اے شہر مکہ

اے شہر مکہ
میں واری جاؤں تیری گلیوں کی

انوار و تجلیات کا مرکز ،عالم اسلام کا دھڑکتا ہوا دل ،مکہ وہ شہر جو چوبیس گھنٹے جاگتا ہے جہاں رات ، تاریکی اور خاموشی نام کی کوئی چیز نہیں ہےجہاں دن رات کی چہل پہل اور گہما گہمی میں کوئی فرق نہیں ہوتا -دنیا میں اور بھی چند شہر ہیں جنکی وجہ شہرت ہردم جاگنے کی ہے لیکن وہ دوسری طرح کے شہر ہیں -یہ شہر جہاں پر عالم اسلام کے کونے کونے سے اہل ایمان اللہ کے دربار میں حاضری کیلئے کشاں کشاں چلے آتے ہیں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے - حاضر ہو ں اے میرے اللہ میں حاظر ہوں - قافلے، گروپ ،انفرادی طور پر، اللہ کے اس گھر میںآنے کیلئے کہا جاتا ہے کہ جسکا بلاوا ہو وہی آتا ہے- مواصلات کےجدید ذرائع نے سفر کو بےحدآسان بنا دیا ہے - پر سفر پھر بھی سفر ہے-الحمدللہ جب اللہ تعالی نے اس مرتبہ پھر حاضری کی توفیق دی تو اس رب کریم کا بیحد شکر ادا کرتے ہوئے تمام مراحل سے گزرتی ہوئی مکہ میں داخل ہوئی-یہ مقام جسکو اللہ کا پہلا گھر بنانے کیلئے منتخب کیا گیاروایات مٰیں ہے کہ کعبہ سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا-جہاں کی بے آب وگیاہ وادی میں ابراہیم خلیل اللہ اپنی بیوی ہاجرہ اور ننھے بیٹے اسماعیل کو اللہ کے حکم سے چھوڑکر چلے گئے - جہاں ہاجرہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑتی رہیں جہاں ننھے اسماعیل کے قدموں سے زم زم چشمہ جاری ہوا خالق کاینات کو یہ عمل اور یہ بھاگ دوڑ اسقدر بھا یا کہ اسے قیامت تک اہلایمان پرعمرے اور حج کے رکن کے طور پر جاری کیا جہا ں پر ابراہیم علیہالسلام اسماعیل علیہالسلام کو اللہ کے حکم سے قربان کرنے گئےاور جب یہ قربانی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی تو دونوں باپ بیٹوں نے ملکر کعبہ کو تعمیر کیااور جب وہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتےجاتے اے میرےرب اس شہر کو امن و سلامتی کا شہر بنا" اے رب ہماری دعائیں قبول کرلے بے شک تو سننے والا جاننے والاہے-اے ہمارے رب ہمکو مسلم( اطاعت گزار) بنا اور ہماری نسل سے ایسی قوم اٹھانا جوتیری مسلم ہو ، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا ، ہماری جانب توجہ فرما بے شک تو توبہ قبول کرنیوالا رحم فرمانے والا ہے - اے ہمارے رب انمیں وہ رسول مبعو ث فرما جو انہیں تیری آیات سنائے انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے ، انکو پاکیزہ بنائے بے شک تو ذبردست حکمت والا ہے--البقرہ 126،127،128129-کعبہ جو تاریخ کے ہزاروں سالہ ادوار سے گزرا ہے جہاں پر شرک بھی ہوا اور بت پرستی بھی- اور جسکو دعائے خلیل نوید مسیحا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدائے واحد کی عبادت کا رخ اور آماجگاہ بنا دیا- وہ کعبہ جو مرجع خلائق ہے جسکا طواف سوائے نماز کے اوقات کے ہمہ وقت جاری ہوتا ہے جسکے متعلق کہا جاتا ہے کہ فرشتے بھی اسکا طواف کرتے رہتے ہیں ابابیلوں کو طواف کرتے ہوئے میں نے خود دیکھا ہے- اسی کعبہ کو ڈھانے کیلئے جب ابرہہ اپنا ہاتھیوں کا لشکر لیکر حملہ آور ہوا تو ابابیلوں نے اللہ کے حکم سے اسے ایسا برباد کیا جیسے بھوسے کا کھایا ہوا ڈھیر- کعبہ ایک چوکور کمرہ، کالے غلاف میں لپٹا ہوا ،جسپر کتاب اللہ کی آیات زردوزی سے انتہائی خوبصورتی سےکڑھی ہوئی ہیں ایک کونے میں حجر اسود ہے جسے چومنے کے لئے اہل ایمان بے تاب ہیں اور جسکے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا " اے حجر اسود میں تمہیں کبھی نہ چومتا اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہیں چومتے نہ دیکھا ہوتا- یہ کعبہ جس کی جانب رخ کر کے دنیا کے اربوں کھربوں مسلمان ہر دم ہر لمحہ سجدہ ریز ہوتے ہیں اور یہ حکم جاری کرنیوالا کون تھا یہ میرا رسول آقائے نامدارمحمد صلی اللہ علیہ وسلم تھا جو اسی مکہ میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوا ، پلا بڑھا ،مکے کا انتہائی نیک و صالح جوان امین و صادق کے القاب کے ساتھ مشہورہواجسنےایک مشہور تاجر خاتون خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا جسے 40 برس کی عمر میں اللہ نے اپنے نبوت سے نوازا وہ خاتم النبیین افضل الانبیاء جب اللہ واحد کے پیغام کے ساتھ اپنی قوم کی طرف آیا تو اسے انتہائی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا-اسی مکے میں اسنے انتہائی دکھ ، اذیت اور تکالیف برداشت کئے کیوں ؟اللہ کے اس پیغام کا بول بالا کرنیکے لئے جسکے لئے اللہ نے اسے منتخب کیا تھا-مصائب و آلام کا ایک دور گزار کر وہ اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ کی جانب مہاجر ہوا-اور مدینہ کی اسلامی ریاست کا یہ با تدبر حکمران، سپہ سالار جب دس برس کے بعد اس مکے میں فاتح مکہ کی حیثیت سے واپس داخل ہوا تو اسنے اپنے جانی دشمنوں کی بھی جان بخشی کردی اور انکے ساتھ وہ سلوک کیا جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا- - حسن سلوک اور رواداری--لا تثریب علیکم الیوم آج کے دن تم پر کوئی گرفت نہیں ہے--صلی اللہ خیر خلقھ محمد وآلھ و اصحابھ اجمعین-

