ہن آرام اے

وہ کالم نویس اور اینکرز جنہیں دعویٰ ہے کہ وہ اڑتی چڑیا کے پر گن سکتے ہیں بلکہ کچھ نے تو باقاعدہ اپنی ذاتی چڑیاں پال رکھی ہیں جو انہیں پل پل اندر کی خبر دیتی ہیں۔وہ بھی جنہیں زعم ہے کہ خبر اپنی پیدائش سے پہلے ان کے در اقدس پہ حاضری نہ دے تو خبر ہی نہیں بنتی۔پچھلے بہت سارے دنوں سے پیالی میں طوفان اٹھا رہے تھے کہ حکومت اور فوج کے تعلقات میں دراڑ آگئی۔فوج کے ساتھ حکومت کے تعلقات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کسی وقت ٹرپل ون بریگیڈ کا کمانڈر اپنے بریگیڈ کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پہ گشت کرتا نظر آئے گا۔ہم نے اسی کالم میں ان سب دوستوں سے عرض کیا تھا کہ فوج کبھی بھی دنوں میں اپنا کلچر نہیں بدلا کرتی۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں فوج نے سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو الگ کر لیا ہے اور اب یہ اندیشہ ہر گز نہیں رہا کہ فوج تخت اسلام آباد پہ کسی صورت قابض ہو گی۔یوم شہدا کے موقع پہ جنرل راحیل شریف کی تقریر نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ان اینکرز اور تجزیہ نگاروں سے کوئی پوچھے تو کہ" ہن آرام اے"

جب ابتدائے آفرینش میں کہیں یاداشت تقسیم ہو رہی تھی تو پاکستانی قوم اس وقت پہنچی جب یاداشت تقسیم کرنے والے فرشتے اپنے تمبو اکھاڑ کے جا چکے تھے۔اس لئے وطن ِ عزیز میں کچھ بھی لکھا اور بولا جا سکتا ہے۔جنرل کی تقریر میں کوئی ابہام نہیں تھا۔بہت سارے لوگوں کے لئے پیغام ۔طالبان کے لئے ،بھارت کے لئے اور کچھ تھوڑا حکومت اور عوام کے لئے بھی۔طالبان کے لئے عام معافی کا اعلان تو ہر گز نہ تھا لیکن یہ کہ اگر وہ ہتھیار پھینک کر قومی دھارے میں چلے آئیں تو ان کی سابقہ غلطیوں کو معاف کیا جا سکتا ہے۔جہاں امن کے لئے حکومتی کوششوں کو سراہا گیا اور انہیں سپورٹ کرنے کی بات کی گئی وہیں یہ انتہائی واضح پیغام بھی اس تقریر میں مضمر تھا کہ حکومت کی ان کوششوں کو کسی بھی طرح کمزوری نہ سمجھا جائے۔پاک افواج ملک کے خلاف کسی بھی فتنے کو بزور بازو کچلنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔شہدا کے لواحقین کی موجودگی میں اپنے خون معاف کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن ملک کی بہتری اور استحکام کے لئے آرمی چیف نے اپنے بیٹوں کا خون بھی معاف کیا اور اس پہ شہیدوں کے وارثوں نے تالیاں بجا کے ان کے بیان کی تائید کی۔

دوسرا پیغام پاکستان مخالف بیان دینے میں شہرت رکھنے والے نریندر مودی کے لئے تھا جومسلم دشمنی کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ امن چاہتا ہے لیکن ہم اپنے خلاف ہونے والی ہر حرکت پہ نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی جارحیت کی صورت میں اس کا منہ توڑ جواب دینے کی سکت رکھتے ہیں۔اسی کے ساتھ کشمیر کے ضمن میں آرمی چیف نے برملا کہا کہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اسے اقوام متحدہ ہی کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہئیے۔اس بیان نے ان سارے خدشات کی بھی نفی کر دی کہ پاکستانی حکومت کشمیر پالیسی کو بدل رہی ہے یا اس پر دوبارہ کوئی یو ٹرن لینے جا رہی ہے۔نریندر مودی کے بیانات پہ دفتر خارجہ کے رد عمل اور آرمی چیف کے بیان کو ملا کے دیکھا جائے تو اس سے حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔نریندر مودی کے بیانات سن کے مجھے ایل کے ایڈوانی کے وہ بیان بھی یاد آئے جو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد دئیے گئے اور اس کے بعد جب پاکستان نے جوابی دھماکے کئے تو ایڈوانی جسے بھیگی بلی بنا میں آج بھی اس سے بہت محظوظ ہوتاہوں۔

