھی بجلی سے محروم ہیں
کیوں ......؟
آج میں نے اپنے کالم کا موضوع پاکستان اور جنوبی کوریاکے وزرائے اعظموں کے
حوالوں سے آنے والی دوخبروں کو بنایاہے جس میں دونوں ممالک کے وزرائے
اعظموں کی غیرت اور حمیّت کو سامنے لانے کی کوشش کروں گا،قبل اِس کے کہ میں
اِس طرف جاؤں قارئین حضرات پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ لفظ ”غیرت “کے لغوی
معنی کیا ہیں...؟ تو عرض یہ ہے کہ ” غیرت“ (جو غ ،ی،ر،ت سے مل کر۔غے،رت،
بنا ہے ) اور[یہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔اِسم ہے اور۔مونث ہے] اِس کے لغوی
معنی تو” حمیّت ،لحاظ، شرم اور حیا “کے ہیں ،اتناتو سب ہی جانتے ہیں مگر
اِس کے باوجود بھی اپنی زندگیوں میں اِس کا اظہار کوئی کوئی کسی کسی موقع
پر ضرورکرتاہے مگرافسوس ہے کہ گزشتہ 67سالوں میں ہمارے یہاں اِس لفظ کی
اہمیت کا احساس نہ تو کسی حکمران کو ہواہے اور نہ ہی کسی وزیرنے اپنی وزرا
ت کی ناکامی پر کبھی اِس کا عملی مظاہرہ اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر
دیکھایاہے اورحکمرانوں کے حصے میں تو اِس کا اظہار کم توکیا کبھی بھی
دیکھنے میں نہیں آیاہے مگر ایسا لگتاہے کہ جیسے ہمارے یہاں تو حکمران اِس
کے عملی اظہارسے خوفزدہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں جبکہ حا ل ہی میں جنوبی
کوریاکے وزیراعظم نے اپنی غیر ت کا اظہارکرکے ہمارے حکمرانوں سمیت دنیا کے
دیگر ممالک کے حکمرانوں کو ضرورسبق سکھادیاہوگااَب اگراِ س کے بعد بھی
ہمارے حکمران بے حسی کا مظاہر کریں تو پھر اِن کے اِس رویئے پر کیا کہاجائے
گا...؟اَب یہ فیصلہ آپ خود کریں گے ۔
بہرحال اَبھی تو میرامقصدآپ کو یہ سب سمجھانے اور بتانے کا یہ ہے کہ میرے
پڑھنے والوں کو میری تحریر اچھی طرح سمجھ آجائے اور پھر وہ خود یہ فیصلہ
کریں کے ہمارے حکمران غیرت کے کس درجے پر ہیں ..؟اوردنیا کے دیگر ممالک کے
حکمران اپنی ناکامی اور عوامی معیارپر پورانہ اُترنے کا احساس کرکے اپنے
عہدوں سے مستعفی ہوکر اپنی خوداری اور غیرت کے معاملے میں کس مقام پرہیں
توپھر اَب میں چلتاہوں اپنے آج کے کالم کے اصل موزو کی طرف ....تو عرض یہ
ہے کہ سیول سے خبرراساں ادارے اے ایف پی نے خبر دی ہے کہ جنوبی کوریاکا
سیول نامی وہ مسافر بردار بحری جہاز جس میں476افرادسواتھے وہ ڈوب گیااور
اِس میں سوار476مسافروں میں سے صرف174افرادہی کو بچایاجاسکاہے اور اَب تک
188افرادکی لاشیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ 144افراد تاحال لاپتہ ہیں اِس جہاز
کے ڈوبنے کے سانحے پر حکومت کی جانب سے غلفت برتنے کا اعتراف کرتے ہوئے
جنوبی کوریاکے وزیراعظم چنگ ہانگ ون مستعفی ہوگئے ہیں ،خبر ہے کہ جنوبی
کوریاکے وزیراعظم کا کہناہے کہ بحری جہاز ڈوبنے پر حکومت کی غفلت کا معترف
ہوں جبکہ اِنہوں نے جہاز ڈوبنے کی وجہ معاشرے میں پیوست بدعنوانی کو
قراردیا،جنوبی کوریاکے موجودہ زمانے کے غیرت مندوزیراعظم نے کہاکہ حادثے پر
معذرت خواہاں ہوں اُصولََ توبطوروزیراعظم مجھے اِس سانحے کی ذمہ داری قبول
کرتے ہوئے ہی مستعفی ہوجاناچاہئے، اگرچہ ابھی اپنے مستعفی ہونے کے حوالے سے
اعلان میں اُنہوں نے کہاکہ مجھے حادثے کے وقت ہی مستعفی ہوناچاہیئے تھاتاہم
