مہد سے لحد تک تحفظ ناموس رسالت اور احیائے اسلام کی جدوجہد

علامہ شاہ احمد نورانی کی چھٹی برسی کے حوالے سے خصوصی تحریر

علامہ شاہ احمد نورانی پاکستان میں اصولی سیاست کے علمبردار تھے، آپ نے کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی بھی چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی کوشش نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ آپ کے شدید ترین مخالف بھی آپ کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں، تحریک پاکستان ہو یا تحریک ختم نبوت تحریک نظام مصطفیٰ ہو یا تحریک بحالی جمہوریت یا آئینی و پارلیمانی بالادستی کی تحریک علامہ شاہ احمد نورانی جدو جہد کے کسی مرحلے میں کبھی پیچھے نہیں رہے، جب بھی قوم کو ضرورت ہوئی آپ کو ہمیشہ صف اول میں موجود پایا، آپ نے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا، کئی بار اصولوں کی خاطر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا لیکن پیچھے ہٹنا گوراہ نہیں کیا، زندگی بھر علامہ شاہ احمد نورانی کے پیش نظر ہمیشہ عالم اسلام کا مجموعی مفاد ملک میں نظام مصطفیٰ کا نفاذ مقام مصطفیٰ کا تحفظ اور وطن عزیز پاکستان کا استحکام و سالمیت رہی، اس مقصد کے حصول کیلئے آپ نے مختلف مکاتب فکر کے علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، لیکن اس اتحاد کے باوجود آپ نے کبھی بھی اپنے عقائد و نظریات کا سودا نہیں کیا، آپ فرماتے تھے دیگر مکتبہ فکر سے ”ہمارے اشتراک عمل کی وجہ لادینی عناصر، پاکستان کے بد ترین دشمنوں بھارت امریکہ برطانیہ اور صہیونی و یہودی اور پاکستان کے اندرونی دشمن قادیانیوں کے خلاف دینی قوتوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم تھا، جب ہم متحد ہوئے اور ہم نے دباؤ ڈالا تو مضبوط ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ہماری بات ماننا پڑی“(انٹرویو سنڈے میگزین روز نامہ جنگ 3مارچ2002)

علامہ شاہ احمد نورانی ایک سچے عاشق رسول اور صحیح العقیدہ مسلمان تھے، آپ کی ذات اور عظمت و کردار کا اعتراف آپ کے بڑے بڑے مخالفین عقائد و نظریات کا ہزار ہا اختلاف رکھنے کے باوجود کرتے تھے اور آپ کو قائد ملت اسلامیہ قرار دے کر آپ کی قیادت کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے، ممتاز اہل تشیع رہنما جناب علی غضنفر کراروی علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ قرار دیتے جبکہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کہتے ہیں کہ ”علامہ شاہ احمد نورانی ایک سچے عاشق رسول تھے، آپ کا ہر فعل و عمل سنت رسول کے مطابق ہوتا تھا، آپ اپنے وقت کے سب سے بڑے اور سب سے سچے عاشق رسول تھے“ ایک سچے عاشق رسول کی زندگی کا ہر پل اور ہر لمحہ اپنے محبوب کی اتباع اور پیروی میں گزرتا ہے، اسی وجہ سے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی زندگی کا زیادہ تر حصہ پاکستان اور بالخصوص دنیا بھر میں احیاء اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کی جدوجہد سے عبارت ہے، آپ مملکت پاکستان میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے داعی تھے اور آخری دم تک آپ اسلام کی سربلندی اورمقام مصطفیٰ کے تحفظ کی کوششوں میں مصروف عمل رہے۔

یہ حقیقت ہے کہ علامہ شاہ احمد نورانی نے 1977ء میں بھٹو حکومت کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک کو اپنے حسن تدبر اور فہم و فراست سے تحریک نظام مصطفیٰ میں تبدیل کردیا، تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک پاکستان کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی اور کامیاب ترین تحریک تھی، یہ تحریک پاکستان کو اپنی حقیقی منزل نفاذ نظام مصطفیٰ تک پہنچانے ہی والی تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے بیرونی طاقتوں کے اشارے پر اقتدار پر قبضہ کر کے پاکستان کو اس عظیم تحریک کے ثمرات سے محروم کردیا،1977ء کے مارشل لاء کے دوان جب جنرل ضیاء الحق نے ملک کا آئین معطل کیا تو اسلامی دفعات کی معطلی کی وجہ سے قادیانیوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا، اس صورتحال میں علامہ شاہ احمد نورانی نے آئین میں اسلامی دفعات کی معطلی پر شدید احتجاج کیا اور فوجی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر قادیانیوں کی سرگرمیوں کا نوٹس لے اور آئین کی تمام اسلامی دفعات کو فوری طور پر بحال کرے چنانچہ آپ کے بھر پور احتجاج پر حکومت کو آئین کی اسلامی دفعات کو بحال کرنا پڑیں اور امتناع قادیانیت آرڈیننس بھی جاری کرنا پڑا۔

