میں نے گاڑی روکی اور ایک نوجوان
سے اپنی منزل کا راستہ پوچھا۔ نوجوان بولا تقریباً آدھا کلومیٹر کے بعد ایک
چھوٹی سی سڑک اوپر جاتی ہے آپ بائیں اس سڑک پر مڑ جائیں۔ مگر ذرا آہستہ
چلیں اور دیکھتے ہوئے جائیں کیونکہ ایک تو سڑک چھوٹی ہے دوسرا درختوں میں
گھری ہوئی ہے آپ نے ذرا دھیان نہ دیا تو آگے نکل جائیں گے۔ ٹھیک۔ میں نے
نوجوان کو خدا حافظ کہا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ گاڑی کافی آہستہ تھی مگر اس
کے باوجود میں آگے نکل گیا۔ بچوں نے راستہ دیکھ لیا اور شور مچا دیا۔ میں
نے گاڑی روکی۔ تھوڑی پیچھے کی اور بائیں طرف سڑک پر موڑ دی۔
زندگی میں پہلی دفعہ میں قدرتی حسن سے مالا مال اتنی خوبصورت سڑک پر رواں
دواں تھا۔ سڑک کے دونوں طرف خوبانی اور سیب سے لدے درخت اس طرح سر جوڑے
کھڑے تھے کہ ان کے سائے میں چلتے ہوئے دوپہر کو شام کا سماں محسوس ہوتا
تھا۔ کہیں کہیں پتوں کے درمیان سے سورج کی چند کرنیں بمشکل زمین پر پہنچ
رہی تھیں۔ سڑک پر تازہ خوبانیاں جا بجا بکھری پڑی تھیں۔ درختوں کے پیچھے
اکا دکا مکان بھی نظر آ رہے تھے۔ یہ یو (U) شیپ سڑک ہنزہ کے صدر مقام کریم
آباد کو شاہراہ ریشم سے ملاتی ہے۔
تھوڑی دیر میں ہم اس سڑک کی انتہائی بلندی پر پہنچ چکے تھے۔ یہ کریم آباد
کا بازار تھا اور یہی ہماری منزل تھی۔ بازار کے دونوں طرف دکانیں اور چھوٹے
چھوٹے ہوٹل تھے اور ان کے پیچھے گاؤں کے مکانات جن کی چھتیں خوبانیوں سے
بھری تھیں۔ جو لوگوں نے سکھانے کے لئے چھتوں پر ڈالی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک
ہوٹل میں کمرہ لیا۔ کھانا چونکہ راستے میں کھا لیا تھا اس لئے آرام کے لئے
لیٹ گئے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آ گئی۔ اٹھے تو شام ہو چکی تھی۔ منہ ہاتھ
دھو کر باہر نکلے تو سردی کے باوجود ہوٹل کے لان میں بچھی کرسیوں پر سیاحوں
کی رونق تھی۔ انتہائی خوبصورت سماں تھا۔ چاند کی روشنی میں سامنے ناگر ویلی
کے گلیشیئر اور ارد گرد بلند چمکدار اور روپیلی چوٹیاں سیاحوں کو اپنے حسن
کے سحر میں گم کئے ہوئے تھیں۔ اس دلکش نظارے کو دیکھنے کے لئے میں اور میرے
بچے سردی کے باوجود وہیں بیٹھ گئے اور نوجوان ویٹر کو کھانے لانے کا کہا۔
شاہراہ ریشم پر راکا پوشی جیس بلند چوٹیوں میں گھری یہ سر زمین شاہ ریشم پر
علی آباد کے قریب سڑک سے تھوڑا ہٹ کر 8200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ ہنزہ کا
یہ سیاحتی مقام اپنی لازوال خوبصورتی کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں میں بے حد
مقبول ہے۔ میں اور میرے بچے اس خوبصورتی کے سحر میں گم تھے کہ نوجوان بیرہ
شیشے کے جگ میں پانی لے آیا۔ میں نے پانی کو دیکھا۔ اس قدر گدلا تھا کہ
میری رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔ نوجوان ویٹر کو بلایا اور کہا بھائی میں نے تو
پانی مانگا تھا تم تو سکنجبین لے آئے ہو۔ نوجوان برا مان گیا۔ بابو آپ کو
پتہ ہی نہیں۔ یہ آب حیات ہے آب حیات۔ انسان کو لمبی زندگی اور فولاد جیسی
قوت دیتا ہے، بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہمارے بندے جو آپ کے پاس کام
کرنے کے لئے کراچی، لاہور اور اسلام آباد جاتے ہیں وہاں کی ناقص غذا اور
پانی پی کر بیمار ہو جاتے ہیں اور پھر روتے ہیں کہ مجبوریوں نے انہیں آب
حیات سے دور کر دیا۔ اس لئے وہ بیمار ہیں اور مر رہے ہیں۔
اگلے دن صبح میں بازار میں پھر رہا تھا۔ بازار کے درمیان سے ایک چوک ہے
