بے وقت کی راگنی

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت ایک انتہائی منظم دھاندلی کی پیداوار ہے۔اس میں بھی لیکن کوئی شک نہیں کہ عمران خان سمیت سارے سیاسی لیڈروں نے اس دھاندلی کو قبول کیا اور مسلم لیگ نواز کی حکومت بننے دی۔انتخابی نتائج آنے کے بعد وقت تھا کہ اس زیادتی کے خلاف احتجاج کیا جاتا۔عوام کو سڑکوں پہ لایا جاتااور اس عظیم نا انصافی کے خلاف ملکی سطح پہ احتجاج کیا جاتا تو عدلیہ میڈیا اور باقی سارے گٹھ جوڑ دھرے کے دھرے رہ جاتے اور نگران حکومت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ رہ جاتا کہ وہ دوبارہ انتخابات کا اعلان کرتی۔وہ لوگ جو طاہر القادری کو طعنے دیتے تھے کہ یہ شخص سسٹم کو ڈی ریل کرنا چاہتا ہے آج اس کی فراست کے گن گا رہے ہیں۔طاہر القادری نے الیکشن سے پہلے بجا طور پہ کہا تھا کہ موجودہ نظام کے تحت ہونے والے الیکشن سے کوئی تبدیلی متوقع نہیں اور اس کے نتیجے میں سارے چور ڈاکو اور اچکے دوبارہ آکے اسمبلیوں میں براجمان ہوں گے۔وقت نے ثابت کیا کہ اس شخص کی بات کتنی درست تھی۔اس وقت اگر عمران خان طاہر القادری کا ساتھ دیتے تو آج ملک میں ایک حقیقی نمائیندہ حکومت ہوتی۔

آئین کو مقدس کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ عوام کی امنگوں اور ان کے نظریات اور خواہشات کا ترجمان ہوتا ہے لیکن اگر عوام کے نظریات بدل جائیں۔ان کی خواہشات تبدیل ہو جائیں تو کیا پھر بھی آئین مقدس ہی رہتا ہے۔آئین مقدس نہیں بلکہ عوام کی ترجیحات اور خواہشات مقدس ہوتی ہیں جن پہ آئین کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ہمارے بزرگوں نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ایک بہترین آئین اس قوم کو دیا تھا لیکن ۷۳ ء سے لے کے اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔اس وقت معاشرے میں برداشت تھی،امن تھا بھائی چارہ تھا اور سب سے بڑھ کے یہ کہ کرپشن سے نفرت تھی۔ آج تو ہر شخص دولت کی خاطر دوسرے کی جان لینے کے درپے ہے۔اپنی مرضی وہ گن پوائنٹ پہ منوانا چاہتا ہے۔اس زمانے میں تو ملک کے وزیر اعظم تک پھانسی پہ لٹکا دئیے جاتے تھے جبکہ آج گلی کے اس کن ٹٹے کو جس پہ جرم ثابت ہو چکا،عدالت جسے سزا دے چکی ہو، اسے لٹکانا بھی حکومت کے لئے مشکل ہے کہ اس کے حواری محلات پہ حملوں کی دھمکی دیتے ہیں اور بچوں کو اغواء کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