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے جب سیشن کورٹ سے سزائے موت پانے والے دو عیسائی شاتم رسول کی سزا پر دکھ کا اظہار کیا اور انہیں رہا کرا کر رات و رات ملک سے باہر بھیج دیا تو علامہ شاہ احمد نورانی نے ان کے اس اقدام کو ملک دشمنی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ” دو عیسائی گستاخان رسول کو عزت و احترام سے بری کروا کر تحفے تحائف دے کر بیرون ملک بھیج کر محترمہ بے نظیر نے پاکستان میں گستاخی رسول کا راستہ کھول دیا ہے، محترمہ نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخوں کو چھوٹ دے دی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی عزت و حرمت اور بزرگی کے معاملے میں بہت غیرت مند ہے، گستاخان رسول کو تحفظ دینے والی حکومت برقرار نہیں رہ سکتی، میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ یہ حکومت بہت جلد ختم ہوکر رہے گی“(انجمن نوجوانان اسلام کے ملتان کنونشن سے خطاب) علامہ شاہ احمد نورانی کا یہ ارشاد اس وقت سچ ثابت ہوگیا جب محترمہ کی اپنی جماعت سے منتخب ہونے والے صدر مملکت فاروق احمد خان لغاری نے آئین کی دفعہ اٹھاون ٹو بی کا سہارا لے کر اپنی ہی جماعت کی حکومت کو برطرف کر کے ایوان سے باہر پھینک دیا، 1995ء میں جب بے نظیر حکومت نے اپنے یہودی و سامراجی آقاؤں کی ایماء پر قانون توہین رسالت میں ترمیم کرنا چاہی تو علامہ شاہ احمد نورانی کی اپیل پر حکومت کے اس اقدام کے خلاف27مئی 1995ء کو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال ہوئی، اس تاریخی ہڑتال نے ملک میں تحریک نظام مصطفیٰ کی یاد تازہ کردی اور حکومت کو اپنے بڑھتے ہوئے قدم روکنا پڑے، اس موقع پر آپ نے تمام علماءاور آئمہ مساجد کے نام ایک خط بھی جاری کیا جس میں آپ نے اُن کو اُن کے فرائض منصبی یاد دلائے۔

علامہ شاہ احمد نورانی کی ہی کوششوں کی بدولت نواز شریف دور میں گستاخ رسول کی سزائے موت کا قانون قومی اسمبلی سے منظور ہوا، پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے انگلینڈ کے لارڈ پادری نے جب قانون توہین رسالت کی سزائے موت کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا تو علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے فرمایا کہ ” تقریباً پانچ چھ سال کی جدوجہد کے بعد 1990ء کی پارلیمنٹ سے پاس ہوا ہے اور اس قانون کی رو سے کوئی بھی شخص خواہ وہ مسلمان ہو یا عیسائی اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اگر اس نے کسی بھی نبی کی بے حرمتی کی تو اس کیلئے سزائے موت ہے، مجھے اس بیان پر بڑی حیرت ہے کہ ایک عیسائی ایسا مطالبہ کررہا ہے بلکہ اس کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک مسلمان ملک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزت و حرمت کو اس طرح تحفظ دیا گیا ہے کہ عیسائی بھی اتنا تحفظ نہیں کرسکے، اس قانون سے جہاں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ کا تحفظ کیا گیا ہے وہاں دیگر انبیاء و مرسلین کی عزت و حرمت کا تحفظ بھی کیا گیا ہے، اگر اس قانون کو ختم کیا گیا یا اس کی سزا میں کمی کی گئی تو اس سے گستاخان رسول کو شان رسالت میں گستاخی کا موقع مل جائے گا، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی نہیں کرتے ہیں، دراصل وہ اس قانون کی منسوخی کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا جواز پیدا کرنا چاہتے ہیں، ہم مسلمان آرچ بشپ کے اس مطالبے کی مذمت کرتے ہیں اگر حکومت عیسائیوں کے ہاتھ میں کھیلی اور اس قانون میں کسی قسم کی ترمیم کی تو خود مسلمان دین اور مذہب کے مطابق اس سزا کو نافذ کردیں گے،(ماہنامہ پیام حرم ، اپریل 2006)