جہاں سے راستہ اوپر آبادی کی طرف جاتا ہے جس کے دائیں طرف ایک راستہ بلتت
فورٹ اور بائیں طرف دوسرا آبادی کی طرف جاتا ہے۔ اس راستہ پر مین چوک میں
ایک طرف تھوڑی سی گہرائی ہے جس میں چشمے کا پانی آتا ہے۔ میں گزر رہا تھا
تو دیکھا بہت سی نوجوان لڑکیاں مٹکوں اور برتنوں میں وہی گدلا پانی بھر رہی
ہیں۔ ایک بچی پانی لے کے واپس جانے لگی تو میں پوچھا بیٹا یہ پانی تو گدلا
ہے۔ مٹی والا پانی کیسے پیو گے؟ لڑکی ہنسنے لگی اور بولی معمولی سی مٹی ہے
پانچ منٹ مین برتن کی تہہ میں بیٹھ جائے گی۔ باقی تو منرلز ہیں جو ہیلتھ کے
لئے بہت سودمند ہیں۔ میں نے ہنس کر پوچھا بیٹا پتہ ہے منرلز کیا ہوتے ہیں؟
مسکرائی اور بولی میں اسلام آباد گرلز ڈگری کالج میں B.Sc. میں پڑھتی ہوں۔
آج کل چھٹیاں ہیں اس لئے گھر ہوں۔ یہ سبھی ایبٹ آباد یا اسلام آباد پڑھتی
ہیں اس نے چشمے پر کھڑی لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔ چھٹیاں ختم ہوں گی تو
چشمے پر لڑکیاں نہیں مائیں نظر آئیں گی۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا یہاں
کتنے لوگ پڑھے لکھے ہیں؟ بولی سبھی۔ وہ سامنے میرا گھر ہے اور ساتھ میری
خالا کا۔ خالا کے دو بیٹے CSP ہیں اور آج کل لاہور پوسٹڈ ہیں۔ اس نے دو
معروف CSP حضرات کے نام بتائے۔ خواندگی کا یہ معیار یقینا میرے لئے مسرت کا
باعث تھا۔
میں پہلی دفعہ ہنزہ 80 کی دہائی میں گیا تھا جب یہ واقعات پیش آئے۔ اس وقت
میں نے ان سب باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا مگر آج بہت سی تحقیقات کے
نتیجے میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ گدلا پانی حقیقی منرل واٹر ہے اور
بلندیوں پر پگھلنے والے گلیشیئرز سے حاصل ہوتا ہے۔ اس پانی ہی کا کمال ہے
ہنزہ کے رہنے والے دنیا بھر کے تمام لوگوں سے زیادہ زندگی پاتے ہیں۔ جرمنی
کے کچھ ماہرین نے ہنزہ کے 110 سال سے لے کر 125 سال تک کے 25 بوڑھے لوگوں
کے گروپ کا طبی جائزہ لیا۔ کسی بھی شخص کو شوگر، کولیسٹرول، دل کا عارضہ،
دانتوں کی بیماری کا کوئی دیگر بیماری یا مسئلہ نہ تھا۔ یہاں لوگ بیمار بہت
کم ہوتے ہیں۔ ہنزہ میں آج تک کوئی بھی شخص کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا
نہیں ہوا۔
ہنزہ میں شرح خواندگی پچھلی تین دہائیوں سے 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہاں کے
لوگ اپنی مقامی زبان بروشکی کے علاوہ اردو اور انگریزی پوری طرح بول اور
سمجھ سکتے ہیں۔ 1892ء میں جب انگریزوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو یہاں کا
والی پرنس صفدر علی چائنہ میں پناہ گزین ہو گیا۔ مگر بعد میں یہاں کے والی
پرنس کے نام سے انگریزوں سے مل کر کام کرتے رہے۔ ہنزہ ویلی کا یہ مرکزی قصہ
پہلے بلتت کے نام سے جانا جاتا تھا مگر اب پرنس کریم آغا خان کے حوالے سے
کریم آباد کہلاتا ہے۔ بلتت کے نام سے یہاں ایک قلعہ بھی موجود ہے۔ بلتت سے
پہلے اس کا صدر مقام التت تھا۔ جہاں التت کے نام سے ایک دوسرا قلعہ بھی
موجود ہے۔ میری چہیتی شاگرد میری بیٹی طاہرہ میر کا تعلق ہنزہ سے ہے۔ وہ
مجھے روز دعوت دیتی ہے کہ ہنزہ کا چکر لگاؤں۔ رہنے کو اس کا گھر اور پینے
کو آب حیات اور دیکھنے کو جنت نظیر وادی۔ سب کچھ بہت خوب مگر میں اپنی بیٹی
طاہرہ کو کیا بتاؤں اس وادی سے والہانہ عشق کے باوجود بڑھاپہ میرے ولولوں
کا دشمن ہے۔ اس لئے اتنے لمبے سفر پر جانا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا
ہے۔۔۔ |