اِس وقت سانحے سے نمٹنازیادہ اہم تھا مستعفی ہو کر جانے سے پہلے امدادی کام
کرواناذمہ دارانہ رویہ تھا،اِن کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ڈوبنے والے بحری
جہاز کے سانحے کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر تنقیدکے پیش نظروہ اپنے عہدے
سے مستعفی ہورہے ہیں “ اُن کی نظر میں عوام مقدم ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جب
عوام کو حکمرانوں کے رویوں اور اِن کی وجہ سے تکالیف پہنچے تو اِنہیں اپنی
نااہلی اور غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے فوراََ اپنا عہدہ چھوڑدیناچاہئے کہ
ٹھیٹ بن کر صنعت ِ حکمرانی میں لگائے گئے پیسیوں کو دگناکرنے کے چکرمیں
مُلک اور قوم کا ستیاناس ہی کردیاجائے جیساکہ ہمارے یہاں ماضی میں بھی
نااہل ونفسیاتی حکمران اپنی حکمرانی کے پانچ سال پورے کرکے چلے گئے ہیں اور
موجودہ حالات میں بھی کچھ ایسے ہی نااہل حکمران ہم پر حکمرانی کررہے ہیں
جنہیں دواور دوچار کے سواکچھ نہیں آرہاہے اگرچہ جنوبی کوریا وزیراعظم چنگ
ہانگ ون کی اپنی نااہلی کے اعتراف کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے
حوالے سے کی یہ خبر بڑی اہمیت کی حامل ہے جس میں ہمارے حکمرانوں سمیت
دنیاکے بہت سے ممالک کے حکمرانوں کے لئے بھی ضرورسبق موجودہے ،مگر سبق لینے
والوں کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ بھی جنوبی کوریاکے وزیراعظم چنگ ہانگ
ون کی طرح غیرت مندہوں تو غیرت کا یہ سبق اُن کے لئے بھی بہترثابت ہوگا مگر
جب کوئی ....غیر ت ہی تو پھر اُس کے لئے یہ سبق بھی کوئی حیثیت نہیں
رکھتاہے۔
اور اَب میں بغیر کسی تمہید کے آتاہوں اپنے مُلک کے اُس وزیراعظم کی جانب
جنہیں مُلک کی ترقی اور خوشحالی کی فکردن رات کھائے جارہی ہے، اوریہ مُلک
کو کرپشن اور چوری سے پاک کرنے کا عزمِ صمیم بھی خُوب رکھتے ہیں ، اِن کا
یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ قومی اور سرکاری اداروں سے کرپشن کو ختم کرکے ہی دم
لیں گے، گوکہ یہ مُلک سے کرپشن کو جڑہی سے ختم کرنے کا اپنا پکاادارہ رکھتے
ہیں ، اور اِن کا ساتھ ہی یہ بھی کہنا ہے کہ جب تک قومی اِداروں سے یہ
کرپشن کو ختم نہیں کردیتے یہ سُکھ کا سانس نہیں لیں گے، اِسی کرپشن کو تو
ختم کرنے کے لئے ہمارے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف نے قومی اداروں کی نج
کاری کرنے کا اٹل فیصلہ بھی کررکھاہے، جس کے لئے حکومتی سطح پر ترجیحی
بنیادوں پر اقدامات بھی تیزسے تیزترکئے جارہے ہیں،اور نہ صرف یہ بلکہ بہت
سے وفاقی اور قومی اداروں میں وزیراعظم اپنے من پسندافرادکی تقرری کے لئے
بھی کمربستہ ہوگئے ہیں اور اَب تک بہت سے اداروں میں وزیراعظم نواز شریف
اپنے پسند کے افراد کو اداروں کا سربراہ بناکر بھیج بھی چکے ہیں اور اِنہیں
اداروں میں ڈاون سائزنگ اور نج کاری سے متعلق ڈکٹیشنز بھی دے چکے ہیںآج
یقینی طور پر اِس قسم کے وزیراعظم کے دعوؤں اورا قدامات سے تو ایسالگتاہے
کہ جیسے عنقریب نہ تو ہمارے مُلک میں کرپشن رہی گی اور نہ ہی قومی ادارے
سرکاری ملکیت میں رہیں گے،چونکہ ہمارے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف یہ بات
اچھی طرح سے سمجھتے ہیں یوں تب ہی تو یہ ا پنے وزراءاورمشیروں اور اداروں
کے سربراہان کے ذریعے گاہے بگاہے عوام کے ذہنوں میں اپنی یہ بات بھی
زبردستی کی ٹھوسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ مُلک کی ترقی اور خوشحالی
کرپشن اور قومی اداروں سے پاک حکمتِ عملی میں پوشیدہ ہے، مگرعوام ہیں کہ
ابھی تک اپنے وزیراعظم اور اِن کے وزراءکی اِس بات سے قطعاَمتفق نظرنہیں
آتے ہیں، اَب ایسے میںعوام کا اپنے وزیراعظم میاں نوازشریف اور اِن کے
وزیروں کی کسی بھی ایسی بات سے متفق نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی سمجھ
آتی ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف مُلک سے کس طرح کرپشن کو جڑسے ختم کرسکتے
ہیں...؟جبکہ اِن کی ناک کے نیچے ہی ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس اور
پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن، پی ڈبلیوڈی، سندھ ہاؤس، موٹروے پولیس،
شہری ماحولیات، نادرا، سی ڈی اے، ایف ڈبلیواو، پنجاب جیل ، ٹی ایم اومری،
ٹی ایم او راولپنڈی، ٹی ایم اوسرائے عالمگیراوربلوچستان ہاؤس سمیت 18حکومتی
اور قومی اداروں میں بجلی کے واجبا ت ادانہ کرنے پرکرپشن عروج پر ہورہی ہے۔
جبکہ یہاں یہ امریقیناقبل افسوس ہے کہ آج ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف جو
مُلک کو کرپشن سے پاک کرنے کا تو بہت پکاارادہ کرتے ہیں مگرکیااَب تک ہمارے
وزیراعظم کو اپنی ایک سال کی مدت پوری کرنے والی حکومت میں یہ کبھی بھی نظر
نہیں آیا کہ” ایوان صدراور وزیراعظم ہاوس بجلی کے واجبات کی عدم ادائیگی کے
بغیرکیسے روشن ہیں...؟ اَب کیا یہ وزیراعظم کی ذمہ دارانہ غفلت نہیں ہے...؟
اَب کیا یہ وزیراعظم نوازشریف کی غیرت اور حمیّت یہ تقاضہ نہیں کرتی ہے کہ
یہ اپنی اِس غفلت کو تسلیم کریں اور مستعفیٰ ہوجائیں...؟وزیراعظم نواز شریف
کی اِس غفلت اور لاپرواہی پر ایسے بہت سے سوالات ہیں جو عوام الناس کے
ذہنوں میں پک رہے ہیں اور باہر نکل رہے ہیں کیاعوام کے اِن سوالات کے
جوابات وزیراعظم نوازشریف دے پائیںگے اگرعوام کے سوالات کے جوابات نہیں دے
سکتے ہیں تو براہ کرم اپنی نااہلی اور غفلت کو تسلیم کرتے ہوئے تُرنت اپنے
عہدے سے مستعفی ہوجائیں اِس طرح اِن کا بھرم بھی قائم رہے گااور آئندہ کا
پھر کوئی حکمرانی چانس بھی بن جائے گا۔
پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ آج اگر میڈیاآزادنہ ہوتاتو عوام کو اِس کی بھی
خبر نہ ہوتی کہ مُلک کو کرپشن سے پاک کرنے والے ہمارے وزیراعظم نوازشریف کا
خود وزیراعظم ہاوس اور ایوان صدر کی بجلی واجبات کی عدم ادائیگیوں کے باعث
کاٹ دی گئی ہے اور یہ بھی کسی حد تک خوش آئندہ امر ہے کہ پچھلے دِنوں اِ س
کا اقرار خود وزیرمملکت برائے پانی و بجلی عابد شیرعلی نے اپنی پریس
کانفرنس میں کرتے ہوئے کہاکہ بجلی کے واجبات کی عدم ادائیگیوں پر ایوان ِ
صدر، وزیراعظم ہاوس اور پارلیمنٹ سمیٹ 18سرکاری اداروں کی بجلی کاٹ دی گئی
ہے اور چوروں کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جائے گی وزیرمملکت
پانی وبجلی عابد شیر علی کی یہ شیرائی اپنی جگہہ کسی حد تک ٹھیک ہوسکتی ہے
مگر پھر بھی اِس پر پاکستانی قوم اور عوام اِس مخمصے میں مبتلاہیں کہ
وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیرمملکت برائے پانی وبجلی عابد شیرعلی کا یہ
محض عوام کو کرپشن سے پاک مُلک بنانے کی لولی پاپ دے کربے وقوف بنانے کا
کوئی بہانہ ہو سکتاہے اور وہ اِس طرح عوام کویہ بتانااورجتناچاہ رہے ہوں کہ
عوام جان جائیں کہ جب بجلی کے واجبات کی عدم ادائیگی پر ایوانِ صدراور
وزیراعظم ہاؤس ، پارلیمنٹ سمیت سپریم کورٹ اور دیگر 18سرکاری اداروں کی
بجلی کٹ سکتی ہے تووہ عوام جو بجلی کے واجبات کی ادائیگیاں نہیں کرتے اِن
کی بھی بجلی کاٹی جاسکتی ہے۔
آج عوام یہ بات بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس ،
پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اور 18دیگر سرکاری اداروں کی واجبات کی عدم ادائیگی
پر بجلی کا کاٹناتومحض ایک ڈرامہ ہے کوئی بجلی وجلی نہیں کاٹی گئی ہوگی،
مگریہ بتاکر حکومت کا اصل میں مقصد عوام اور صنعتوں اور کارخانوں کے مالکان
کواِن کے واجبات کی عدم ادائیگی پرڈرانااور دھمکناہے تاکہ عوام اور
فیکٹریوں کے مالکان 18سے 20اور22گھنٹوں کی بدترین بجلی کی لوڈشیڈنگ کی ذہنی
اور جسمانی اذیتیں برداشت کرکے بھی باقاعدگی سے اپنے بڑھے ہوئے بجلی کے بل
اداکرتے رہیں مگر پھر بھی اِنہیں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنارہے جبکہ
اُدھردوسری طرف ا یوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ سمیت
18دیگر سرکاری اداروں میں واجبات کی عدم ادائیگی کے باجود بھی اِنہیں نہ
کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی یہ کبھی
اندھیروں اور تاریکیوںکا منہ دیکھتے ہیںاوراُلٹا مزے کرتے ہیں۔
جبکہ یہ انتہائی افسوس اور حکمرانوں کے لئے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کے
ساتھ ساتھ فوراََ ڈوب مرنے کا بھی مقام ہے کہ یہ عوام کو بدترین لوڈشیڈنگ
کی اذیتیں بھی دے رہے ہیں تو بجلی نہ دے کربڑھے ہوئے بل بھی بھیج رہے ہیں
اور اُلٹاڈرااور دھمکابھی رہے ہیں کہ عوام نے بجلی کے واجبات ادانہیں کئے
تو اِن کی بجلی کاٹ دی جائے گی اور بجلی چوروں سے سختی سے بھی نمٹاجائے
گاجبکہ حکمرانوں کی یہ سینہ زوری بھی کسی بے غیرتی سے کیا کچھ کم ہے کہ یہ
خود تو بجلی کے واجبات ادابھی نہ کررہے ہیں اور بجلی بھی پوری کی پوری حاصل
کررہے ہیں....؟اَب کیا قوم اپنے حکمرانوں کے اِس بے حس روئے کو بغیرت پن سے
بھی تعبیر نہ کرے تو کہوکہ پھراور کیاکرے....؟ آج عوام جو کرسکتے ہیں وہ یہ
کررہے ہیں اور جو ہمارے حکمران کرسکتے ہیں یہ وہ کررہے ہیں...؟الغرض یہ کہ
دونوں ہی اپنی اپنی جگہہ پر شاید....غیرت ہوگئے ہیں...؟تو پھر ایسے میں
میرااور ہم سب کا اور مُلک کا اللہ ہی حافظ ہے...؟مگرپھر بھی میں ابھی
نااُمیدنہیں ہواہوں اور اپنے رب سے دُعاکرتاہوں کہ شاید جنوبی کوریاکے
وزیراعظم چنگ ہانگ ون کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنے اِس روئے پر غیرت
آجائے اور وہ بھی غیرت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی
ہوجائیں، مگر یہ اپنے مستعفی ہونے سے پہلے اپنے عوام کو بجلی کی بدترین
لوشیڈنگ سے نجات دلاجائیں اور بجلی کی فراہم کا عمل بلاتعطل بناجانے کے
اقدامات کرجائیں توقوم اِنہیں سلام پیش کرے گی ورنہ تو ویسے بھی دنیا بھر
میں حکمرانوں پر جوتاکاری عام ہوگئی ہے اِن پر بھی عوام جوتاکاری کریں گے
پھر مت کوئی یہ کہے کہ یہ سب کیا ...؟اور کیوں ہورہاہے...؟ |