انسان کوخطا کا پتلا یاپتیلا کہاجاتاہے، ہر انسان خوبیوں
اور خامیوں کا مرقّع ہے، فرق صرف اتنا ہے کسی انسان میں خوبیان وافر مقدار
میں پائی جاتی ہیں تو کسی میں خامیاں۔ کسی کی چھوٹی سی غلطی پر آسمان سر پر
اٹھانا اپنے آپ کو خامیوں سے مبرّا گردانناہے، بسااوقات سینئراپنے جونیئرکی
جس بات پر خوب کلاس لیتا ہے، مختصر عرصہ بعد اس سے خود وہی غلطی سرزد
ہوجاتی ہے۔
دوسروں پر انگلی اٹھانے سے قبل اپنی حقیقت سے صرف نظر نادانی ہے۔ بچپن کا
سبق بھلائے نہیں بھولتا۔ چھت پر کھڑے بچے نے اوپر دیکھنے والے عابدی کو
گالی سے نوازا ، عابدی نے اسے جواب میں پتھر رسید کیا، اس نے اپنے بڑے
بھائی سے شکایت کی ، بھائی نکلاتو عابدی نے قریب مارکیٹ میں واقع والد صاحب
کی دکان کی طرف دوڑ لگادی، سر پٹ دوڑتے ہوئے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا،ہانپتے
کانپتے والدمحترم کوماجرا سنایا، سن کر کہااس نے گالی تمہاری کسی حرکت پر
ہی دی ہوگی، تم نے دوغلطیاں کیں، پتھر مارا اور بھاگے، غلطی تمہاری نہیں تو
بھاگے کیوں، اتنے میں عابدی کاگال سرخ اور چودہ طبق روشن ہوگئے۔ اسی روشنی
کی برکت ہے کہ بچپن کا یہ سبق اپنی غلطی کی طرف دیکھنے اور اپنے گریبان میں
جھانکنے پر ابھارتاہے۔
انسان خواہ رتبے میں بڑا ہو یاچھوٹاخطا سے بھاگ نہیں سکتا۔ہشام کلبی بڑے
ذہین وفطین عالم تھے، ان کی ذہانت ضرب المثل تھی ، صرف تین دن میں پورا
قرآن سینے میں محفوظ کرڈالا،ان کے بارے میں آتاہے کہ داڑھی کے بال کاٹ رہے
تھے،طریقہ یہ ہے کہ سنت کے مطابق یک مشت داڑھی مٹھی کے نیچے سے کاٹی جاتی
ہے، انہوں نے مٹھی میں داڑھی کاٹنے کے لیے پکڑی اور نیچے کی بجائے اوپر
ہاتھ صاف کردیا، پوری داڑھی کٹ کر ہاتھ میں آگئی، لق دق حیران وپریشان۔حواس
بحال ہوئے تو کچھ یوں گویا ہوئےـ’’لفظ انسان ، نسیان سے لیا گیا ہے، نسیان
کے معنی بھول چوک کے آتے ہیں۔ تمام جہانوں کابادشاہ، حکماؤں کاحکیم،
عقلمندوں میں عقل وفراست تقسیم کرنے والی ذات اس نوع کے واقعات سے انسان کو
بتلاتی ہے کہ تو ترقی کے جتنے منازل بھی طے کرلے لیکن تیری حقیقت خطاکے
پتلے یاپتیلے کی ہے‘‘۔
ہمارے ایک کالم نگار ساتھی کاہردوسرا کالم کسی کے بخیے ادھیڑتانظر آتاہے
گویاسارے جہاں کی تنقید کاٹھیکا انہی نے اٹھارکھاہے۔ہم اپنے آپ کوبڑاتیس
مار خان سمجھتے ہیں، دھڑلے سے ایک طبقہ کے اکابر کے خلاف تیر برسانا شروع
کردیتے ہیں، ہماری رائے سے ایک بڑاطبقہ اتفاق کرلیتاہے، لیکن ہماری رائے سے
کوئی اختلاف کریں ہم چہ بجبیں ہوجاتے ہیں،ہم کسی کی رائے کو درخور
اعتنانہیں سمجھتے توپھر کیوں کر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہماری بات وحی سمجھی
جائے اوراس پر تنقید کفر اور گستاخی۔اگر غورسے دیکھاجائے تو دوسروں کی ٹوہ
میں لگنے والاتکبّروانانیت کامریض دکھائی دے گاجوبڑے شوق سے دوسروں کی طرف
انگلی اٹھاتا ہے یہ نہیں سوچتاکہ چار انگلیوں کارخ اس کی طرف ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں کاگریبان
پھاڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں، خود اپنی اصلاح تو بعید
دوسرابھی پیار سے توجہ دلائے تو بجاہے میرا فرمایاہواا ور ہمچومادیگرے نیست
کانعرہ لگاتے ہوئے اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ اس وقت تک اصلاح کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک ہم میں سے
ہر ایک اپنی غلطیوں کی طرف توجہ نہ کریں،خطاکے پتلے کی خطاکو معاف نہ کریں
تو یوں ہی ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہیں گے، ایک دوسرے کو ’’ایجنسی
کاآدمی‘‘ باور کراتے رہیں گے، غدار کا فتویٰ صادر کرتے رہیں گے، یوں معاشرے
میں مزید انتشاروخلفشار کاباعث بنتے رہیں گے۔
|