پاکستان کا اصل مسئلہ

آج یہ جنرل نالج کا ایک سوال بنتا جارہا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے ۔اس حوالے مختلف لوگوں کی مختلف رائے سامنے آتی ہیں۔کچھ کہتے ہیں کہ ملک کا اصل مسئلہ کرپشن ہے اور وہ بھی دو قسم کی کرپشن ، ایک تو وہ روایتی طور سے ہر سرکاری محکمہ ہوتی ہے اور وہ نظر بھی آتی ہے ۔لیکن ایک کرپشن وہ ہے جو نظر نہیں آتی جسے عرف عام میں وائٹ کالر کرپشن کہتے ہیں اس کی ابتدائی فیگر ہی اربوں روپئے سے شروع ہوتی ہے اس لیے اگر یہ کرپشن ختم ہو جائے تو اس ملک کے سارے دلدر دور ہو سکتے ہیں ۔کچھ کے نزدیک اصل مسئلہ بد امنی ہے کہ اگر ملک میں امن و امان ہوگا تو ترقی کی رفتار تیز ہو گی صنعت کا پہیہ گھومتا رہے گااور روزگار کے مواقع بلند ہوں گے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے ۔اسی کی وجہ سے رہزنی اور ڈکیتی کی وارداتیں عروج پر ہیں ۔ کسی کے نزدیک دہشتگردی کا مسئلہ سرفہرست ہے کہ کرپشن ،مہنگائی ،بے روزگاری اور امن و امان جیسے مسائل تو کسی نہ کسی شکل میں پہلے سے چلے آرہے ہیں۔پچھلے دس سالوں سے دہشت گردی کی لعنت نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ سارے مسائل کی جڑ امریکی مداخلت ہے ۔جب سے ہم نے امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنایاہے اس وقت سے ہمارا ملک دہشت گردی اور دھماکوں کی زد میں ہے ۔لیکن اس ملک میں ایک بہت بڑی اکثریت یہ سمجھتی ہے اور کسی حد تک صحیح سمجھتی ہے کہ ہمارا اصل مسئلہ جان دار اور دیانتدار قیادت کا ہے ۔ ایکسپریس ٹی وی میں جاوید چوہدری کے پروگرام میں عمران خان کہہ رہے تھے کہ کرپٹ انتخابات میں جو لوگ کامیاب ہو کر آئیں گے وہ کبھی کرپشن ختم نہیں کر سکتے ۔عمران خان 11مئی سے انتخابی دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک کے طاہر القادری کے ساتھ مل کر ملک گیر تحریک کا آغاز کر رہے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افتخار چوہدری اور نجی میڈیا گروپ ہے 35پنکچر لگانے والے کو پی سی بی کا چیرمین بنا دیا گیا ،انھوں نے کہا کہ مقاصد کے حصول تک سڑکوں پر رہیں گے سب جمہوری قوتوں کو شمولیت کی دعوت دیتے ہیں ،دھاندلی کے تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے انھوں نے کہا کہ عام انتخابا ت میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے عوام نے ووٹ کسی کو دیا اور جیت کوئی اور گیا ہم جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ہم بھی تمام نکات پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ملک کا اصل مسئلہ ایک دیانتدارانہ انتخابات کا انعقاد ہے ۔اور پھر اس انتخابات کے نتائج کو قبول کر لیا جائے ،کہتے ہیں کہ 1970کے انتخابات کسی حد تک بہتر ہوئے تھے ہماری نظر میں وہ انتخاب بھی صاف ستھرے انداز میں نہیں ہوئے تھے ۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو بنگلہ تعصب کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانے کی پوری آزادی دی گئی ،یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ،وہ بھی ایک طرح سے انجنیرڈ انتخابات تھے ایک تجزیہ یہ بھی آیا تھا کہ یحییٰ خان چاہتے تھے کہ اسمبلی میں تمام پارٹیاں تھوڑی تھوڑی نشستیں لے کر آئیں گی جو مجھے آئندہ کے لیے صدر بنا سکتی ہیں ۔