روبینہ نازلی۔۔ حقیقت نگار شاعرہ

درد و کرب کے اظہار کی شاعرہ۔روبینہ نازلی۔۔۔۔۔ روبینہ نازلی نئی نسل کی شاعرات میں اپنا ایک منفرد مقام اِس لیے رکھتی ہیں کہ اُن کا شعری اظہار سیدھے سادے بیانیہ کو اختیار کیے ہوئے ہے۔لفظ کو استعارہ یا علامت بنائے بغیر بھی وہ اپنے جذبات اور احساسات ، تصوّرات اور خیالات کو نہایت عمدگی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔

اُن کی شاعری ژولیدہ بیانی اور ادق پسندی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی اور تفہیمِ معنی کے معاملے میں کسی بھی قسم کی کوئی رُکاوٹ پیش نہیں آتی۔انہوں نے غزل اور پابند نظم کے علاوہ نظمِ معرّا، آزاد نظم اور نثری نظم جیسے آزاد شاعری کے اسالیب کا بھی استعمال کیا ہے اور اپنے تجربات کی وسعت کو اُن کے توسط سے بساطِ شعری پر پھیلا دیا ہے۔

روبینہ نازلی نے اپنی غزلوں میں جہاں طویل بحروں کا استعمال کیا ہے وہیں مختصر بحروں میں بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے اپنے اظہار کو کامیابی عطا کی ہے۔

کبھی کبھی تو اُن کی مختصر سی بحروں کے آدھے سے زیادہ مصرعوں پر ردیف حاوی ہوجاتی ہے اور قافیے کا تسلّط دیگر لفظوں کے استعمال کے لیے تنگ دامانی کو ہوا دیتا ہے مگر نازلی کا کمال یہ ہے کہ ایسی بحروں میں بھی انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو کام میں لاکر مضامین کی بھر پور ادائیگی کے لیے گنجائش پید اکی ہے۔

اُن کی غزل کے اشعار کے دونوں مصرعوں میں کمال درجہ کا ربط پایا جاتا ہے اور معنوی حُسن کی ایک سجتی سنورتی دنیا آباد نظر آتی ہے۔

بعض غزلوں میں تو انہوں نے بہت دقیق اور کم تعداد رکھنے والے قافیوں کا بھی استعمال کیا ہے، ممکن تھا کہ ایسے وقت تجربوں کے کامیاب اظہار میں کچھ دُھند سی شامل ہوجاتی مگر نازلی نے اپنے تخلیقی ذہن کے توسط سے ہر شعری تجربے کو نہایت واضح انداز میں نمایاں کیا ہے۔

روبینہ نازلی نے قدیم لفظیات ہی کے ذریعے نئے خیالات اور تصوّرات کے چراغ جلائے ہیں اور اپنی داخلی کیفیتوں کی روشنی سے قاری کے لیے بصیرتِ باطنی اور مسرّتِ روحانی کا اہتمام کیا ہے۔

نازلی کی شاعری میں جہاں ذات کا کرب اُبھر کر سامنے آتا ہے وہیں کائینات کے ہنگاموں سے پیدا ہونے والے تصادمات اور انتشار کا ماحول بھی درد کی لہریں پیدا کرتا ہے۔غمِ جاناں اور غمِ دوراں کی آگ نے نازلی کی ذات کوجُھلسا دیا ہے جس کی تمازت سے اُن کی شاعری میں ایک کرب و اضطراب کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

روبینہ نازلی کی ذات ایک ایسا کربلا بن گئی ہے جس میں ہر طرف سے آنے والے تیروں اور سِنانوں نے اُن کے وجود کو چھلنی کردیا ہے اور تشنہ لبی اُن کی قوّتِ ارادی کو زائل کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگئی ہے ۔ایسے وقت میں بھی نازلی کے قدم نہیں ڈگمگاتے بلکہ وہ اپنی ثابت قدمی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے حق کی طرفدار ہیں اور باطل نظریات کی پیروی کے لیے اُن کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔وہ دنیا کے ظالموں اور ستم گروں سے لڑنا جانتی ہیں اس لیے کہ اُن کو کامل اعتماد ہے کہ ربِ تعالیٰ کی ذات اُن کی حامی و ناصر ہے اور وہی مشکل کُشا اور کارساز ہے، وہ اپنے چاہنے والے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا چاہے ساری دنیا بے وفا کیوں نہ ہوجائے۔

