ابنِ صدیقی
آج حالات گھمبیرہیں ملک کو داخلی اور خارجی لحاظ سے بیک وقت کئی چیلنجزکا
سامناہے خطے کی صورت ِ حال عجب ہے ایک طرف افغانستان ہے تو دوسری طرف بھارت
دونوں جانب سے ہمیں ٹھنڈی ہوانہیں آ رہی ہروقت توپوں کارخ ہماری جانب
رہتاہے،بھارت تو خیرہمارا ازلی دشمن ہے اس نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم
ہی نہیں کیا لیکن افغانستان کو کیاہوا اس سے ہمارے کئی رشتے جڑ ے ہوئے ہیں
مذہبی ، سماجی ،معاشرتی،تہذیبی۔افغانستان سے ہمارا براہ راست کوئی تنازعہ
بنتاہے نہ کوئی تنازعہ ہے لیکن عجیب بات ہے ایک مسلم برادر ملک ہونے کے
باوجود افغانستان کے ماضی اور حال کے تمام حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کو
دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے دنیا تسلیم بھی کرتی ہے دہشت گردی کے خلاف
جنگ کے دوران سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں بدقسمتی سے سب سے زیادہ
تنقید اور الزامات بھی پاکستان پر لگائے جارہے ہیں اس سے بڑی اور کیا
منافقت ہوسکتی ہے جو مغربی دنیا ،اس کے گماشتے اور افغان حکمران پاکستان سے
کررہے ہیں علامہ اقبال ؒ نے تو واضح کہا ہے
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
امریکہ، برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک پاکستان پر الزام تراشی بھی کرتے
ہیں۔۔پاکستان کو امداد اور قرضے بھی دیتے ہیں ہماری کسی بات پر یقین کر نے
کیلئے بھی تیار نہیں یہی حال بھارت کا ہے جس کے قریباً تمام سیاستدان
پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردی کے الز امات بڑے دھڑلے سے لگاتے ہیں آج
تک انہوں نے منہ میں زبان نہیں ڈالی اور بھارتی حکمران پاکستان سے تجارت
کیلئے مضطرب بھی رہتے ہیں سارک ممالک کی تنظیم اور دولت ِ مشترکہ کے پلیٹ
فارم سے پاکستان سے معاہدے بھی جاری ہیں اور ہماری مخالفت بھی۔ پاکستان تو
پہلے ہی بہت سے مسائل سے دو چار ہے جن میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری،
لوڈشیڈنگ اوردہشت گردی سرفہرست ہیں برِ صغیرمیں پائیدار امن کیلئے امریکہ،
برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک، افغانستان اوربھارت کو منافقانہ پالیسی
ترک کرنا ہوگی جیو اور جینے دو کے اصول کے تحت پاکستان کو عدم استحکام سے
دو چارکرنے کی تمام پالیسیاں ختم کرناہوں گی یہی مسائل کا آسان اور سادہ حل
ہے امریکہ اور برطانیہ۔ ہمیں اپنا دوست کہتے ہیں تو پھر پاکستان پر اعتماد
بھی کریں یہی دوستی کا تقاضا ہے ورنہ کھوکھلے دعوؤں سے پاکستانی قوم کو
زیادہ دیر بہلایا نہیں جا سکتا۔ |