1970کا تقریباَ پورا سال انتخابی
گہماگہمی میں گزرا دائیں بائیں کی بحث عروج پر تھی اور بہت حد تک کمیونسٹ
عناصر اور ان کے نظریات شکست کھا چکے تھے ۔اس لیے ایک نئی چال چلی گئی کہ
دینی قوتوں کو آپس میں لڑانے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ایک مسلک کے لوگوں کو
ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرکے نبی کا جھنڈا اونچا رہے گا کے نعروں کی
گونج نے ایک جذباتی فضا بنائی دوسری طرف ایک اور مسلک کے لوگوں نے مسجد میں
ممبر رسول پر بیٹھ کر جماعت اسلامی کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرنا شروع
کردیے ۔ان ہی دنوں ہمارے محلے کی ایک مسجد میں ایک عالم صاحب مولانا مودودی
اور جماعت اسلامی کے خلاف شدت سے مخالفت میں تقریر کیا کرتے تھے ۔ماحول میں
ایک تناؤtensکی کیفیت رہتی تھی ۔اتفاق سے ان عالم صاحب کے چار بیٹے تھے اور
چاروں جماعت اسلامی کے کارکن تھے ۔وہ لوگ بھی پریشان تھے ابا جی سے کیسے
بات کی جائے۔ان کے بیٹوں نے ایک راستہ نکالا کہ ابا جی کے کچھ دوستوں سے
رابطہ کیا اور ان کے ذریعہ سے بات پہنچانے کی کوشش کی آپ کے اس طرح کے
جذباتی طرز عمل سے ماحول میں کھچاؤ پیدا ہو رہا ہے بہرحال یہ ترکیب کارگر
ہوئی اور ان کے لہجہ ،انداز اور ٹون میں بہت حد تک کمی ہو گئی ،ان کے بڑے
بیٹے جو آج رکن جماعت ہیں نے اپنے اباپر کام کا ایک راستہ نکالا کہ ابا کے
ایک دوست کو ترجمان القران یہ کہہ کر دیا کہ آپ یہ ابا کو دے دیا کریں اس
طرح وہ مہینوں بالواسطہ طریقے سے والد صاحب کو ترجمان پہنچاتے رہے۔ایک دفعہ
ان کے ابا کے دوست سے عالم صاحب نے کہا کہ اس دفعہ کے ترجمان میں مولانا نے
کچھ حوالہ جات ایک مضمون کے ٹھیک نہیں لکھے یا اسی طرح کی کسی غلطی کی
نشاندہی کی ۔ان دوست صاحب نے اس کا ذکر ان کے بیٹے سے کیا ۔بیٹے نے ابا کے
دوست سے کہا کہ ابا جی کہیں کہ اس سلسلے میں مولانا مودودی کو خط لکھ دیں
۔چنانچہ دوست کے مشورہ دینے پر ان عالم صاحب نے مولانا کو خط لکھ دیا
۔تھوڑے دن بعد ان کے پاس مولانا مودودی کا جواب آیاجس میں ان کا شکریہ ادا
کیا گیا تھا اور یہ بھی لکھا کہ آپ نے جو نشاندہی کی ہے وہ درست ہے اس دو
لائن کے جواب نے انھیں اتنا متاثر کیا کہ وہ بالکل یو ٹرن ہو گئے یعنی
مولانا کے وہ جتنے شدید مخالف تھے اتنے شدید ہامی ہو گئے ۔اب جہاں وہ شدت
سے مخالفانہ تقریریں کرتے تھے وہاں وہ مولانا کی حمایت میں تقریریں کرنے
لگے پھر انھیں اس مسجد سے ہٹادیا گیا ۔اس کے بعد علاقے ایک دوسری مسجد جس
کی کمیٹی میں جماعت کے لوگ تھے انھیں خطیب کی حیثیت سے رکھ لیا گیا۔یہ
واقعہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ خطوط لکھنے کی جو اہمیت ہے وہ تو اپنی جگہ
لیکن جواب دینے کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔مولانا مودودی کے دو لائن کے جواب
نے ان کی دنیا بدل کے رکھ دی ۔آخروقت تک جب تک وہ زندہ رہے ہر جمعہ کی
خطابت میں وہ جماعت اسلامی کا نام لے کر تقریر کرتے تھے ۔جماعت اسلامی کے
سابق امیر چوہدری غلام محمد صاحب اپنے پاس آنے والے ہر خط کا جواب دیتے تھے
ان کا کہنا تھا کہ خط کا آنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے آپ کو سلام کیا اور خط
کا جواب دینا ایسا ہے جیسے آپ سلام کاجواب دیتے ہیں۔ہر بڑے آدمی ایک نشانی
یہ بھی ہے کہ وہ اپنے یاد کرنے والوں کو چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹاجواب ضرور
دیتا ہے ۔مولانا مودودی ہر خط کا جواب دیتے تھے ۔جماعت اسلامی کراچی میں
سید منور حسن صاحب تک یہ روایت پابند سے قائم رہی ہے ۔ |