ہمارے لوگ بھی بہت بھلے بانسہیں۔
دنیا بھر کی اقوام کے مقابلے میں سب سے جدا اور سب سے الگ طبیعت کے مالک
ہیں…… ان کے شوق بھی اپنے ہی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔ جواب دہی پر اتر آئیں
تو گلی محلے کی بہتر انداز میں صفائی نہ ہونے پرخادم اعلی سے وزیر اعظم تک
سے مستعفی کا مطالبہ کر دیں…… اور اگر نہ پوچھنے پر آئیں تو آدھا ملک گنوا
دینے والوں سے کچھ نہ پوچھیں…… اور خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت
ڈھونڈیں۔ بلکہ انہیں اپنا ہیرو بنا کر ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالیں
…… اپنی مرضی کے برخلاف کام ہونے پرلوگ بڑی سادگی سے سوال کر دیتے ہیں کہ
حکمران عوام کو ریلیف بہم پہنچانے میں ناکام ہو گے ہیں لہذا وہ کرسی چھوڑ
دیں……حکومت بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے میں کامیاب نہ ہو سکی ہے ۔
اس لیے فورا اقتدار سے الگ ہوجائے……وزیر اعظم چوری ڈکیتی کی وارداتوں پر
قابو پانے میں ناکامی پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں وغیرہ وغیرہ……آپ اسے
جو مرضی کہیں میں تو اسے لوگوں کی سادگی ہی کہوں گا-
یہ سادگی نہیں تو اور کیا ہے ۔کہ لاکھوں پاپڑ بیلنے کے بعد ہاتھ لگنے والی
کرسی چھوڑنے کا مطالبہ اتنی سادگی سے کر دیتے ہیں جیسا گڈے گڈی کے بیاہ کا
معاملہ ہوتا ہے۔ کرسی چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا ہم پاکستان والے
سمجھی بیٹھے ہیں۔ یہاں وزیر اعظم تو دور کی بات ہے ، لوگ تو موری ممبری
چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔جہاں سے ایک پائی کی’’ کمائی ‘‘ نہیں ہوتی بلکہ
الٹا ’’ پلے ‘‘ سے ہی خرچ اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ آپ لوگ سابق
بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی بات نہ کیجیے گا اور نہ ہی جنوبی
کوریا کے وزیر اعظم کی مثال دینے بیٹھ جانا۔ کیونکہ انکے ہاں ابھی ضمیر
زندہ ہے اور غیرت بھی موجود ہے۔ لال بہادر شاستری نے ایک ریل کے حادثے پر
بطور وزیر ریلوے استعفی دے دیا تھا۔اور جنوبی کوریا کے وزیر اعظم نے سمندر
میں ایک بحری جہاز ڈوب جانے پر اقتدار چھوڑنے کا اعلان کر دیا لیکن ہمارے
ہاں ابھی کچھ سال اور جمہوریت کو پنپنے کے مواقع ملنا ضروری ہیں۔
ایک واقعہ یہاں شیئر کرنا چاہوں گا۔ جس سے واضع ہوگا کہ لوگ کس قدر کرسی سے
محبت کرتے ہیں۔ چاہے بے شک کرسی بے جان ہی کیوں نہ ہو۔ پچھلے ماہ کی آخری
تاریخوں میں میرے شہر شرقپور شریف کے پریس کلب کے سال برائے 2014-15 کے
انتخابات منعقد ہوئے صدر پریس کلب جو کہ گذشتہ سات برسوں سے بلا شرکت ایرے
غیرے پریس کلب کے صدر چلے آ رہے تھے۔ نے خود اپنے ہاتھوں نئے انتخابات کی
تاریخ کا اعلان کیا اور مقامی سنیئر صحافی ملک تاج محمد ساغر کو الیکشن
کمیٹی کا چئیر مین نامزد کیا ۔ صدر پریس کلب کے انتخاب کے لیے دو امیدوار
