الرجی - دمہ

دنیا بھر میں انسان مختلف غذاؤں سے ایفیکٹیڈ ہیں کسی کو فروٹ اور سبزی سے اور کسی کو گوشت یا مچھلی تو کوئی پستہ ، بادام یا مونگ پھلی نہیں کھا سکتا کیوں کہ انہیں الرجی ہے ۔دنیا بھر میں سائینس دان اس کھوج میں ہیں کہ الرجی کے اسباب تلاش کیے جائیں اور تجربات سے قابو پانے کے بعد اس کا نتیجہ عام کیا جائے تاکہ لوگ اپنی من پسند غذا بغیر خوف و خطر استعمال کر سکیں۔

طبی محقیقین کا کہنا ہے کہ بچوں میں مونگ پھلی کی الرجی کا علاج انہیں اسی چیز کو کھلا کر کیا جا سکتا ہے ۔

جرمنی کے ڈاکٹرز نے کئی مہینوں تک مونگ پھلی کے سفوف کو بچوں کی غذا میں شامل کر کے ان کے جسم کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے ۔ ڈوکٹرز کے مطابق دنیا بھر میں مونگ پھلی اور بادام کے خلاف الرجی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے خاص طور سے ترقی یافتہ ممالک میں ہر پچاس میں سے کم از کم ایک بچے کو ڈرائی فروٹ اور خاص طور پر مونگ پھلی اور بادام سے الرجی ہے اور یہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے ۔ سائینس دانوں کا کہنا ہے کہ مونگ پھلی اور بادام کی الرجی خوراک کے سبب پیدا ہونے والی سب سے عام الرجی ہے ، ماہرین کے مطابق اس الرجی کے ردِ عمل سے بچنے کا کوئی اور راستہ نہیں سوائے اس کے ، کہ مونگ پھلی اور بادام کھانے سے پرہیز کیا جائے ۔ ڈوکٹر ز کا کہنا ہے کہ الرجی پیدا کرنے والے ماحولیاتی محرکات ، مثال کے طور پر پولِن الرجی وغیرہ کے خلاف انجیکشن بہت خطر ناک ثابت ہو سکتے ہیں ، الرجی کے شکار بچوں کو اکثر سانس کی تکلیف ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ دمے ( آستھما ) کا روپ دھار لیتی ہے۔

انگلینڈ میں کیمبرج کے ایڈن برگ ہو سپیٹل نے بچوں میں پائی جانے والی مونگ پھلی کی الرجی کا ایک کامیاب تجربہ کیا ، ڈوکٹرز نے سات سے سولہ سال تک کی عمر کے نناوے ایسے بچوں کے کھانوں میں جن میں مونگ پھلی اور بادام کی شدید الرجی پائی جاتی تھی دو ملی گرام مقدار میں مونگ پھلی اور بادام کا پاؤڈر یا سفوف شامل کیا اور اس مقدار کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے آٹھ ملی گرام تک کر دیا ۔ چھ ماہ تک اس عمل کو جاری رکھنے کے بعد ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان بچوں میں مونگ پھلی اور بادام کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا ہو گئی اور یہ بچے بغیر کسی ضمنی اثرات یا ردِ عمل کے مونگ پھلی کے پانچ دانے ایک وقت میں کھا سکتے ہیں ۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے اس تجربے سے ان بچوں کی زندگیوں میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے ، اس تجربے سے قبل یہ بچے مونگ پھلی کا ایک چھوٹا سا دانہ بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے ، ان کو مونگ پھلی کی الرجی سے ممکنہ حد تک بچانے کے لئے والدین کو بہت محتاط رہنا پڑتا تھا اور انہیں بچوں کی غذا کے لیبل کو بہت غور سے اور مسلسل پڑھنا پڑتا تھا ۔ ماہرین کی طرف سے بچوں پر یہ تجربہ انتہائی طبی نگرانی میں کیا گیا کہ کہیں ان پر ضمنی اثرات تو مرتب نہیں ہو رہے ۔ مونگ پھلی اور بادام کی الرجی کی عام ترین علامات منہ میں خارش ، معدے کا درد اور متلی ہوتی ہے ، ماہرین کی طرف سے اس تجربے کا مقصد یہ نہیں کہ بچوں کو بہت زیادہ مونگ پھلی کھانے کا حامل بنایا جائے بلکہ ری سرچرز کے مطابق اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ اگر مونگ پھلی کی الرجی کے شکار بچے غلطی سے مونگ پھلی کھا لیں تو اس کے مہلک رد عمل یا جان کو لاحق خطرات سے انہیں بچایا جا سکے ۔ ڈوکٹرز کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کے امیون سسٹم یا قوتِ مدافعت کو مضبوط بناتے ہوئے رفتہ رفتہ ان میں مونگ پھلی کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کی جاسکتی ہے ، تاہم اس طریقہِ علاج کو روٹین کے طبی استعمال میں لانے میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں ۔

دمے سے بچاؤ کے لئے ٹھنڈی اور کٹھی چیز سے پر ہیز کیا جائے خاص طور بچوں کو فریز ہوئی کوئی اشیا نہ دیں اور کوشش کی جائے کہ بچوں کو چوکلیٹ جس میں مونگ پھلی کا سفوف یا پاؤڈر شامل ہو قطعاً نہ دیا جائے یہ اشیا پہلے گلے میں خراش پیدا کرتی ہیں اور رفتہ رفتہ کھانسی ، ریشہ اور دمے کا باعث بنتی ہیں ۔
بچوں کو سموکنگ کے دھوئیں سے بچائیں ۔سیگریٹ کا دھواں بچوں کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246152 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.