12اکتوبر1999ء کو جب جنرل پرویز مشرف نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی تو انہوں نے پاکستان کے آئین کو معطل کردیا اور اپنا ایک آئینی پی سی او آرڈر جاری کیا، جس میں اسلامی دفعات شامل نہیں تھیں، علامہ شاہ احمد نورانی نے اس موقع پر بھی حکومت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور فوجی آمروں کے خلاف اپنی جمہوری جدوجہد کی تاریخ برقرار رکھی، آپ نے شدید احتجاج کرتے ہوئے آئین کی مکمل بحالی، ایل ایف او کی غیر آئینی حیثیت اور وردی کی مخالفت میں اپنی آواز کو کبھی نیچے نہیں ہونے دیا، آپ نے تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے انہیں اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا، آپ نے تحریک فدایان ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے ہر ضلع میں کانفرنس کرنے کا اعلان کیا، آپ نے فرمایا کہ دینی جماعتیں، محب وطن عوام اور عاشقان رسول ناموس مصطفیٰ پر حکومت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے، تل ابیب قادیانیوں کا ہیڈ کوارٹر ہے، جس کا ناقابل تردید ثبوت میں قومی اسمبلی میں1974ء میں پیش کرچکا ہوں، جس کا کوئی جواب اس وقت مرزا ناصر بھی نہیں دے سکا تھا، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ ایوان بالا اور زیریں نے متفقہ طور پر طویل بحث کے بعد دیا تھا، اب کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس میں کوئی تبدیلی کرسکے“ آپ نے تحفظ ناموس رسالت کیلئے 19مئی 2000ء کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا جو انتہائی کامیاب رہی اور پورے ملک میں فدایان ختم نبوت نے اس ہڑتال میں حصہ لے کر حکومت کے اس اقدام کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، اسی سلسلے میں آپ نے 27مئی 2000 کو نشتر پارک کراچی میں ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا اور اہل وطن کے نام ایک کھلا خط بھی جاری کیا، جس میں آپ نے اہل وطن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ”فدایان ختم نبوت دستور کسی ملک کی اساس ہوتا ہے، یہ قومی یکجہتی ملکی سالمیت ملی وحدت اور جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے، یہ کسی قوم کی یکجہتی و سالمیت کی مقدس دستاویز ہوتی ہے، یہ پوری قوم کا میثاق اور پیمان وفا ہوتا ہے، پاکستان کی دستوری تاریخ نہایت تلخ ہے۔۔۔۔۔۔۔1973ء میں جمہوری طریقہ پر منتخب اسمبلی نے ایک جامع متفقہ پارلیمانی جمہوریت پر مشتمل دستور دیا، اس منزل کو پانے میں قوم آدھے سے زیادہ ملک گنوا چکی تھی،

