بھارت پاکستان کا پڑوسی تو ضرور
ہے مگر بہت تکلیف دے پڑوسی رہا ہے۔ 1947 سے آج تک یہ اذیت پسند پڑوسی ہمارے
دکھوں کا مداوا کرنے اور ہمیں ہمدردیاں فراہم کرنے کے بجائے ہمیشہ ہمیں
تکلیف میں مبتلا کر کے خوش ہوتا رہا ہے۔ ہم نے لاکھ کوششیں کیں کہ اس کی یہ
بگڑی ہوئی عادت ختم ہوجائے مگر اسے تو جیسے اپنے پڑوسیوں کو اذیت میں مبتلا
کرنے سے سرور حاصل ہوتا ہے۔ وہ چاہے نیپال ہو بھوٹان ہو سری لنکا ہو، بنگلہ
دیش، عوامی جمہوریہ چین یا پاکستان سب اسکے ازیوم کردہ دشمن ہیں۔ حالانکہ
ان میں بہت چھوٹے ممالک بھی ہیں جیسے سری لنکا، نیپال اور بھوٹان ہیں ان
ممالک سے بھی یہ خوش نہیں رہتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی اسکے مقابلے
میں تو خاصے چھوٹے ہیں ہاں البتہ اونٹ کے سامنے ایک پہاڑ بھی موجود ہے جسے
عوامی جمہوریہ چین کے نام سے ساری دنیا جانتی ہے۔ البتہ پاکستان اور بنگلہ
دیش سے بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت کے اندر بڑا پن نظر نہیں آتا ہے۔ اس
کی علاقے کا ڈان بننے کی خواہش تو ہمیشہ سے رہی ہے۔ مگر پڑوسیوں کی ہمدردی
اس سے کوسوں دور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تمام پڑوسیوں سے کوئی نہ کوئی
تنازعہ ضرور ہے۔ بھارت عوامی جمہوریہ چین سے بھی 1962 میں لدّاخ کے علاقے
میں پنجہ آزمائی کر کے مار کھانے کے باوجود گاہے بگاہے اس سے بھی پنگے بازی
کرتا رہتا ہے۔ جہاں سے اسکو ہمیشہ منہ کی ہی کھانی پڑی ہے۔ ایک بات کی
بھارت کو داد دینی چاہئے کہ تمام پڑوسی ممالک میں اسکی ایجنسی را تخریبی سر
گرمیوں میں ملوث رہتے ہوئے اکھاڑ پچھاڑ کرتی رہتی ہے۔ جب کبھی ان کے اپنے
ملک میں چلنے والی تحریکوں کے نتیجے میں کوئی کا بڑا کارنامہ سرزد ہوجاتا
ہے تو حسبِ عادت اسکی ذمہ داری پاکستان یا بنگلہ دیش پر ڈال دی جاتی ہے۔
بنگالی تو زندہ قوم ہیں وہ بھارت کو پتھر کا جواب اینٹ سے دیتے ہیں۔ مگر
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ پاﺅں کے ساتھ امریکہ نے ہماری زبان بھی
باندھ رکھی، بھارت کے اندرونی تخریب کار جب بھی کوئی کاروائی کرتے ہیں تو
اس کا الزام پاکستان پر ہی لگتا ہے اور پھر امریکی حکمران بھارت کی حمایت
کرتے نظر آتے ہیں اور ہماری سرکار کو تو جیسے گُنگ لگ جاتا ہے۔ آواز ہی حلق
میں پھنس کر رہ جاتی ہے کہ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔
بھارت سے تعلقات کی بہتری کی تو ہمیں ہمیشہ سے ہی خواہش رہی ہے۔ مگر یہ بیل
کبھی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں پاکستان اور
بھارت کے سیکریٹری خارجہ کی نیو یارک کے روز ویلٹ ہوٹل میں ڈیڑھ گھنٹے گفت
وشنید ہوئی مگر اس ملاقات میں کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ پاکستان کے ہائی
کمیشن برائے بھارت شاہد ملک کے علاوہ بھارتی جوائنٹ سیکریٹری برائے ایشیا
پی سی راگوان بھی شریک تھے۔ اس بات چیت میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی
پیشرفت دیکھنے میں نہ آئی۔ جبکہ امریکہ کی بھی یہ خواہش تھی کہ بھارت
پاکستان کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کرے۔ مگر بھارت اپنے اندرونی خلفشار