آئین کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کا بڑا ذکر کیا جاتا ہے لیکن کوئی اس پر عمل کی بات نہیں کرتا۔ الٹا ریٹرنگ آفیسر اس کا مذاق اڑاتے پائے جاتے ہیں ۔اسمبلی میں بیٹھا ایک شخص بھی ان دفعات کی چھاننی سے نہیں گذرتا۔آئین کو دیکھا جائے تو کیا بہت سارے وزیر اور مشیر سنگسار ہونے کے لائق نہیں ٹھہرتے؟بہت سوں کو سر عام درے مارنا نہیں بنتا؟بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا ایک ایک ہاتھ تو لازمی کٹنا چاہئیے کہ ان میں سے اکثر نے قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کے لوٹا ہے۔ہم آئین توڑنے کو ملک سے غداری کے مترادف قرار دیتے ہیں لیکن خود دن میں دس بار اسے توڑتے ہیں اور کسی کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی۔کوئی شرمندہ نہیں ہوتا اور کسی پہ مقدمہ قائم نہیں ہوتا۔حکومت عوام کے جان مال اور عزت کی محافظ ہوتی ہے ۔ہمارے ہاں خود حکمرانوں کی جان محفوظ نہیں وہ عوام کی جان کی خاک حفاظت کریں گے۔مال ان کا اس لئے محفوظ ہے کہ وہ ملک سے باہر ہے اور عزتیں۔۔۔۔۔اس کی اب کیا بات کریں۔موجودہ حکمران جب حکومت سے باہر تھے تو پیٹ چیر کے لوٹی ہوئی دولت واپس لانیکا دعویٰ کیا کرتے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سابقہ حکمرانوں سے ان کی محبت عوام کا منہ چڑا رہی ہے۔اب سابقہ اور موجودہ حکمران ایک ہی سکے کے دو رخ اور ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے لگتے ہیں۔آئین پھر بھی مقدس ہے۔بھائی آئین اس لئے مقدس ہے کہ وہ عوام کی امنگوں کا مظہر ہے۔اور عوام کی امنگ تو یہ ہے کہ ان سارے سیاسی چغادریوں کو کسی بحری جہاز میں بٹھا کے بحیرہ مردار میں غرق کر دیا جائے تا کہ قوم ان کی تسمہ پائی سے نجات حاصل کرے۔عوام کی یہ امنگ لیکن کبھی آئین کا درجہ نہیں پائے گی کہ عوام کا مینڈیٹ ہی ہر بار چوری کر لیا جاتا ہے۔ہر بار ان کے ساتھ ہاتھ ہو جاتا ہے۔مصیبت لیکن یہ ہے کہ وقت قیام نادان سجدے میں گر جاتے ہیں اور موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

ابھی اس جعلی حکومت کو بنے ایک سال ہوا ہے۔الیکشن میں ابھی چار سال باقی ہیں۔حکومت کے ساتھ ساتھ ایک ملک بھی ہوتا ہے ۔عدم استحکام جس کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔طاہر القادری گیارہ مئی سے پھر میدان لگانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ عمران خان نے بھی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔مئی کی چلچلاتی دھوپ میں اپنے کارکنوں اور ماننے والوں کو سوائے دھوپ میں جلانے کے یہ دونوں اصحاب اس احتجاج سے کیا برآمد کر پائیں گے۔سوائے اس کے کہ دنیا ان پہ طعنہ زن ہو گی۔انہیں فوج کے اشارے پہ ناچنے والی پتلیاں کہا جائے گا اور مانا کہ یہ اپنے احتجاج کو نقطہ عروج پر بھی لیجائیں گے تو کیا آخر میں طاہر القادری کے سابقہ دھرنے کی طرح چند حکومتی وزراء سے ملاقات کر کے سارا معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو جائے گا۔مجھے ابھی تک احتجاج کی یہ کال بے وقت کی راگنی لگتی ہے کہ اس کا ایجنڈا واضح نہیں۔ ہم تو اس عطار کے لونڈے سے دوا مانگنے چلے ہیں جو ہماری بیماری کا سبب ہے۔ان پڑھ طالبان آئین کو نہیں مانتے لیکن پڑھے لکھے طالبان آئین پہ عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہیں ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر پاکستان میں آئین اس کی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے تو اس ملک کی آٹھ فیصد اشرافیہ تو یونہی قابل گردن زنی ٹھہرے گی۔

مانا کہ موجودہ حکومت کرپٹ بھی ہے اور اس کا مینڈیٹ بھی جعلی ہے لیکن آپ نے اسے بذاتِ خود تسلیم کیا ہے۔اب اسے چلنے دیجئیے کہ اسی میں سب کا بھلا ہے۔معاملہ حکومت کا نہیں ملک کا ہے۔ملک ہے تو سیاست ہے۔ملک ہے تو اقتدار ہے۔ملک ہے تو آزادی اظہار بھی ہے۔خدا را اس ملک پہ رحم کریں اور اپنے کارکنوں پہ بھی۔ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کے آخری سال میں آپ یہ میدان سجائیں اور انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کریں ۔آج اگر حکومت نے آپ کے احتجاج کے ہاتھوں مجبور ہو کے انتخابی اصلاحات کا وعدہ کر بھی لیا تو کیا وہ وعدہ واقعی پورا بھی ہو جائے گا۔ ہمارے ملک میں حکومتوں کے وعدہ پورا کرنے کا ٹریک ریکارڈ کچھ ایسا اچھا بھی نہیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268666 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More