کیا وارانسی میں مودی کی ناکامی ممکن

 2014ء کے انتخابات میں جو اہمیت وارانسی کے پارلیمانی حلقہ کو حاصل ہے وہ کسی اور حلقہ کو بلا شبہ حاصل نہیں ہے۔ اس کی اہمیت صرف اسی لئے نہیں ہے کہ وہاں سے مودی وزارت عظمیٰ کے لئے بی جے پی کے نامزد کردہ امیدوار ہیں اور ابھرتی ہوئی سیاسی طاقت ’’ آپ‘‘ کے اروند کجریوال سے مقابلہ کرتے ہوئے مودی کے دانتوں تلے پسینہ آرہا ہے یا وارانسی (جو ہندوؤں کا مقدس ترین شہر ہے) سے کامیابی کسی بھی لحاظ سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ہے یا وارانسی سے مودی سے مقابلہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یوں تو مودی بڑودہ سے بھی مقابلہ کررہے ہیں اور وہاں سے ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ۔ بڑودہ سے کامیابی کی صورت میں وارانسی میں کامیابی یا ناکامی کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہ جاتی ۔ اس کے باوجود اس حلقے سے ناکامی کی صورت میں مودی کے وزیراعظم بن جانے کے ان کے خواب(انشاء اﷲ العزیز) چکنا چکور ہوسکتے ہیں کیوں کہ ایک تو وارانسی میں مودی کی ساکھ داؤ پر لگی ہے وارانسی مودی کے لئے ’’ وقار‘‘ کا حلقہ ہے تو دوسری طرف خود بی جے پی میں ان کی حیثیت اور موقف کمزور ہوجائے گا ۔ بی جے پی میں مودی کے حریف جنہوں نے مجبوراً مودی کی برتری تسلیم کی ہے وہ پھر ایک مرتبہ مودی کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ بی جے پی کو لوک سبھا میں درکار اکثریت (اﷲ نہ کرے) حاصل کرسکے گی بی جے پی کو این ڈی اے میں مناسب تعداد میں کامیابی حاصل کرنے والی چند اور جماعتوں کی تائید اور مدد حاصل کرنا ہوگی ۔ وارانسی میں شکست خوردہ بی جے پی کا دبدبہ جب اپنی ہی پارٹی میں(انشاء اﷲ تعالیٰ) نہیں رہے گا تو بھلا دوسری جماعتیں ان کو کیا خاطر میں لائیں گی؟ وارانسی میں مقابلہ کرنے کیلئے مودی نے بڑی کوشش کی تھی بی جے پی کے بزرگ اور کل کے دوسرے اہم ترین رہنما مرلی منوہر جوشی کو ناراض کیا تھا مودی کی ساری مساعی ضائع ہوگی اور وہ سرمایہ دار اور کارپوریٹ ادارے (ملکی و غیر ملکی دونوں ہی) مودی کی ناکامی کے بعد مودی کی آج کی طرح ’’ دامے ‘ درمے ‘سخنے‘‘ قدر نہیں کریں گے۔

’’ واٹر لو‘‘ نامی مقام پر شکست فاش کے بعد نپولین کی حکومت اور عزت کا خاتمہ ہوگیا تھا اسی لئے مکمل تباہی کے ذکر کے لئے ’’ واٹر لو‘‘ علامت بن گیا ہے مودی کے لئے وارانسی ہی ’’ واٹر لو‘‘ (انشاء اﷲ تعالیٰ) ثابت ہوگا۔

مودی کی شکست کوئی بھی سیکولر خاص طور پر مسلمان اس وجہ سے نہیں چاہتے کہ وہ ’’ ہندوتواوادی‘‘ ہیں گجرات فسادات 2002ء کے ’’ ماسٹر مائنڈ‘‘(روح رواں) اور سرپرست و نگراں رہے ہیں۔ مودی کی مخالفت کی کئی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ آر ایس ایس کو اپنا ایجنڈہ (جو دراصل ڈاکٹر ہیڈ گیوار اور گولوالکر کا ایجنڈہ ہے ) نافذ کرنے کا موقع ملے گا۔ جمہوریت اور سیکولر مملکت کا خاتمہ اور ’’ ہندو راشٹر‘‘ کا قیام ہوگا اور غریب عوام‘ محنت کشوں‘ کسانوں اور مزدوروں کا خون چوسنے والے سرمایہ دار خوب استحصال کریں گے اور کارپوریٹ گھرانوں کا ملک پر قبضہ ہوگا اس لئے ملک کو سرمایہ دارانہ نظام کی لعنتوں سے بچانے کے لئے ملک کو مودی سے بچانا ضروری ہے۔

ملک کو بچانے کی ذمہ داری یوں تو ملک بھر کے رائے دہندوں پر ہے تاہم اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری یو پی اور بہار کے ان رائے دہندوں پر ہے جنہوں نے (7) اور (12) کو ووٹ دینا ہے اور سے بھی زیادہ وارانسی کے رائے دہندوں پر ہے بلکہ مودی کو اس کی خوش فہمیوں نے جارحانہ اور ناشائستہ انداز میں انتخابی مہم چلانے اور بیرون ملک کے صہیونی اور یہودی سرمایہ داروں اور ملکی سرمایہ داروں امبانی و اڈانی وغیرہ کے بل پر انتخابی مہم چلانے کی سزا صرف وارانسی کے رائے دہندے دے سکتے ہیں۔ رائے دہندوں میں تمام سیکولراور مسلمان رائے دہندوں کو خود کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے نہیں بلکہ بھر میں سیکولرازم کی بقا اور سیکولر جماعتوں کی ناعاقبت اندیشی ‘ مفاد پرستی اور اناپرستی کی ایسی غلطیوں( جو سیکولرازم کے لئے نقصان دہ اور مودی کے لئے فائدہ مند ہیں) کے ازالے کے لئے مودی کوناکام بنانے کے لئے انشاء اﷲ العزیز شکست فاش سے دوچار کرنا ہے۔ تاہم اتنے بڑے کام کے لئے صرف زبانی جمع خرچ ‘ بلند و بانگ دعوے اور خواہشیں کافی نہیں ہوتی ہیں بلکہ کچھ کرکے دکھانا پڑتاہے۔