کی وجہ سے اس گفت وشنید میں کنیّ کاٹتا رہا ہے۔ وہ کوئی پیشرفت کرنا ہی
نہیں چاہتا ہے۔
پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ دو
گھنٹے کی ون ٹو ون اور ایک گھنٹے کی دونوں ممالک کے وفود کی ملاقاتوں کے
دوران تبادلہ خیالات ہوا اور ایکدوسرے کا مؤقف سنا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ
پاکستان ڈائیلاگ کا خواہشمند ہے لیکن بھارت مذاکرات نہیں چاہتا تو پاکستان
کو بھی کوئی مجبوری نہیں ہے(حالانکہ مجبوری ہے جو اوبامہ سرکار کی عطا کردہ
ہے)بھارت سنگل مسئلے پر بات کر کے سنگل ہی نتیجہ چاہتا ہے۔ جو پاکستان کو
کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اس بات چیت میں یہ تو طے کرلیا گیا کہ اگلے
دن یعنی اتوار کو دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کی ملاقات بھارتی وفد کے ہوٹل
میں ہونا قرار پائی۔ دوسری جانب پاکستان کی وزارت خارجہ کے حکام کا کہنا ہے
کہ پاکستان بھارت سے ہر جگہ اور ہر وقت گفت و شنید کے لئے تیار ہے۔ کیونکہ
گفت و شنید کے بغیر علاقے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ مگر لگ یوں
رہا ہے اس معاملے میں بھارت سنجیدہ نہیں ہے اور ہم دکھاوؤں میں مصروف ہیں
اس وقت بھارت کے تیور کچھ اچھے نہیں لگ رہے ہیں۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ
پاکستان اور بھارت کے درمیاں تناﺅ ختم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سیکریٹریز کی
گفتگو شروع ہونے سے پہلے ہی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے بیان داغ دیا
کہ دہشت گردی کے خاتمہ تک پاکستان سے کسی قسم کے بھی مذاکرات نہیں ہونگے
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو ریاستی پالیسی
کے طور پر استعمال کرنے کا اپنا رویہ تبدیل نہیں کررہا ہے۔ یہ واحد پاکستان
کی پالیسی ہے جو ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو معمول پر لانے میں واحد رکاوٹ
ہے۔ پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث ملزمان کے خلاف کاروائی کرے۔ اگر اسلام
آباد کی جانب سے اس ضمن میں اقدامات کئے گئے تو بھارت بھی اس سے تعلقات
معمول پر لانے کی غرض سے آگے بڑھ کر اقدامات کرے گا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے
کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ بھارت خود ہی نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت
اور دہشت گردی اپنی فورسز کے ذریعے کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت ممبئی
حملوں کو بہانہ بنا کر تعلقات نہ بہتر کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہا ہے۔ اصل
وجہ یہ ہے کہ بھارت اپنے بھیانک چہرے کو چھپانے کے لئے اور دنیا کی توجہ
اپنے داخلی مسائل سے ہٹانے کے لئے اکثر و بیشتر اس قسم کی بے بنیاد باتیں
کرتا رہتا ہے۔ دراصل بھارت کسی بھی قسم کے مذاکرات سے بھاگنے کی اپنی سابقہ
پالیسی پر ہی گامزن ہے۔ حالانکہ ہم بھی سمجھوتہ ایکسپریس کے معاملے کو
اٹھانے میں حق بجانب ہونگے مگر ہم بھارت کے اس سنگین ظلم پر بھی خاموش ہی
ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے من موہن سنگھ کے بیان پر
