آج کل فیشن کا دور ہے اور اس
فیشن کے دور میں جو ایک فیشن سب سے زیادہ مشہور ہورہاہے وہ فوج پر تنقید کا
فیشن ہے جس کا مظاہرہ آج کل ہمیں اکثر ہی دیکھنے میں آتا رہتا ہے-
ابھی حال ہی میں حکومت میں شامل وزیراعظم میاں نوازشریف کے دو انتہائی
قریبی ساتھیوں کے بیانات پر بحث جاری ہی تھی کہ حامد میر پر حملے نے فوج پر
تنقید کا ایک نیا دروازہ کھول دیا اس بارتو براہ راست آئی ایس آئی چیف جنرل
ظہیرالاسلام کو نجی ٹی وی چینل نے مجرم تک قراردے دیا اور ان کی تصویر کو
مسلسل آٹھ گھنٹوں تک یوں ٹی وی سکرین پر چلایا جاتا رہا جیسے جنرل ظہیرآئی
ایس آئی چیف کی بجائے most wantedمجرم ہوں اس ساری پریکٹس کاجواز اس بات کو
بنایاگیا کہ حامد میر صاحب نے پہلے سے ہی کئی دوستوں اور اپنے ادارے کو
بتادیاتھا کہ آئی ایس آئی سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ حامد میر صاحب کا شمار
بلاشبہ ملک کے چند بہترین اینکرز میں ہوتا ہے اور ان پر حملے پرپاکستان کے
علاوہ اوورسیز پاکستانیز بھی غمزدہ ہیں اور ان پر حملے کی ہم شدید الفاظ
میں مذمت کرتے ہیں مگر اس واقعے کے فوراََ بعد ہی ان کے بھائی عامر میر کی
جانب سے یہ بیان کہ ان کے مجرم آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیرالاسلام ہیں بہت
سے شکوک و شبہات کو پیدا کرنے باعث بنابلکہ یہی وہ جلدبازی تھی جس نے
حامدمیر صاحب کے کیس کو بالکل پس پردہ کردیا اور میڈیا پران کیساتھ ہمدردی
اور ان کی صحتیابی کیلئے دعا کی بجائے آئی ایس آئی اور نجی ٹی وی چینل کے
حق میں اور مخالفت میں پروگرام شروع ہوگئے اور ملک میں ایک بھونچال کی سی
کیفیت پیدا ہوگئی دوسری اہم غلطی جس نے حامد میر کیس کو کمزور کیا وہ پانچ
دن تک اس واقعے کی ایف آئی آر کا درج نہ ہونا تھابہرحال چینل کی جانب سے
آئی ایس آئی کے خلاف اس طرح مسلسل پروپیگنڈہ ناقابل برداشت ہے جس کا
تقاضایہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تین ججوں پر مشتمل کمیشن کی تحقیقات میں
مجرم ثابت ہونے والے عناصر کو سخت ترین سزائیں دی جائیں اور ان کو قوم کو
بتایا جائے کہ کہ وہ کون سی قوت اور کون لوگ ہیں جو حکومت ،آرمی اور میڈیا
کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کررہی ہے ۔یقیناََ کوئی بھی محب وطن پاکستانی
پاک فوج جیسے انتہائی منظم ادارے کے کردار پر انگلی اٹھانے کا سوچ بھی نہیں
سکتا جس کے ایک جوان سے لے کر اعلیٰ ترین قیادت تک نے ہر کڑے وقت اور مصیبت
کی گھڑی میں عوام کی خدمت کی ہے اور ٓائی ایس آئی کا شمار تو دنیا کی پانچ
بہترین خفیہ ایجنسیوں میں ہوتا ہے جوہماری ملکی سلامتی کی اولین دفاعی لائن
ہے جس نے نہ جانے کتنی بار ملک کو تباہی و بربادی اور دشمنوں کی سازشوں سے
بچایا ہے اس کی یہی خوبی اور طاقت ہے جو ہمارے مخالفین کی نظروں میں ہروقت
کھٹکتی رہتی ہے اور بعض ملک دشمن عناصر مختلف حیلوں بہانوں سے اس کو کمزور
کرنے اور کبھی اس کی کارکردگی اور اختیارات کو محدود کرنے کی کوششیں کرتے