اس دستور پر قوم کے تمام منتخب ارکان پارلیمنٹ کے تائیدی و توثیقی دستخط ثبت تھے اور آج تک تمام تر دستوری تعطل دستور سے انحراف اور عارضی طور پر دستور کو ایک جانب رکھ دینے کے افسوس ناک اقدامات کے باوجود آج بھی ملک کی وحدت، بقا،سلامتی اور بحیثیت ایک قوم اور ملک مل جل کر رہنے کی واحد آئینی و قانونی اساس یہی دستور ہے، خدانخواستہ اسے چھیڑا گیا اس کے حقیقی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا گیا، اس میں من مانی ترامیم کر کے اس کی روح کو مسخ کردیا گیا، اس دینی ملی قومی اور ملکی اساس کو پامال کردیا گیا، تو پھر خاکم بدہن شاید ہم ملکی وحدت و سالمیت اور قومی یکجہتی کا آخری موقع بھی گنوا بیٹھیں گے، لہٰذا ہم متنبہ کرنا اپنا دینی و ملی فریضہ سمجھتے ہیں کہ آئین کی مسلمہ اسلامی، دفعات کو معطل رکھنے کے بجائے ہمہ وقت نافذ العمل اور ناقابل تنسیخ قرار دے کر پی سی او کا لازمی حصہ بنایا جائے، ابھی تک ہم ناصح و مشفق کا رول ادا کر رہے ہیں ہم نے نرم سے نرم الفاظ میں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی آواز اہل اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، تاکہ مسلح افواج کا احترام بحیثیت ادارہ قائم رہے، ان کا وقار مجروح نہ ہو، آگے چل کر آپ نے حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور شمع رسالت کے پروانوں کا تقابل حریصان اقتدار اور محرومین اقتدار سے ساتھ نہ کرے، وہ داد عیش پانے کیلئے جیتے ہیں اور یہ خاتم النبیین رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموس پر مرمٹنے کی خواہش میں زندہ ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ عوام اور افواج آمنے سامنے ہوں، بلکہ ہماری تمنا ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ اور وطن کی بقاء و سالمیت اور دفاع کیلئے عوام اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، ہم چیف ایگزیکٹو سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غیر ملکی امداد سے پنپنے والی اور اپنے بیرونی آقاؤں کے مفادات کا پرچار کرنے والی این جی اوز پر اعتماد کرنے اور ان کو اپنا سیاسی اتالیق بنانے کے بجائے ان حساس دینی، ملی اور قومی مسائل میں رہنمائی حاصل کرنے اور پورے ملک کو فکری انتشار میں مبتلا کرنے اور مسلح افواج کی نظریاتی کمٹمنٹ کو موضوع بحث بنانے کے بجائے محب وطن جماعتوں سے رابطہ کریں، اور ان کا مؤقف سنیں۔“

27مئی 2000ء کو نشتر پارک کراچی میں آپ کی اپیل پر فدایان ختم نبوت کا عظیم الشان جلسہ عام ہوا، علامہ شاہ احمد نورانی نے اس جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا،”جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں دستور کی معطلی کے بعد قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ہونے کا پروپیگنڈہ کر کے ہمارے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں، ہم عقیدہ ختم نبوت کیلئے سر کٹا سکتے ہیں، لیکن کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے، جس طرح فوج اپنا جعلی سربراہ برداشت نہیں کرسکتی اسی طرح مسلمان قوم جعلی نبی کبھی برداشت نہیں کرسکتی،“ چنانچہ حکومت نے مذہبی امور کے وزیر عبدالمالک کانسی کو آپ کے پاس بھیجا، آپ نے اس ملاقات میں وزیر موصوف پر واضح فرماد یا کہ ناموس رسالت کا قانون زمین سے نہیں بلکہ آسمان سے اتارا گیا اس میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کی جائے گی، چنانچہ حکومت نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایک آرڈیننس جسے پی سی او کا حصہ بنایا گیا جاری کیا، اس آرڈیننس میں آئین کی تمام اسلامی دفعات کو شامل کرلیا گیا، اس طرح علامہ شاہ احمد نورانی نے ایک مرتبہ پھر حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ ان اسلامی آئینی دفعات کو کبھی بھی معطل اور تبدیل نہیں کر سکتی جن کا تعلق اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے، ”اپریل2001ء میں علامہ شاہ احمد نورانی نے جنرل پرویز مشرف سے ایک ملاقات میں پاکستان ٹی وی سے پیش کئے جانے والے کلچر پر شدید تنقید کی اور انہیں کہا کہ پاکستان ٹی وی ثقافت کے نام پر کثافت پھیلا رہا ہے، آپ نے اس ملاقات میں جنرل پرویز مشرف کو قادیانیوں کے بارے میں حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں پاک فوج سے نکالنے مطالبہ کیا، آپ نے جنرل صاحب سے کہا کہ ” قادیانی اسلام اور پاکستان کے کھلے دشمن ہیں، جہاد کے منکر ہیں، ایسے منکرین جہاد کی پاک فوج میں موجودگی اسلامی نقطہ نظر سے جائز نہیں، کیونکہ پاک فوج کا نعرہ جہاد فی سبیل اللہ کرنا ہے، اسلیے پاک فوج کو قادیانیوں کے وجود سے پاک کیا جائے، “(انٹرویو حامد میر روزنامہ اوصاف اسلام آباد 7اپریل 2001)