خیالات اور سوچ کا ایک دھارا تھا کہ دماغ میں ریل کی طرح چل رہاتھا-بیت الحرم کو موجودہ سعودی حکومت ایک عظیم الشان عمارت اور منصوبے میں ( Mega complex) میں ڈھال رہی ہے چاروں طرف کام جاری ہے توڑ پھوڑ ،تعمیراتی مشینوں کی گھن گرج اور شور - چار سال پہلے میں حج پر آئی تھی تو یہی حال تھا اب اس سے بھی کہیں زیادہ ہے - بڑی بڑی تصاویر سے نمایاں کیا ہوا ہے کہ حرم الحرام کس شکل صورت کا ہوگا-ماشاءاللہ میلوں کے رقبے میں پھیلا ہوا اسکے متعد دروازے ہیں -ملازمین اور خدام کی ایک خلقت ہے-- اس مرتبہ حرم میں جیسے ہی داخل ہوئی اور کعبے پر نظر نہیں پڑی تو عجیب دکھ سا ہوا ورنہ اس سے پہلے حرم شریف میں داخلے کے بعد ہر سمت سے کعبہ نظر آتا تھا- معذوروں کے لئے اوپر مطوف بنایا گیا ہے جس سے آڑ آگئی ہے -کہتے ہیں کہ یہ بعد میں ہٹا دیا جائے گا--

ہم کل رات ہی ایک طویل سفر کے بعد یہاں پہنچے تھے -عمرے کی نیت اور احرام میں تو تھے ہی لیکن تھکن سے چور تو فیصلہ ہوا کہ تہجد کے بعد عمرہ ادا کرینگے - بیت اللہ میں حاضری ہر مرتبہ ایک نئی اہمیت کی حامل ہوتی ہے- آدھے سے زیادہ دن گزارنے کے بعد احساس ہو رہاتھا کہ بس اسی ارض مقدس کی باسی ہوں--اب حرم شریف میں نماز عصر سے فارغ ہوئی اور ہوٹل جانے لگی تو اہل اسلام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر گزر رہا تھا مرد و خواتین کے سر ہی سر مختلف رنگت ، لباس، بھانت بھانت کی بولیاں ، خواتین کے مختلف وضع قطع کے حجاب اور جلباب، ایک عجیب سی بیخودی اور سرشاری کی کیفیت تھی -ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز-- لاکھوں کا مجمع ، معلوم ہوا کہ مملکت کے تعلیمی اداروں میں دس روزہ چھٹیاں ہیں اور اکثریت نے یہاں کا رخ کیا ہوا ہے --

ان میں مقامی اور قرب و جوار کے لوگ بھی تھے اور ہماری طرح سات سمندر پار سے آئے ہوئے بھی --میں نے تصاویرکھینچنی شروع کیںتصاویر کا بھی خوب ہے اب حرم کے منتظمین نے اس سے چشم پوشی اختیار کر لی ہے اسلئے کہ معاملہ انکے بس سے باہر ہو گیا ہے- ہر ایک کے پاس فون ہے جسمیں کیمرہ ہے اور دیگر چھوٹے کیمروں سے بھی تصویر کشی ہورہی ہے ورنہ کیمرے چھین لئے جاتے تھے-