رہتے ہیں یہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے یہاں امریکہ میں بزنس
کرتے ہوئے انتیس سال ہوگئے ہیں اور آئے روز یہاں کی مختلف کاروباری،سیاسی
اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں مگر میں نے آج تک کسی کونجی
محفلوں میں بھی سی آئی اے وغیرہ کے خلاف گفتگو کرتے دیکھا اور نہ ہی میڈیا
میں کبھی ان خفیہ ایجنسیوں کے رول کو ڈسکس کیا گیا(جس سے ہمارے میڈیا کو
سبق سیکھنا چاہئے) یہی وجہ ہے کہ جب سے حامدمیر صاحب کا واقعہ ہوا مجھے
مختلف بیرون ممالک پاکستانی دوستوں کے فون بھی آئے اور یہاں امریکہ میں
موجود پاکستانیوں نے بھی اس واقعے کی آڑ میں پاکستان کی عظیم فوج اور آئی
ایس آئی کو ہدف تنقید بنانے پر شدید تشویش اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ان
کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بلاتاخیر پیمرا کو خود مختارادارہ بنایا
جائے جو کسی بھی ٹی وی چینل کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی یعنی
ریڈلائن کراس کئے جانے اورکسی بھی ایسی کوریج ،رپورٹنگ یا خبر پر فوری اور
سخت ترین ایکشن لے جس سے ملک کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچتا ہو اور ٹی وی
مالکان اور اینکرز کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ دن رات اپنی دولت اور ریٹنگ
بڑھانے کی بجائے اپنے ملک پاکستان کی ریٹنگ کو سامنے رکھیں کیوں کہ اول تو
کفن کی جیب نہیں ہوتی سب کچھ یہیں رہ جانا ہے ساتھ کچھ نہیں جانا سوائے
نیکی اور نیک نامی کے اور دوسری بات یہ کہ پاکستان کی ریٹنگ کیساتھ ہی ہم
سب کی ریٹنگ ہے اور جب ملک کی ریٹنگ نہ رہی تو ہماراقد کیسے اونچا ہوسکتا
ہے ۔اور افسوس اس کیس میں ایسا ہی ہوا ہے جب ایک ٹی وی چینل اور اخبار کی
جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایس آئی چیف کی تصویر کیساتھ
اس کو مجرم بنا کر پیش کیا تو اس کو جواز بنا کر دوسرے کئی ممالک خصوصاََ
بھارت کو تو جیسے سنہری موقع ہاتھ آگیا اس نے خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی
اور آئی ایس آئی کو دہشتگرد ثابت کرنے کی خوب کوشش کی۔مگر یہ بات بہر حال
اٹل ہے کہ افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف کی جانے کسی بھی سازش
پرکوئی بھی اندرون اور بیرون ملک پاکستانی خاموش نہیں رہے گا یہی وجہ ہے کہ
اس واقعے کے بعد پورے ملک میں افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے حق میں
جلسے اور ریلیاں نکالی جارہی ہیں اس ضمن میں حکومت کی خاموشی کو بھی
غیرجانبدار حلقوں کی جانب سے مشکوک نظروں سے دیکھا گیا جس کو کہ اس موقع پر
ملکی سلامتی کے اہم ترین ادارے کیساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا ان حلقوں کا یہ
خیال بھی درست ہے کہ اگر حکومت اس معاملے پر 19اپریل کو ہی فواراََ آئی ایس
آئی کے حق میں سٹینڈ لے لیتی تو یہ معاملہ اتنا طول نہ پکڑتا ۔ |