3 ،مارچ2003ء کو حمید نظامی ہال نوائے وقت لاہور میں لیکچر دیتے ہوئے علامہ شاہ احمد نورانی نے فرمایا کہ”1973ء کا دستور متفقہ دستور ہے، اس میں پہلی مرتبہ ملک کا سرکاری مذہب اسلام قرار دیا گیا، یعنی حکومت کہے گی کہ وہ مسلمان ہے، اس طرح اگر اسلام پر کوئی مشکل آئے گی تو اسلام کا دفاع کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہوگی، مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج دستور پر عمل نہیں ہو رہا ہے، تاہم ہمیں جدو جہد کرنی چاہیے کہ مستقبل میں آئین پر عمل درآمد ہو، آپ نے کہا کہ 1973ء کا آئین مولویوں نے سوشلسٹوں سے بنوایا، انہوں نے کہا کہ امریکی کانگریس کے نہ جانے پیٹ میں کیا درد ہوا ہے کہ اس نے قادیانیوں کو مسلمان قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے، حالانکہ اگر قادیانی توبہ کر کے اسلام قبول کرلیں تو ہمارے دروازے کھلے ہیں، قادیانی کوئی دستوری نہیں ایک مذہبی مسئلہ ہے اور مسلم اُمّہ نے سو سال کی جدوجہد کے بعد ان کو غیر مسلم قرار دلوایا ہے، امریکی کانگریس کو کیا حق ہے کہ وہ پاکستان سے مطالبہ کرے کہ تحفظ ناموس رسالت کے قوانین میں ترمیم کی جائے، قادیانیوں کو مسلمان قرار دیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ امریکی دراصل ہمارا معاشرہ اور ہماری قومیت بدلنا چاہتے ہیں، لیکن جس ملک کا بچہ بچہ غازی علم دین شہید بننے کیلئے تیار ہو، وہاں ایسا کرنا ناممکنات میں سے ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت جو ترامیم تیار کررہی ہے، وہ غلط ہیں اور کسی فرد واحد کو آئین میں ترمیم کا حق نہیں دیا جاسکتا۔“

عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد سے لے کر11،دسمبر 2003ء کو اپنے وصال تک علامہ شاہ احمد نورانی کی زندگی نظام مصطفیٰ کے نفاذ اور مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کی جدوجہد میں مصروف رہی، آپ کی دینی و مذہبی اور قومی و بین الاقوامی خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کیلئے کئی کتابیں درکار ہیں، ہم یہاں صرف ممتاز صحافی جناب نادر شاہ عادل کا ایک مختصر تبصرہ درج کررہے ہیں ”ان کی جمہوریت اور اسلام سے روحانی اور لازوال کمٹمنٹ کا آخری منظر اور دستاویزی ثبوت یہ تھا کہ موت ان کے در دل پر دستک دے رہی تھی اور مولانا جمہوریت کی بحالی اور اسلام کی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے اور وہ بھی تاج و تخت و حکومت و دربار سے، مولانا نورانی اپنی زندگی اور اصولی جدوجہد سے ہمیں یہ پیغام دے گئے کہ

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیر ا نہیں اجالا ہے“

علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود، عالم اسلام کی یکجہتی اور کفار پر اسلام کے غلبہ و سربلندی کیلئے گزارا، جناب شاکر حسین خان (ریسرچ اسکالر علوم اسلامی جامعہ کراچی) لکھتے ہیں کہ ” بے شک علامہ شاہ احمد نورانی عصر حاضر میں عاشقان مصطفیٰ کے سردار ہیں، آپ نے مقام مصطفیٰ کے تحفظ کیلئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں، آپ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے مؤقف پر ڈتے رہے، اللہ تعالیٰ جس سے کام لینا چاہے لے لیتا ہے اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چنا آپ نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا، جس کی بدولت آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔“گو کہ آج علامہ نورانی کی ذات ہم میں نہیں لیکن اس عاشق رسول کی کی یاد اس بات کا ثبوت ہے کہ جسم فانی ہے اور فنا ہوجانے والی چیزوں سے خوفزدہ ہونے والے خود بھی فنا ہوجاتے ہیں، بقائے دوام صرف ان ہی کے حصے میں آتی ہے جن کی زندگی کا مقصد غلبہ دین احیائے اسلام اور اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی کا حصول ہوتا ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 317421 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More