مودی کے حریف امیدواروں میں اس وقت سب سے زیادہ طاقتور اور مودی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھنے والے امیدوار ’’ اروند کجریوال ‘‘ ہی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’ فرزند زمین‘‘ ہونے کے دعویدار (یعنی بنارس سے تعلق رکھنے والے اجے رانے ہیں) اور بھی کئی درجن امیدوار ہیں ۔ اگر تمام سیکولر جماعتیں (کانگریس‘ سماج وادی اور بی ایس پی وغیرہ) متحد ہوکر صرف ایک امیدوار کو مودی کے مقابلے میں کھڑا کرتے تو مودی کی ناکامی یقینی بن جاتی‘ کاش بڑی بڑی سیکولر جماعتیں مافیا کے ڈان کہلانے والے بدنام زمانہ مختار انصاری کی تقلید کرتے جنہوں نے جیل میں قید ہونے کے باوجود مسلمانوں کے ووٹس کو تقسیم ہونے سے بچانے اور مودی کے خلاف سیکولر محاذ کو مضبوط کرنے کے لئے مودی کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرکے مقابلہ سے دستبرداری اختیار کی لیکن آثار یہی ہیں کہ مخالف مودی ووٹس لازماً تقسیم ہوں گے لیکن اس تقسیم کو خاصی حد تک کم کرلیا جائے تو بھی مودی کو شکست دی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ وارانسی میں مسلمان رائے دہندے تین لاکھ سے زیادہ ہیں اور مخالف مودی ووٹر کا نصف بھی متحد ہوجائے تو مودی کی کشتی غرق کی جاسکتی ہے۔ مودی کے مخالفوں کے لئے ایک بہترین بات یہ ہے کہ اروند کجریوال ایک ایسے امیدوار ہیں جو بی جے پی و کانگریس ہی نہیں بلکہ کرپشن میں مبتلا کسی بھی جماعت کے امیدوار کے مقابلے میں قابل ترجحی ہیں ۔ کجریوال کی لڑائی کرپشن اور فرقہ پرستی سے ہے جو بھی کرپشن اور فرقہ پرستی کو ختم کرنا چاہتاہے وہ کجریوال کے حق میں ووٹ دے کر نہ صرف مودی کا راستہ روک سکتا ہے بلکہ فرقہ پرستی اور کرپشن کے خاتمہ میں اپنا رول ادا کرسکتا ہے۔ مودی کے مخالفین غیر مسلموں میں بھی اکثریت میں ہیں۔ سیکولر ووٹس بھی اسی طرح تقسیم ہوتے ہیں جس طرح مسلم ووٹس تقسیم ہوسکتے ہیں اوراس تقسیم کو حکمت عملی اور اتحاد سے روکا جاسکتا ہے لیکن اس سلسلے میں بعض اصحاب کا یہ خیال ہے کہ مخالف مودی اتحادیوں کا محاذ اور مودی کو ہرانے کا منصوبہ خاموشی سے روبعمل لانا چاہیے۔ اگر مخالف مودی پروپیگنڈہ زورشور سے کیا جائے تو اس کا فائدہ مودی کو ہوگا۔ یہ بے معنی بات ہے کیوں کہ مودی کا ووٹ بینک اپنے مخالفوں کی کسی بات سے بھی متاثر ہوکر قطعی بکھرے گا نہیں اور نہ ہی اس میں اضافہ ہوگا۔ ہاں مودی کے حق میں کام کرنے والے مخالف مودی کے ووٹس کو اپنے حق میں کرنے کاکام خاموشی سے نہیں کرسکتے ہیں تو مخالف مودی کام کیسے اور کیوں کر خاموشی سے کیا جاسکتا ہے؟

ہر مخالف مودی ووٹر کو اپنا ووٹ ضرور دینا چاہیے اور صحیح طریقے سے دینا چاہیے تاکہ آپ کا ووٹ مسترد نہ ہو۔ کجریوال ہر حال میں وارانسی والوں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے‘ خاندانی رشتہ ‘ دوستی‘ محلہ داری‘ ذات برادری‘ مسلک ‘مذہب ‘ علاقہ واری اور لسانی تعلق ہر چیز کو بالائے طاق رکھ کر کجریوال کو ووٹ دیں ۔اگر مذہب ‘ مسلک‘ علاقہ‘ زبان ‘ ذات برادری‘ محلہ داری ‘ رشتہ داری ‘ دوستی کے لحاظ کا فائدہ صرف مودی کوہوگا۔ اور بھی جہاں کہیں ووٹنگ ہو وہاں بھی آپ یہی چیز ملحوظ رکھیں وارانسی کے علاوہ جہاں بھی بی جے پی اور اس کے حلیف ہیں ان کو بھی ہرانا مودی کو ہرانے کے لئے ضروری ہے ۔ مودی بجے پی اور اس کے ساتھیوں کو ہرانا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ آپ کا اتحاد اور آپ کے ووٹ کا صحیح استعمال بڑی بات ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 165525 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.