ملک محمد اقبال شاکر اور سابق صدر ایم جمشید رفیق ملک کے نام سامنے آئے۔
مگر سابق صدر نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح انہیں ایکبار پھر صدر منتخب کر لیا
جائے مگر کلب ممبران کی اکثریت شائد اس بار فیصلہ کر چکی تھی ،کہ اس بار
چہرے تبدیل کرکے دم لیں گے۔
سو جب سابق صدر محترم ایم جمشید رفیق ملک نے ممبران کی اکثریت کے فیصلے کو
تبدیل کرنے میں اپنی ناکامی دیکھی تو انتخاباب کے نتائج کو ہی تسلیم کرنے
سے انکار کردیا۔ اور اسی بوکھلاہٹ کے عالم میں انہوں نے خبریں شائع کروادیں
کہ انتخابات کورم پورا نہ ہونے پر ملتوی کر دئیے گے۔لیکن دو دن کے بعد شہر
میں بینرز آویزاں کروا دئیے کہ وہ صدر پریس کلب منتخب ہوگے ہیں۔ وہ کہتے
ہیں ناں کہ جلد بازی میں کوئی نہ کوئی غلطی ،کوتاہی سرزد ہو جاتی ہے۔
شرقپور پریس کلب کے سابق صدر ایم جمشید رفیق ملک اور انکے ساتھیوں سے بھی
ایک غلطی ہوگئی۔ کہ انہوں نے راتوں رات ایسے ایسے ’’صحافی پیدا‘‘ کر لیے جن
کے نام میں نے اپنی ساری زندگی میں کبھی نہ سنے تھے۔ اور بعض خوش نویس
حضرات کو بھی ممبر پریس کلب بنانے کے ساتھ ساتھ کلب کے عہدے دار بھی بنا
لیا۔کچھ ایسے صحافی جنہیں سابق صدر نے اپنے ساتھ منتخب قرار دیا تھا انہوں
نے نہ تو حلف وفاداری میں شرکت کی اور نہ ہی اپنے انتخاب کو قبول کیا بلکہ
کچھ نے سابق صدر کے ساتھ ہونے کی تردید بھی کردی۔
شرقپور شریف جیسے چھوٹے سے ٹاون کی صدارت کے لیے ’’ لوگ سر دھڑ کی بازی ‘‘
لگا سکتے ہیں تو ہمارے سیاست دان بھلا کیسے بڑی طاقتور کرسی با آسانی چھوڑ
دیں۔؟یہی بات میں اپنے بھلے مانس اور سادہ طبیعت کے مالک لوگوں کو با ور
کرنے کی تگ ودو کر رہا ہوں کہ حضرات محترم ’’ یہاں گلی گلی زرداری پھرتے
ہیں یہاں کلہ آصف زرداری نئیں‘‘ بس اپنے کام سے کام رکھیے اور ناک کی سیدھ
پر چلتے ہوئے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے رہئیے۔ وضول کی باتوں
میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے وقت کی قدر کرنا سیکھیے …… اپنے
ٹاون کے پریس کلب کے معزز اراکین مجھے سینئر صحافی اور کالم نگار ہونے کے
باعث نہایت عزت و احترام دیتے ہیں۔ لیکن میں پہلے ایم جمشید رفیق ملک کو
انتہائی سمجھدار ،تعلیم یافتہ خیال کرتا تھا ۔اور میں انکی گفتگو سے بہت
متاثر بھی تھا لیکن جمہوری انداز میں منعقد کرائے گے پریس کلب کے انتخابات
کو محض اس لیے متنازع بنا دینا اور اس کے متوازی ایک اور پریس کلب کھڑی کر
دینا مجھے کچھ اچھا نہیں لگا۔ جمشید رفیق ملک اور انکے سب قابل احترام
دوستوں سے عرض کروں گا کہ ملک صاحب ایک سال کی ہی تو بات ہے اور سال گذرتے
خبر نہیں ہوتی…… ڈیڑھ دیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجدیں بنانے سے مذید تفرقہ
بڑھے گا اور اس ’ ذاتی مفادات اور اناکے’کھیل ‘‘ میں نقصان آپ صحافیوں کا
ہی ہونا ہے کسی اور کا نہیں …… اس کے علاوہ آپ لوگ ہی جنگ ہنسائی کا موجب
بنیں گے……صلاح عام ہے یاران نکتہ دان کے لیے - |