ہر نماز کے اختتام پر نماز جنازہ کی ادائیگی ہوتی ہے - ایک کے بعد ایک کئی جنازے جا رہے تھے - حرم میں جنازہ اور مکہ میں تدفین ایک بہت بڑی سعادت سمجھی جاتی ہے -ہمارے بزرگ تو اسکی دعائیں اور تمنا کرتے تھے واللہ اعلم بالصواب- حرم اور اسکے حدود میں ایک نماز کا اجر ایک لاکھ گنا - کچھ علماء دیگر نیکیوں کے لئے بھی یہ اجر بتاتے ہیں-اور ان حدود میں جو گناہ سر زد ہوں انکی سزا،کیا وہ بھی لاکھوں میں ہوگی؟ ارد گرد ایک سے ایک عالی شان عمارات ہیں اسوقت کلاک ٹاور سب پر چھایا ہوا ہے - پچھلی مرتبہ یہ برج البیت کہلاتا تھا اب ابراج البیت اور کلاک ٹاور ہے اسکے اندر پورے کاروباری مراکز ، دکانین ، مشہور ریسٹورنٹ-اس ٹاؤر کے اوپر گھڑی کو مکہ میں چاروں طرف سے دیکھا جاسکتاہے-معلوم ہوا کہ سعودی حکومت نے اس عمارت سے ہونیولی آمدنی کو بیت الحرم کے اخراجات میں لگامے کا فیصلہ کیا ہے- اسی رو میں بہتی ہوئی میں رواں دواں تھی کہ اچانک ایک گڑھے میںٹھوکرلگی ا پیرڈگمگایا اور بری طرح منہ کے بل گری- بلکہ کیسے گری اور کس رخ پر اسکا مجھے اب بھی ادراک نہیں ہے - تین نوجوان لڑکے لڑکیاں فرشتوں کی طرح میری مدد کو آگے بڑھے انہوں نے پہلے تومجھے سہارادیکر اٹھایا میرے منہ پر پانی چھڑکا اور مجھے پینے کو پانی دیا -میرا سامان اور عینک دور گر پڑی تھی لیکن سب چیزیں محفوظ تھیں انہوں نے مجھے بٹھا کر اور کھڑا کرکے تسلی کرلی کہ میں ہوش میں ہوں --بعد میں قریبی دارالمشفٰی میں میرے تفصیلی ایکسرے اور معائینہ ہوا -ایک بازو بالکل اٹھ نہیں پارہاتھا اور بھی کافی شدید چوٹیں آئیں اللہ کا بے حد کرم تھا کہ ہڈی نہیں ٹوٹی --اللہ کی رحمت اور قوت ایمانی سے وہاں کے قیام کے باقی دنوں سےمستفیض ہوئی اور زخموں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا --مدینہ منورہ میں اللہ تعالٰی نے حاضری اور زیارہ کی توفیق دی-

ابھی واپسی کو دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن یہاں پر ایکسرے الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی اسکین ہوچکے ہیں کندھے کے پاس بازو کے پٹھے پھٹ گئے ہیں -جسکو آرام دینے کیلئے علاج ہورہے ہیں اگر کچھ عرصے میں صحیح نہ ہوئے تو آپریشن کرنا پڑیگا--مکہ معظمہ کا یہ سفر یاد گار رہے گا--اے مکے میں واری جاؤن تیری گلیوں کے-ہمارے ہاں نعتوں میں کیا تان باندھ دیا جاتا ہے -- لیکن شہر مکہ کے منتظمین سے انٹر نیٹ کی اس سہولت کے ذریعے اپنی شکایت پیش کر رہی ہوں - کاش کہ میری آواز صدا بہ صحرا ثابت نہ ہو اس شکایت کو انگریزی اخبارات میں بھی دینی کی کوشش کرونگی- ایک اایسا شہر جہاں اربو ں کھربوں کی تعمیرات ہورہی ہوں کیا وہاں بین القوامی سطح کی سڑکیں ، گلیاں اور راہگیروں کے لئے فٹ پاتھ تعمیر نہیں کئے جاسکتے پھر اکثر جگہ ٹریفک گھسی چلی آرہی ہے شہر کی مجموعی صفائی کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے- ہزاروں کی تعداد میں کھڑا صفائی کا عملہ لوگوں کی شکل دیکھتا رہتا ہے کہ وہ انکو زکوٰۃ خیرات میں کیا تھماتے ہیں - مکہ کی نسبت مدینہ زیادہ صاف ستھرا اور منظم ہے- سعودی حکومت کو ان شعبوں پر توجہ دینا چاہئے -ہاں یہ امر قابل تعریف ہے کہ عمرہ اور حج ویزہ پر آنیوالوں کے لئے علاج معالجے کی سہولیات سعودی حکومت کی جانب سے مفت دستیاب ہیں-- اب زندگی میں پھر کب مکے کی گلیاں دیکھنے کا اور کعبۃ اللہ میں حاضری کا موقع ملے گا بس بلاوے کی بات ہے - میرا رب اس حاضری اور ان تکالیف کو قبول فرمالے ---آمین
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 254226 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More