اپنی حکومت کا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے
سیکریٹری خارجہ کی ملاقات سے قبل بھارتی وزیر اعظم کا( مذکورہ ) بیان
افسوسناک اور بے بنیاد ہے۔ گزشتہ روز فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کے اجلاس
میں تمام رہنماﺅں نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو سراہا ہے۔ مگر
صرف بھارت ہے جسکو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششیں نظر ہی نہیں آ رہی
ہیں اور وہ مسلسل پاکستان پر الزام تراشیوں پر اترا ہوا ہے۔
بھارت پاکستان تعلقات کے ضمن میں وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایک پریس کانفرنس
میں کہا ہے کہ بھارت ممبئی حملوں کے سلسلے میں حافظ سعید کے خلاف کوئی ٹھوس
ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے۔ بھارت نے جو معلومات فراہم کی ہیں ہم اس کے
مطابق ہی تحقیقات کر رہے ہیں۔ مگر اس معاملے میں پاکستان کسی سے ڈکٹیشن
نہیں لے گا۔ ہم کوئی بھی کاروائی پاکستانی قوانین کے مطابق کریں گے۔ اس میں
بھارت کا ہمارے لئے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ حافظ سعید کے بارے میں اگر
کوئی بات ثابت ہوئی تو ہم قانون کے مطابق کاروائی ضرور کریں گے۔ دوسری شکل
میں انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ پاکستان بھارت سمیت کسی کے دباﺅ میں نہیں آئے
گا۔ ہمیں کسی سے ڈکٹیشن لینے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے فیصلے خود
کرتے ہیں۔ بھارت پاکستان پر جھوٹے الزام لگانا بند کر دے۔ بڑی معذرت کے
ساتھ رحمان ملک وزیر داخلہ کا یہ بیان تو بہت طاقتور لگتا ہے مگر کہیں یہ
بیان بھی بیک چینل ڈپلومیسی کا تو حصہ نہیں؟ کہ اس سے پہلے کبھی اتنا
جاندار بیان ملک صاحب کی طرف سے بھارت کے خلاف آیا نہیں ہے!
بہر حال وزرائے خارجہ کی ملاقات میں بھی رسمی گفت و شنید کے علاوہ کچھ بھی
تو مثبت انداز میں سامنے نہ آیا۔ ہر معاملے میں ہم مسلسل بھارت کی خوشامدیں
کرتے رہے ہیں مگر بھارتی حکمران ہیں کہ ان کے نخرے ہی نہیں لئے جاتے ہیں۔
لگتا یوں ہے کہ بیک چینل ڈپلومیسی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ ہاتھی کے دانت
دکھانے کے اور، اور کھانے کے صاف نظر آرہے ہیں۔ ہم کس کس کی غلامی کریں گے؟
کہیں امریکہ ہے، کہیں سعودی عرب ہے تو کہیں بھارت ہے۔ بھارت کبھی ہمارا
دوست تو رہا ہی نہیں ہے۔ تو پھر ہم اس قدر اس کی خوشامدوں میں کیوں مصروف
ہیں۔ بھارت تو مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ ملکر بھی ہمارے مفادات کو ضرب
لگانے کی جدوجہد میں سب سے آگے دیکھا گیا ہے۔ تو ہمارے حکمران کیسے اسے
اپنا دوست اور من کا میت ازیوم کر رہے ہیں۔ یہ بھی اسرائیل اور امریکہ سے
بڑھ کر ہمارے ایٹمی اثاثوں کا دشمن نمبر ون ہے جس سے ہمیں ہمیشہ ہوشیار
رہنے کی شدید ضرورت ہے۔ بھارت کبھی بھی ہمیں ریلیف دینے پر آمادہ نہ ہوگا۔
یہ کہیں ہمیں پانی کی مار مار رہا ہے تو کہیں دہشت گردی میں ملوث کر رہا ہے
۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ اس کے مطالبات میں شدت پیدا ہو رہی ہے اور
ہمارے حکمرانوں کے خوف اور وسوسوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ |