محفوظ راستے پر روانگی

خیر سے صدر مملکت نے اپنی صدارتی عمر عزیز کا ایک سال مکمل کر لیا ہے۔ اس ایک سال کے دوران کیا کچھ تہمتیں ان کے خلاف سامنے نہ آئیں مگر مجال ہے صدرِ مملکت کے پایہ استقلال میں فرق آیا ہو۔ وہ ہی طریقی وہی چال ڈھال وہی دورے اور وہی عوام اور ان کے معاملات سے لا پرواہی۔ صدارت سلامت تو دوروں کا دور چلتا رہے گا، ہے کسی مائی کے لال میں ہمت ہے کہ روک سکے؟ صدر مملکت کا اپنا طریقہ ہے کہ وہ پر اپنے طریقے سے چل رہے ہیں عوام کی روٹی کپڑے اور مکان کی باتیں خواب و خیال کی باتیںلگتی ہیں ۔ جن کا حقائق سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ خوشامدی سب ٹھیک کی لے لگائے ہوئے ہیں۔ درد مند شہر کے اندیشوں میں دبلے ہوئے جاتے ہیں کہ کیسے عوام کی سوچ حکمرانوں میں پیدا کریں کہ انہیں اپنے اللے تللوں سے فرصت ہی کہاں؟ افطار ڈنر کے نام پر شاہی دسترخوان ان غریب لوگوں کے پیسے پر سجائے جارہے ہیں جو گندم کے ایک ایک دانے کے لیے اپنی 18,18 جانوں کی بھی پروا نہیں کرتے ہیں۔ ہر جانب بحران ہی بحران کی کیفیت ہے۔ کہیں سیاسی شعبدے بازی ہے تو کہیں جھوٹے نعرے ہیں۔ ہر نئی آنیوالی روح کہہ رہی ہے، اے خدا یہ تو مجھے کونسی محفل میں لے آیا ہے؟

جب شاہی دعوتوں کا ذکر چلا ہے تو صدر مملکت کی دعوت افطار کا بھی ذکر ہو ہی جائے۔ صدر زرداری نے ایوانِ صدر میں پیر 13 ستمبر 2009 کو سینئر صحافیوں اور میڈیا اینکرز کے کو ایوان صدر میں ایک شاہانہ افطار ڈنر پر مدعو کیا۔ جس میں بہت سے بڑے صحافی اور میڈیا اینکرز موجود تھے۔ صدر زرداری نے میڈیا پرسنز سے بے تکلفانہ گفتگو کے دوران فرمایا کہ صدر پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے لئے مذاکرات میں میں شامل رہا ہوں۔ جسمیں مقامی اور عالمی ضامن بھی تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو محفوظ راستہ دیئے جانے کے وقت فریقین کے درمیان بعض معاملات طے کیئے گئے تھے اور مجھ سے بھی پوچھا گیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ مجھے امید ہے کہ پرویز مشرف گولف کھیلیں گے۔ صدر مملکت نے کرپشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کرپشن کی کہانی سیاست دانوں کو بدنام کرنے کا حصہ ہے۔ ایسے انکشافات کرنے والوں کو مفاہمتی کمیشن کے سامنے لایا جائے گا۔ سچائی اور مفاہمتی کمیشن کے لئے میں وزیراعظم سے جلد ہی سفارش کرونگا۔ جس کی سر براہ عاصمہ جہانگیر کو ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مائنس ون فارمولہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ (اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ) صدر کے فرمان کے مطابق بھٹو خاندان کے قتل میں جمہوریت دشمن قوتیں ملوث ہیں! صدر مملکت نے یہ بھی کہا کہ ” ہم افراد کے نہیں سوچ کے دشمن ہیں “ یہی وجہ ہے کہ صدرِ مملکت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پرویز مشرف جیسے فرد کے خلاف کسی قسم کا بھی کوئی اقدام کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ وہ ایسا پارلیمنٹ کو کرنے کی اجازت دیں گے۔ جس کی وجہ سے ان کی طرف سے مشرف کو محفوظ راستہ دے دیا گیا۔ ان کی مملکت پاکستان سے رخصتی کسی سے ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں۔ ڈھکی چھپی اس وجہ سے بھی نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ این آر او کے بھی تو خالق ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ صدرِ مملکت کو ہی ہوا تھا۔ سمجھ دار لوگوں کا خیال ہے کہ یہ طریقہ حکمرانی جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں پر جچتا نہیں ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ آج تو حکومتی ایوانوں میں ہر چیز ہی بے جوڑ نظر آتی ہے۔ جمہوریت کے نعرے پر آمریت کی باقیات ہی مقتدر نظر آرہی ہے۔ لگتا یوں ہے وزیر اعظم کو بھی سترہویں ترمیم نے باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کے معاملے پر وہ بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ doable نہیں ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اگر مشرف کو سزا دی بھی گئی تو معاف کرنے کا اختیار تو صدر کے پاس ہے۔ جناب وزیر اعظم کی یہ باتیں اندر کی گھٹن کی غمازی کر رہی ہیں۔ کیونکہ جمہوری ذہن رکھنے والا وزیر اعظم جب غیر جمہوری باتیں کرنے لگے تو اس کی باتیں اُس کے اندر کی چغلی کھا رہی ہوتی ہیں۔ پارٹی پریشر کے سامنے اسکی جمہوریت پسندی کی بھی ایک نہیں چلتی ہے۔

قائد حزبِ اختلاف چوہری نثار علی خان نے صدر مملکت کے افطار ڈنر میں دیئے گئے بیان پر سخت تحفظات اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صدر زرداری پرویز مشرف سے متعلق ڈیل کے تمام پہلو قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں۔انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ اپوزیشن اس معاملے پر پارلیمنٹ میں قرار داد پیش کرے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ صدر بتائیں کہ ان کا آنا اور مشرف کا جانا کس ڈیل کا نتیجہ ہے؟ پارلیمنٹ کو کیوں بےوقوف بنایا جا رہا ہے؟ وہ کونسی عالمی قوتیں اور فریقین تھے جو ڈیل میں شامل تھے؟ کس آئین کے تحت ان کے ساتھ مفاہمت ہوئی اور قومی مجرم کو کس کے کہنے پر محفوظ راستہ دیا گیا؟ چوہدرری نثار نے یہ بھی کہا کہ نواز لیگ مشرف کے ٹرائل سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹے گی۔ سابق صدر مشرف کا ٹرائل ضرور ہوگا۔ اس کے لئے سعودی حکومت ہمیں مجبور نہیں کرسکتی ہے۔ انہوں نے صدر کے مذکورہ بیان پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدر کا بیان حیرت انگیز ہی نہیں ہماری آزادی اور خود مختاری کے حوالے سے المناک بھی ہے۔ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں کہ جہاں منتخب صدر یہ کہیں کہ حکومت کی تبدیلی بین الاقوامی فریقین کے ذریعے ان کی موجودگی میں ان کے ضامن بننے کے بعد عمل میں آئی۔ یہ ہوش ربا انکشاف ہے! ہم صدر زرداری اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کو یہ بات بتائی جائے کہ کابینہ پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو اندھیرے میں رکھ کر ایک قومی مجرم کو کس کے کہنے پر محفوظ راستے کی ضمانت دی گئی؟ انکا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ گھناﺅنا کھیل کھیلا جا رہا تھا اور ڈیل ہورہی تھی اس وقت آصف علی زرداری بھی صدر نہ تھے۔ اس ڈیل سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ مشرف کا جانا اور ان کا آنا ڈیل ہی کا حصہ تھا۔

اس حوالے سے وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا یہ ہے کہ بعض دوست ممالک نے پاکستان میں جمہوریت کی راہ ہموار کی تھی جسے ڈیل ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ دوستوں کے ذریعے ہی پرویز مشرف کے ساتھ انتقالِ اقتدار کی بات کی گئی تھی۔ ایک جانب انکشافات در انکشافات ہو رہے ہیں اور خود حکومتی اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے کئے جا رہے ہیں۔ دوسر جانب اچانک حکومتی ارکان خواب خرگوش سے بیدار ہو کر پلٹا کھانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔

گو کہ حکومتی ترجمان فرحت اﷲ بابر نے 48 گھنٹوں کے بعد صدر کے مذکورہ بیان کی تردید کسی بڑے سیاسی ہنگامے سے بچنے کے لئے کرچکے ہیں۔ جس پر افطار ڈنر میں شریک سینئر صحافی دانتوں میں انگلیاں دے رہے ہیں۔ عجب بلی چوہے کا کھیل چل رہا ہے۔ معتبر لوگوں کے سامنے کئے گئے انکشافات کے بعد تردید کیا معنی؟ میڈیا تو ایسا چغل خور ہے کہ کسی کی کوئی بات یہ آسانی سے ہضم کر ہی نہیں سکتا ہے اور پھر صدر مملکت کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ تو کوئی چھپانا بھی چاہے گا تو اس کے لئے بہت مشکل ہوگی کیونکہ یہ مقابلے کا دور ہے اور کوئی مقابلے میں پیچھے تو رہنا چاہتا ہی نہیں ہے۔ دوسری جانب صدر زرداری کے ایک معتبر ساتھی مرکزی وزیر کے بیان نے صدر مملکت کے بیان میں اور جان ڈال دی۔ بہر حال اس قسم کے بیانات کے لئے یوں کہا جاسکتا ہے کہ رات گئی بات گئی اب اس کا ذکر نہ کرو

عوام پہلے ہی حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے مسائل کے ضمن میں حکومتی ہر بیان نہ قابل یقین ہوتا جارہا ہے۔ وہ چاہے بجلی، آٹے اور چینی کا بحران ہو پرویز مشرف کے لئے محفوظ راستہ ہو یا ڈرون حملے۔ ہر معاملے میں حکومت کی سچائی صبح صادق کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ہر بات کہنے سے پہلے حکومتی ارکان کو بھی یہ سوچ لینا چاہئے کہ یہ doable ہے بھی یا نہیں۔
Prof.Dr.Shabbir Ahmed Khurshid
About the Author: Prof.Dr.Shabbir Ahmed Khurshid Read More Articles by Prof.Dr.Shabbir Ahmed Khurshid: 285 Articles with 213094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.