تیل کی دولت سے مالا مال ملک برونائی کے سلطان نے شرعی
قوانین متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کے بعد اس انتہائی امیر
حکمران کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔ برونائی
ڈوئچے ویلے کے مطابق برونائی کے مطلق العنان حکمران حسن البلقیہ کا بدھ کے
روز ایک شاہی فرمان میں کہنا تھا، ’’ میں خُدائے بزرگ و برتر کا شکر گزار
ہوں اور اُس پر پورا یقین رکھتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ کل جمعرات یکم مئی
2014ء سے شرعی قوانین کے پہلے مرحلے کا نفاذ کر دیا جائے گا جبکہ دیگر
مراحل کا نفاذ بعد میں کیا جائے گا۔‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہی برونائی مشرقی
یا جنوب مشرقی ایشیا میں وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے شرعی قوانین قومی
سطح پر متعارف کروائے ہیں۔
|
|
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق برونائی کے سلطان نے شرعی قوانین کے نفاذ
کا اعلان بائیس اپریل کو کرنا تھا لیکن اس میں تاخیر کرنا اس بات کی بھی
علامت ہو سکتی ہے کہ سلطان ابھی تک اس معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
برونائی دارالسلام بر اعظم ایشیاء کے مشرقی جانب، جزائر شرق الہند میں واقع
ایک مسلم ملک ہے اور اس کے 67 سالہ حکمران حسن البلقیہ کا شمار دنیا کے
امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا دین اسلام کے تحت یہ ’اقدام
ضروری‘ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ’نظریات کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے‘
کہ شرعی سزائیں ظالمانہ ہیں، ’’ نظریہ یہ ہے کہ اللہ کے قوانین ظالمانہ اور
غیر منصفانہ ہیں لیکن اللہ نے خود کہا ہے کہ حقیقت میں اسی کا قانون
منصفانہ ہے۔‘‘
فوربز میگزین کے تین برس پہلے لگائے گئے اندازوں کے مطابق برونائی کے
بادشاہ 20 بلین ڈالر کے سرمائے اور قیمتی گاڑیوں، اور سونے اور بڑے محلات
کے مالک ہونے کی وجہ سے ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انیس سو نوے کی دہائی میں برونائی کے سلطان کو اس وقت شرمندگی کا سامنا
کرنا پڑا تھا، جس وقت ان کے چھوٹے بھائی پرنس جیفری بولکیہ (Jefri Bolkiah)
کا اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا۔ مبینہ طور پر انہوں نے وزیر خزانہ کے طور
پر 15 بلین ڈالر کا غبن کیا تھا۔ بعدازاں یہ مقدمہ عدالت میں چلا، جس میں
ان کے بھائی کی غیراسلامی اور پُر تعیش انداز زندگی اور متعدد مغربی
محبوباؤں کی تفصیلات سامنے آئی تھیں۔
|
|
عوامی حمایت اور بے چینی
توانائی کی دولت کے باعث برونائی کے شہریوں کا شمار ان میں ہوتا ہے، جن کو
ایشیا میں بلند معیار زندگی میسر ہے۔ اس ملک میں شرعی قوانین کے نفاذ کی
بحث گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے اور سلطان بھی کئی مرتبہ بڑھتے ہوئے جرائم
انٹرنیٹ کے اثرات سے خبردار کر چکے ہیں۔ برونائی ملائیشیا اور انڈونیشیا کی
سرحدوں کے مابین جزیرہ بورنیو پر واقع ہے۔ اس چھوٹی سے ریاست کے شہری
ہمسایہ مسلم ملکوں سے زیادہ قدامت پسند ہیں اور شراب کی خرید و فروخت پر
پہلے ہی پابندی عائد ہے۔ اس ملک کی 70 فیصد آبادی نسلی مسلم گروپ ملایو پر
مشتمل ہے اور یہ آبادی شرعی قوانین کے نفاذ کے حق میں ہے۔ تاہم کچھ ملایو
اور غیر مسلموں نے اس اعلان پر بے چینی کا اظہار کیا ہے۔ اس ملک کی تقریباﹰ
پندرہ فیصد آبادی غیر مسلم اور چینی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔
رواں سال کے آغاز میں مقامی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شرعی قوانین کو
’وحشیانہ قرار‘ دیتے ہوئے اپنی حکومت کو شدید تنقید کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بوڑھے ہونے کے ساتھ ساتھ سلطان حسن البلقیہ
مزید مذہبی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ وہ تغیر پذیر دورہ
حاضر کے پیش نظر معاشرتی کنٹرول بڑھانا چاہتے ہیں۔ سلطان اسلام کو
عالمگیریت کے خلاف ایک ’’ فائروال‘‘ قرار دے چکے ہیں۔
پہلے مرحلے میں نامناسب رویے سے لے کر جیل تک جیل اور جرمانے کی سزائیں
سنائی جائیں گی۔ یہ سزائیں جمعے کی نماز نہ پڑھنے اور شادی کے بغیر حاملہ
ہونے کی صورت میں بھی سنائی جا سکتی ہیں جبکہ دیگر سخت سزائیں دوسرے یا
تیسرے مرحلے میں متعارف کروائی جائیں گی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی
کونسل نے سنگساری جیسی سزاؤں پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔ ایشیا میں
ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے کہنا تھا، ’’ یہ قرون وسطیٰ
کی سزاؤں کی طرف واپسی ہے۔ یہ اکیسویں صدی کی اقدار کے متضاد ہیں اور
برونائی میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بڑا دھچکا ہیں۔ ‘‘
|