ہر طرح کی بے وفائی اور ستم ظریفی کو روبینہ نازلی نے زندگی بھر برداشت کیا ہے لیکن انہوں نے کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہااور نہ کبھی اُن کے اندر کسی کے لیے بغاوت کا جذبہ بیدار ہوا ہے۔وہ تو صرف رات کی سنگینی سے نکل کر صبح کے رنگین اُجالوں میں زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔وہ کسی سے بیر نہیں رکھتیں۔
غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ غمِ دوراں کے سائے بھی نازلی کی شاعری پر دراز ہوتے چلے گئے ہیں۔نازلی کے رومانی ذہن نے جہاں اُن کو کُھل کر داخلی کیفیات کے اظہار کی کشادگی عطا کی ہے وہیں اُن کو عصری حسّیت کی ترجمانی کا شعور بھی بخشا ہے جس کی وجہ سے اُن کی شاعری میں عصری موضوعات اور مسائل کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں اور زندگی کی تہی دامانی کا دُکھ بھی دکھائی دیتا ہے۔آج کے تلخ حالات، دہشت گردانہ ماحول، مجبور اور بے بس انسان اور مجروح ہوتی ہوئی انسانیت کا نوحہ بھی اُن کی شاعری کو ایک خاص منصب عطا کرتا ہے جس سے اُن کی عصری آگہی کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔

غرض روبینہ نازلی کی شاعری میں جہاں داخلی کیفیتوں کا درد روشن ہے وہیں خارجی دنیا کے اَن دیکھے حوادث، انوکھے واقعات اور نامساعد حالات سے جنم لینے والی تباہیوں اور بربادیوں کے کرب کا بھی اظہارہے جس نے انسانی زندگی کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر اُس کی شادابی کو چوس لیا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین شاعرہ ہی نہیں ایک محقق اورایک افسانہ نگار بھی ہیں ان کی کہانیوں کا مجموعہ’’کہانی‘‘ادبی دنیا

میں ایک اور منفرد اضافہ ہے۔وہ کالم نگار بھی ہیں اور ان کے کالم بہت پُر مغز اورنہ صرف نئے دور کے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کا حل بھی بتاتے ہیں۔اسی لیئے ان کی مضامین کی کتاب،دیدہء بینا ایک منفرد کتاب ہے۔روبینہ نازلی کی عالمی شہرت یافتہ کتاب علم الا انسان کے مطالعہ سے اس بات کا ثبوت فراہم ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ان کی عالمانہ سطح نہایت صاف و شفاف ہے جس سے گذر کر قاری حقائق کی تہہ تک با آسانی پہنچ جاتا ہے بلکہ ان کی صوفیانہ فکر بھی کافی بلند پرواز ہے جو قاری کو مذہب،تاریخ،تہذیب اور عمرانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنٹفک دنیاؤں کی سیر کراتی ہے۔نازلی کی معلومات بے حد وسیع اور ان کا جذبہ و احساس سیقل شدہ ہے۔ایک ایسے وقت میں جب کے نہ صرف پاکستان کا انسان اور معاشرہ منتشر خیالی کا شکار ہے،بلکہ عالمی سطح پر بھی انسان اپنا تشخص کھو تا جا رہاہے۔ان کی خداداد صلاحیتوں نے کمال دکھایا اور ان کی کتاب منظرِ عام پر آئی،جس کے مطالعے سے کوئی بھی انسان خود کو شناخت کرنے کی کوشش کر سکے گا۔یقیناً یہ کتاب(علم الانسان)روبینہ نازلی کو یونیفایڈ سائنس کی بنیاد گذار کا درجہ عطاء کرے گی۔انہوں نے اس کتاب میں جسم ،روح،قلب،دل،نفس،ضمیر،ہمزاد،اور اورا کے حوالے سے جومواد اور جو نظریات خوش اسلوبی سے پیش کیئے ہیں اور سائنٹفک انداز میں پیش کئیے ہیں وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ قابلِ قدر بھی ہے۔روبینہ نازلی خدادادصلاحیتوں کی حامل ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔اور ایسی منفرد شخصیات اب خال خال ہی ہیں۔

روبینہ نازلی کی تمام مطبوعہ کتابوں پر اوران کے مزیدمنفرد تخلیقی کام پرمیں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹرمحمد صدّیق نقوی،
محقق،مصنف،شاعر
ادونی۔آندھرا پردیش..انڈیا

ڈاکٹرمحمد صدیق نقوی
About the Author: ڈاکٹرمحمد صدیق نقوی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.