ایک دو مقامات پر آرمی چیف اور
وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایک ساتھ موجود پایا تو میں سمجھا کہ معاملات
درست کر لیے گے ہیں۔ حالات خطرے سے باہر ہیں۔اور گھبرانے کی کوئی ضرورت
نہیں۔ ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی آواز سننے کے لیے بے چین دلوں کو قرار آ
گیا ہوگا۔مگر اندر کی خبروں تک رسائی رکھنے کے دعوے دار تجزیہ نگار تو میرا
’’تراء‘‘ نکال دیتے ہیں۔انکا کا کہنا ہے بلکہ دعوی ہے کہ معاملات میں
سلجھاؤ نہیں آیا بلکہ اداروں کے مابین تعلاقات میں الجھاؤ مذید گہرا ہوتا
جا رہا ہے۔ اپنے دیس کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو دیکھتے ہوئے مجھے شعر یاد آ
رہا ہے کہ’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ بھلا کون اپنے دشمن کے ساتھ
ایک میز پر بیٹھ کر اس کے نخرے برداشت کرتا ہے؟دشمن بھی وہ جو اخلاقیات کی
سب حدیں عبور کر چکا ہے،جس کے ہاتھ،چہرے اور تن بدن ہمارے بیٹے بیٹیوں
،جوانوں ،بوڑھوں اور خواتین سمیت سب کے لہو سے رنگین ہیں۔ اپنے (دشمن اس سے
میری مراد ’’ پاکستان کے وجود سے‘‘ دشمن طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ
کرنا……یہ آخری چارہ کار تھا ۔
خیر پاکستان نے اپنے وجود کو تسلیم کرنے کی واحد شرط پر انکی سب شرائط اور
مطالبات ماننے کو رضامندی طاہر کردی تھی مگر اسکا دشمن ہی کم ظرف ثابت ہوا
ہے۔پاکستان نے تو اخلاقیات، رواداری اور حب الوطنی کے تمام تقاضے پورے کیا
ہیں ۔لیکن دشمن ہمارے ازلی دشمن کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ اسلیے
وہ دلی طور پر ’’ مذاکرات‘‘ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا……ہمارے اس نئے
دشمن(طالبان ) کا سکرپٹ کوئی اور لکھتا ہے۔ خیر اب تو انکے لیے اپنے دلوں و
دماغ میں سوفٹ کارنر رکھنے والی حکومت جو در اصل طالبان کی بدولت ہی اسلام
آباد پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ
’’اچھا طالبان دوستو تمہارا اﷲ ہی حافظ ہے‘‘
اطلاعات سے تو یہیں ثابت ہو رہا ہے کہ مذاکرات عملا ڈیڈ لاک کا شکار ہو چکے
ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی کچھ کہتا رہے۔اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے انکار
پر بضد ہو لیکن حقیقت یہی ہے جو میں نے بیان کردی ہے۔ اب چاہے چودہری نثار
علی خاں یا انکے سمدھی رانا تنویر سمیت دیگر ’’ بچے جمہورے ‘‘ غصہ پیپلز
پارٹی پر نکالتے پھریں۔ لیکن اس طرح وہ اصل حقیقت عوام سے چھپانے میں ناکام
رہیں گے۔حکومت اس وقت بیک وقت کئی محاذوں پر مصروف عمل ہے۔ جنگ گروپ کی
حمایت میں متعدد وزرا کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے وزیر اعظم کے لیے مشکلات
پیدا کر دیں ہیں۔ لیکن میں یہ سارا الزام وزرا کے سر نہیں تھوپتا۔اس میں
وزیر اعطم صاحب کا اپنا بھی قصور ہے ۔انہوں نے جنگ گروپ اور آئی ایس آئی کے
حوالے سے خاموشی اختیار کرکے جس غفلت کا مثاہرہ کیا ہے یہ ’’مصیبت ‘‘ اسی
خاموشی کا کیا دھرا ہے۔
میں سمجھتا ہوں وزیر داخلہ نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے جو تصویر کشی
کی ہے ۔وزیر اعظم اور حکومت کو اس سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے
اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تو اپنی ذمہ دارایاں ادا کر دی ہیں ۔بات رہی ہے
۔تو فریق ثانی یعنی طالبان کی جانب سے مذاکرات کا وجود خطرے سے دوچار ہوا
ہے۔ طالبان کمیٹی کا یہ اسرار کہ فوج خود مذاکرات کا حصہ بنے یعنی طالبان
منتخب حکومت کی بجائے فوج سے براہ راست مذاکرات کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ منتخب حکومت جو ان سے معاہدہ کرے گی فوج اس پر عمل کرنے
میں رکاوٹ ڈالے گی۔
طالبان سے سوال ہے کہ انکی کون ضمانت دے گا کہ جو وہ معاہدہ کریں گے اس پر
یقینی عمل درآمد ہوگا؟یہ اچھی بات ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے ساتھ ساتھ