گوکہ فوج نے سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا ہے اور وہ کسی بھی صورت مداخلت کی پالیسی نہیں رکھتی لیکن آرمی چیف نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ہم ملکی معاملات سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں رکھ سکتے۔حکومت کے لئے اس خطاب میں یہ پیام مضمر تھا کہ حکومت کے ہر آئینی اور قانونی اقدام کی حمایت کی جائے گی ۔کسی بھی غیر آئینی اور غیر قانونی ایڈونچر کی حکومت خود ذمہ دار ہو گی۔تھوڑا کہہ کے بہت سمجھنے کی اس سے اچھی مثال شاید ممکن نہ ہو۔جیو کی آئی ایس آئی مخالف مہم میں جس طرح حکومت کان لپیٹ کر بیٹھی رہی اس پہ انتہائی احتیاط اور خوبصورتی کے ساتھ اظہارِ ناپسندیدگی بھی اس خطاب کا حصہ تھی۔میڈیا کی آزادی کے ضمن میں آرمی چیف نے جو کچھ کہا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دن میڈیا اور خصوصاََ الیکٹرانک میڈیا کے لئے خاصے کٹھن ہوں گے۔جیو کو بہرحال جوابدہ ہونا پڑے گا۔ کاروائی شفاف ہو گی اور جیو کے ساتھ وہی ہوگا جو قانون کہے گا اور قانون کیا کہتا ہے اس کے لئے احمد رضا قصوری یا اعتزاز احسن ہونے کی ضرورت نہیں۔ان لوگوں پہ البتہ حیرت ہوتی ہے جو مشرف کے خلاف انتہائی ایکشن چاہتے ہیں لیکن جیو پہ ہاتھ ہولا رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔قانون تو کہتے ہیں اندھا ہوتا ہے لیکن کیا کریں اندھا بھی ریوڑیاں بانٹے تو مڑ مڑ اپنوں ہی کو بانٹتا ہے۔

میں نے پہلے بھی نقارہ خدا میں لکھا تھا کہ فوج کا مورال اس وقت ساتویں آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور اس کی وجہ عوام کی وہ والہانہ محبت ہے جو پاکستانی عوام نے اپنی افواج کے لئے دکھائی۔فوج کا ترجمان تو بس ایک حد تک ہی صفائی دے سکتا ہے لیکن قوم نے سوشل میڈیا پہ جس طرح اپنی فوج اور اداروں کا دفاع کیااس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔فوج کے ساتھ عوام کی محبت راتوں رات پیدا نہیں ہوئی اس کے لئے فوج کے جوانوں اور افسروں نے بے مثال قربانیاں دی ہیں اور قوم کی نظروں میں اپنے آپ کوملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا محافظ ثابت کیا ہے۔فوج اپنے کسی بھی اقدام سے اس محبت کو کبھی ختم نہیں ہونے دے گی۔

فوج البتہ ملک دشمنوں کے خلاف بر سر پیکار رہے گی،دشمن اندرونی ہوں یا بیرونی۔جنرل مشرف کا ایک فقرہ البتہ حکمرانوں کے پیش نظر رہنا چاہئیے کہ آئین بچاتا تو ملک ٹوٹتا تھا اور ملک بچاتا تو آئین۔اس لئے میں نے آئین توڑنے کا فیصلہ کیا۔ملک ٹوٹنے کی طرف جائے گا تو فوج کیا کوئی بھی خاموش نہیں رہے گا۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268760 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More