انگریزوں کی دور غلامی سے آزادی
کے بعد ہندوستان نے برٹش حکومت کی جانب سے تاج برطانیہ سے وفاداری کرنے
والے ضمیر فروشوں کو اعزازت کے ساتھ مال مفت دل بے رحم کے مصداق ہزاروں ،
لاکھوں ایکڑ اراضیوں کو" نہرو قومی پالیسی "کے تحت قومی ملکیت میں لینا
شروع کردیا اورانگریزسرکار کی دی جانے والی تمام اراضی کو قومی تحویل میں
لے لیاجبکہ ہندوستان کے برعکس پاکستان میں نہ صرف جاگیرداروں نے اپنی
جائیدایں ضبط ہونے سے بچا لیں بلکہ مسند اقتدار پر بھی قابض ہوگئے اور رفتہ
رفتہ مملکت کی تمام بھاگ دوڑ صرف چند خاندانوں کے ہاتھوں میں محدود ہو کر
رہ گئی جس کا سلسلہ ہنوز سیاسی جانشینوں کی صورت میں جاری ہے۔
پاکستان کے عوام کی ستم ظرفی یہ رہی کہ تاج برطانیہ کے وفاداروں نے ان
تربیت یافتہ جرنیلوں کو بھی اپنے اقتدار میں شامل کرنا شروع کردیا جن کی
تمام تر تربیت فرنگی طرز حکومت کے تحت ہوئی تھی اور بیورو کریٹس نے اپنی ان
پالیسوں کے تسلسل کو قائم رکھا جس کی انھیں بطور خاص تربیت دی جاتی ہے کہ
عوام محض کیڑے مکوڑوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔پاکستان کا تمام بیورکریسی
اور طرز حکمرانی کا ڈھانچہ ماسوائے خطے کے نقشے میں نئے نام کے اضافے سے
زیادہ تبدیل نہ ہوسکا اور عوام پر بار بار" میرے ہم وطنوں" کہہ کر آمروں نے
حکومت کی جنھیں خود ان سیاست دانوں نے دعوت دیکر تخت خلافت تک پہنچایا جو
پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل اور بعد میں صرف اپنے جاگیردارانہ نظام کا
تحفظ چاہتے تھے۔
آزاد پاکستان ہمیشہ سرمایہ داروں ،جاگیرداروں، وڈیروں اور خوانین کے ہاتھوں
محکوم بنا رہا اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کالے قوانین کا اطلاق صرف
جاگیرداری نظام اور جرنیلی استحصالی نظام کے تحت محنت کش ، بے بس، لاچارگی
اور موت سے زیادہ اذیت ناک زندگی بسر کرنے والے عوام پر ہی ہوتا رہا۔محنت
کش طبقے کی وجہ سے ہی پاکستان کی صنعتی اور زرعی پیداوار میں ترقی کا راز
موجود تھا لیکن ہمارے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کو بدقسمتی سے
راشی کارندوں نے کبھی فوج کے کندھے پر ، تو کبھی عدلیہ کے میزان پر اپنے
شاندار کوٹھیوں اور لاکھوں روپوں کی تنخواہ اور مراعات کو دوائم بخشا اور
عوام کی رگوں سے اس کی محنت کا خون آخری حد تک نچوڑا گیا۔
ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ جہاں اس استحصالی طبقے نے قومی دولت کو طوائف پر
لٹائے جانے والا مفت خزانہ سمجھ کر لوٹا تو دوسری جانب پاکستان کا سرمایہ
بھی باہر ملک منتقل کرنا شروع کردیا اور ان لوگوں کی عیاشیوں کا خمیازہ
پاکستان کو ذلیل ترین حد تک مقروض ہونے کی صورت میں ملا اور اندرونی بیرونی
قرضوں نے صرف عوام کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔
لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کی گالی ان سیاست دانوں کیلئے اعزاز بن گئی اور
پاکستان کی بقا اور مساوات کے پر فریب نعروں کی وجہ سے ایک غریب شخص کیلئے
عزت سے کفن لینا بھی دشوار ہوگیا۔پاکستان کی معیشت پر سب سے بڑا بوجھ یہی
لوگ ہیں جو کبھی دفاع پاکستان کے نام پر، تو کبھی معاشی استحکام کے نام پر
عوام سے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔پاکستان کو معاشی ترقی پر گامزن کرنے
کیلئے ضروری ہے کہ عوام ایسی قیادت منتخب کریں جو کم ازکم یہ تو جانتی ہو
کہ آٹا کتنے روپے کلو میں بکتا ہے ۔۔
ملکی بجٹ میں کتنا خسارہ ہوا اور کتنے ملین کا بجٹ ہے اس سے غریب عوام کو
سروکار نہیں ہے ۔ بلکہ عوام چاہتی ہے کہ جس طرح پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں
لاکھوں روپوں کی تنخواہ اور مراعات حاصل کرنے والوں ایوان کے نمائندگان کو
سبسڈی دے کر سستا کھانا فراہم کیا جاتا ہے اسی طرح بلکتے ، روتے محنت کش
پاکستانی عوام کو مہنگائی سے بچایا جائے اورشاہانہ اخراجات کم کرکے عوام کو
ریلیف دیا جائے۔جاگیردارانہ نظام کو ٹیکس کے دائرے کار میں لائے بغیر ملکی
معیشت کو بیرونی قرضوں سے نجات نہیں مل سکتی۔عوام کو خود سوچنا ہوگا کہ آخر
کب تک اربوں روپے کلف لگے کپڑوں کے لئے مختص ہوتے رہیں گے اور ان کے پاس سر
ڈھاپنے کیلئے دوگز کی چادر تک میسر نہ ہوگی۔عوام ایک بار جاگیردارداروں کو
ٹیکس نظام میں لانے کیلئے پاکستان بچاؤ پالیسی اپنا لیں تو کوئی وجہ نہیں
کہ محکوم پاکستان آزاد نہ ہوسکے۔خدارا ! ۔۔۔ بجٹ میں عوام پر رحم کیا جائے
! ! ! |