دوسرے آپشن اختیار کرنے کے مکمل انتظامات کیے ہوئے ہیں۔ اگر تو طالبان
سیدھے طریقے سے آئین پاکستان کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے پر آمادہ
ہوتے ہیں تو ٹھیک ہے وگرنہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جائیگا۔
پھر طالبان کے حصے میں سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔ ابھی
تک تو طالبان خود کو فتح یاب اور پاکستان اور اسکی افواج کو مفتوحہ خیال
کیے ہوئے ہیں۔لیکن کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے بلی اندھی نہیں ہوجاتی کہ
اسے کبوتر دکھائی نہیں دیتا۔
خیر بات سے بات کہاں جا پہنچی ذکر ہورہا تھا کہ کیا حکومت اور افوج پاکستان
کے مابین غلبے کے حصول کے لیے آخری راونڈ کی تیاری ہو رہی ہے؟ میں نے بہت
باریک بینی سے اس بات کا جائزہ لیا ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا لگا ہے کہ وزیر
اعظم نواز شریف نے عسکری قیادت کو معاملات انکی خوائشات کے مطابق سرانجام
پانے کی یقین دھانی کروادی ہے۔ جنرل مشرف کا اسلام آباد سے کراچی منتقلی اس
سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔جنگ گروپ اور آئی ایس آئی کے معاملے میں بھی حکومت
آئی ایس آئی کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ اب ایک دو دوسری خبریں بھی پڑھ لیں جن سے
عوام میں کافی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کی
جانب سے دو بار برطرفی کے باوجود اسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں
سکریٹری کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ حکومت کے اس
فیصلے سے اس پروگرام میں فنڈز دینے والے بین الااقوامی ڈونرز کی جانب سے
خدشات اور تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ بے نظیر انکم
سپورٹ پروگرام میں سکریٹری کے عہدے پر تعینات ہونے والا رب نواز گریڈ بیس
کا اور جونئیرافسر ہے۔ اس حوالے سے اتنے بڑے اہم عہدے پر اسکی تعیناتی عقل
سے باہر ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں تعیناتی کے فوری
بعد ہی رب نواز نے ایک امریکی شہری کی این جی او کو 26 لاکھ روپے کی
ادائیگی کی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ اس بے ضابطگی کے خلاف ایم کیو ایم کے ایک
سینٹر طاہر مشہدی سمیت تین مسلم لیگ نواز کے ارکان قومی اسمبلی توجہ دلاو
نوٹس جمع کروا دیا ہے۔خادم اعلی کے محفوظ پنجاب کا ایک نادر نمونہ پیش خدمت
ہے کہ ان کے ایک ایم پی اے ( پی پی 165) اور پارلیمانی سکریٹری حاجی چودہری
اصغر منڈا کو شرقپور سے لاہور جاتے ہوئے ڈاکووں نے لوٹ لیا اور انکے قافلے
کے تمام ارکان سے بشمول چودہری علی اصغر منڈا سب سے اسلحہ اور نقدی لوٹ لی
اور بڑے شاہانہ انداز میں موقعہ واردات سے فرار ہوگے۔ پارلیمانی سکریٹری
اصغر علی منڈا اپنے ساتھ ہونے والی واردات سے پہلے تو انکار کرتے رہے لیکن
تھانہ شرقپور شریف میں درج ایف آئی آر نمبر مورخہ نے سارا بھانڈا پھوڑ دیا
ہے۔تیسری اور سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ زرعی بنک شرقپور برانچ کے عملے نے
انکوائری کے سلسلے میں آنے والی ایف آئی اے کی ٹیم جس کی قیادت اسسٹنٹ
ڈائریکٹرآفتاب بٹ کر رہے تھے کو بنک کے دروازے بند کرکے ’’ ریجاں ‘‘ لاکے
’’ پھینٹی لگائی ۔جس پر ایف آئی کے ڈائریکٹر آفتاب بٹ نے تھانہ شرقپور شریف
میں زرعی بنک کے عملے کے خلاف مقدمہ درج کرو ادیا ہے۔خبر یہ بھی ہے کہ
وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کے دست راست ملک ذوالفقار علی
عرف لبھا سمیت دیگر مسلم لیگ نواز کے کارکن بھی موجود تھے۔ اور معلوم ہوا
ہے کہ وفاقی وزیر کی مداخلت کے باعث ڈی جی ایف آئی اے نے اپنے محکمہ کے
اسسٹنٹ ڈائریکٹر آفتاب بٹ کو معطل کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے ۔کہ پارلیمانی
سکریٹری کے ساتھ ہونے والی واردات کے پس پردہ بھی ایک سیاسی شخصیت کا کردار
ہے ۔مکمل تفصیلات اگلے کالم میں سامنے لانے کی کوشش کروں گا- |