یہ ملک کی تاریخ کے کسی حد تک پہلے آزادانہ عام انتخابات تھے ،اس سے قبل 1964میں ایوب خان نے بی ڈی نظام کے تحت جو انتخابات کروائے وہ تو دراصل انتخاب کے نام پر ایک فراڈ تھا کہ ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بنیادی جمہوریتوںBasic Democracyکے نام پر نمائندے منتخب کرائے گئے اور پھر ان ہی ممبران کو صدارتی انتخاب کے لیے انتخابی کلاس بنا لیا بڑے پیمانے پرخرید و فروخت ہوئی اور اس طرح ایوب خان جیت گئے اور محترمہ فاطمہ جناح ہار گئیں ،جب کہ پوری متحدہ اپوزیشن فاطمہ جناح کے ساتھ تھی ۔مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کی شکست کا بڑا گہرا نفسیاتی اثر ہوا اس لیے کہ مشرقی پاکستان کے عوام نے بہت بھر پور طریقے سے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا اس انتخابی نتائج نے بنگالیوں کو بہت مایوس کیا کہ آئندہ بھی ان کی آراء کو اسی طرح بے رحمی سے کچلا جا سکتا ہے ،بہر حال 1964اور پھر 1970کے انتخابات کی کہانی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پہلے والے انتخاب پر شب خون مار کر نتائج کو تبدیل کیا گیا دوسرے والے میں انتخابی نتائج ہی کو تسلیم نہیں کیا گیا ۔اس طرح پہلے والے انتخاب میں ملک کمزور ہوا تو دوسرے انتخاب میں ملک ٹوٹ گیا ۔پھر 1977کے انتخابات کی کہانی بڑی دلچسپ ہے کہ اس کے انتخابی نتائج کو عوام نے تسلیم نہیں کیا اور فراڈ انتخاب کے خلاف زبردست تحریک چلائی گئی ۔بھٹو صاحب کے بارے میں یہ بات بھی لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے اور 1964کے طرز انتخاب اور طریقہ انتخاب کے ماسٹر مائنڈ اصلاَتو بھٹو صاحب ہی تھے ۔پھر جب 1966میں بھٹو صاحب کے ایوب خان سے اختلافات ہوئے تو انھوں پاکستان پیپلز پارٹی بنائی جس نے 1970کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے کامیابی حاصل کی پھر سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان جو اب بچا کھچا پاکستان تھا کی حکمرانی حاصل کی ۔1972 میں پہلے عارضی دستور نافذ کیا گیا پھر 14اگست1973سے متفقہ دستور نافذ ہوا اس دستور کی رو سے بھٹو صاحب کی آئینی مدت 14اگست1978تک تھی ،لیکن دسمبر 1976تک سیاسی صورتحال یہ تھی اس وقت کی آبادی جو سات کروڑتھی تو تقریباَ دس کروڑ لوگ پی پی پی میں شامل ہو چکے تھے۔بھٹو صاحب کو ان کے مشیروں نے یہ مشورہ دیا کہ اس وقت اپوزیشن منتشر اور مایوس ہے پورے ملک میں پی پی پی کا طوطی بول رہا ہے یہ موقع اچھا ہے اگر اس وقت انتخابات کا اعلان کردیا جائے تو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی کے قوی امکانات ہیں ۔بھٹو صاحب نے دسمبر 1976کی کسی شام کو اچانک 7مارچ1977کو قومی اور 10مارچ 1977کو صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے انعقاد کا اعلان کردیا ۔اس اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی متحدہ اپوزیشن جو اسمبلی میں متحدہ جمہوری محاز کے نام سے سرگرم عمل تھی کا اجلاس ہوا اس میں اصغر خان اور شاہ احمد نورانی کو خصوصی طور پر بلایا گیا اور اس طرح پوری رات اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوئے دوسرے دن پاکستان قومی اتحاد کے نام سے ایک اتحاد وجود میں آگیا ۔اس اتحاد نے بھر پور انتخابی مہم چلائی بھٹو صاحب نے جس طرح ظلم وجبر کا نظام قائم کیا ہوا تھا اس سے عوام پہلے ہی پریشان تھے پھر مشرقی پاکستان کی جدائی کاغم الگ سے تھا ایک بہت بڑی اکثریت بھٹو صاحب کو بھی اس کا ذمہ دار ٹہراتی تھی ان کے حوس اقتدار کی وجہ سے ملک ایک نہ رہ سکا اگر یہ یہ مجیب کو اقتدار دے کر خود اپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو شاید ملک بچ جاتا چنانچہ اس نفرت کی بنیاد پر بڑی زبر دست انتخابی مہم چلی لیکن جتنی موثر قومی اتحاد کی یہ مہم تھی اتنی ہی قوت سے بھٹو صاحب نے اپنے امیدواروں کو یہ ہدایت کی کہ جس طرح سے چاہیں یہ معرکہ سر کرلیں ویسے اگر بھٹو صاحب دھاندلی کا یہ بازار گرم نہ بھی کرتے تو تجزیہ نگاروں کی ایک رائے یہ بھی تھی کہ پی پی پی کی سیاسی پوزیشن اتنی ضرور تھی وہ سادہ اکثریت سے یہ انتخاب جیت سکتی تھی ،لیکن برا ہو اس خواہش کا کسی طرح دوتہائی اکثریت حاصل کر لی جائے کہ چکر جو دھاندلی ہوئی اس کی وجہ سے دوبارہ انتخاب کے انعقاد کے لیے قومی اتحادنے بھرپور مہم چلائی جو بعد میں تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہو گئی، بھٹو صاحب دوبارہ انتخاب کے لیے تیار ہوگئے تھے لیکن پھر مارشل لاء لگ گیا ۔ہمارا موضوع چونکہ دیانتدارانہ انتخاب کا انعقاد ہے اس لیے اس 1977کے انتخاب کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے وہ ایک طرح سے مقتدر قوتوں اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے پہلے سے ارینج انتخابات ہوئے جس میں نتائج پہلے مرتب کر لیے جاتے رہے اور ان ہی نتائج کی روشنی میں انتخابات ہوئے اب تو ان انتخابات میں بیرونی قوتیں بھی اپنے من پسند نتائج کے لیے اثر انداز ہونے لگی ہیں 2008کے انتخابات تو پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او کے پس منظر میں منعقد ہوئے جس میں دینی قوتوں کو بائیکاٹ کرنا پڑااور بینظیر کے بہیمانہ قتل نے پی پی پی کو کامیابی دلادی اب اس کے بعد 2013کے انتخابات تو ابھی کی بات ہے کہ کس طرح کراچی اور حیدرآباد کو ایک تنظیم کے حوالے کردیا گیا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انتخاب والے دن پولنگ اسٹیشنوں پر مسلح ہو کر قبضہ کرلیتی ہے اور پھر ایک ایک کارکن بیس بیس ووٹ ڈالتا ہے انتظامیہ کھڑی منہ تکتی رہتی ہے ۔ اس دفعہ پورے ملک میں بھی اسی طرح ہوا اور ن لیگ کو جسے جتوانا ملکی اور غیر ملکی قوتوں کی ضرورت تھی پنجاب میں35پنکچر لگا کر اس کو کامیاب کرا دیا گیا ۔ان تمام تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ملک ایک دفعہ ایسے دیانتدارانہ انتخاب کی ضرورت ہے جس میں کسی اندرونی اور بیرونی قوتوں کا عمل دخل نہ ہو ۔پھر ایسے ہی انتخاب کے نتیجے میں دیانتدار لوگوں کے جیتنے کا امکانات ہیں اور پھر اس میں جو لوگ یا جو جماعتیں کامیاب ہو کر آئیں گی وہی عوام کے دیرینہ مسائل کو حل کر سکیں گی اور وہ جماعتیں کرپشن بھی ختم کر سکتیں ہیں ۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 39815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.