ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں ہر ایک فرد کو اپنے
مقررہ اختیارات حاصل ہیں نیز یہ اختیارات جمہوری آئین کے عطا کردہ ہیں لیکن
آسام میں رونما ہونے والے واقعات اس مذکورہ اصول سے یکسر متحارب اور منحرف
ہیں اور پھر بو ڈو دہشت گردی ا س امر پر مہر تصدیق ثبت کر تی ہے کہ
ہندوستانی جمہو ریت ایک شی محض اور ایک غیر فطری ڈرامہ ہے نیز یہ بھی بوجہ
تمام عیاں ہو تا ہے کہ حقیقت کسی دو سرے امر کی آئینہ دار ہے ۔ووٹ ڈالنا
ایک جمہو ری حق ہے اور اسی مقررہ حق کے باعث جسے چاہے جمہوری ملک کا باشندہ
اپنا ووٹ دے سکتا ہے او راپنی حمایت کے ذریعہ کسی امیدوار کی سیاسی قوت کو
مجتمع کر سکتا ہے اگر بات صرف ووٹ ڈالنے کی ہے تو یقین جانئے بو ڈو دہشت
گردوں کا یہ مکروہ اقدام جمہو ریت کی پشت میں خنجر زنی ہے اور اگر اس خط کی
وجہ سے بو ڈو دہشت گر دوں نے از سر نو 2012 کی داستان زار زار کی تجدید کی
ہے تو پھر اس کیلئے صو بائی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت بھی ذمہ دار ہے
کیو نکہ اگر اس دہشت گردی کے سدباب کے پیش نظر بو ڈو دہشت گردوں کا قلع قمع
کرکے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جاتی تو کو کراجھاراوردیگر علاقوں
میں اس طرح کے بہیمانہ واردات نہیں ہو تے اور یہ بھی ہرگز نہ ہو تا کہ بو
ڈو دہشت گرد آسام کے اضلاع میں دندناتے پھرتے ۔تما م تجزیاتی رپورٹس اس امر
کی تصویب و تائید کرتی ہے کہ سب سے زیادہ پر تشدد واقعات صوبہ آسام میں ہو
ئے ہیں توپھر حکومت کا فیصلہ کن اقدام سے گریزاں ہو نا کس امر کی دلالت ہے
؟ آخر ہم اس کو کیا تصورکریں ارباب اقتدار کی غفلت اور نااہلی یا پھر بو ڈو
دہشت گردو ں کا خو د ساختہ بہیمانہ طریقہ کا ر؟آسام ویسے تو ایک سر سبز
ریاست ہے او ریہاں تمام سہو لیات ہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہ
شادابی او رتما م طرح کے مراعات سے مسلمان محروم ہیں حکومتی مراعات کی
فراہمی خواہ جس شرح سے ہو وہ مبحث گفتگو نہیں ہے اصل مسئلہ جانو ں کے عدم
تحفظ کا ہے کہ اگر حکومت اپنے فرائض کے تئیں پابند عہد ہو تی تو ایک بار
پھر نصف شب میں دہشت گردی کا یہ المناک واقعہ پیش نہیں آتا آخر ہم کیسے اس
نا فہم قضیہ کو تسلیم کرلیں کہ آسام میں مسلمان محفوظ ہیں اگر مسلمانو ں کی
جان ومال کے تحفظ کو یقینی اور امر مسلم بنایا جاتا تو یقینا بو ڈو دہشت
گرد اپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تھے لیکن ستم شعاری تو
یہ ہے کہ حکومت باربارتسلی و تشفی دے رہی ہے مگر افسوس !حکومت کے جانب سے
واقع ہونے والی تسلی اور تشفی نقاہت اور لاغری سے مغلوب ہے اور اس لفظ میں
کو ئی ایسا عنصر پنہاں نہیں جو یہ ثابت کرے کہ حکومت کی تسلی مثبت او رخو ش
آئند پہلو کی غماز ہے۔ بو ڈو دہشت گردوں کے جو بھی مطالبات ہیں اگروہ جمہو
ری آئین کے موافق ہیں تو تسلیم کرلینے میں کو ئی حرج اور ضررنہیں لیکن اگر
ان کے مطالبات جمہو ریت کے منافی ہیں تو پھر حکومت وقت کیلئے لازمی ہے کہ
اس دہشت گردی اورجمہو ری منا فات کا مقابلہ کرے اور اس فتنہ کی سر کو بی
کرے کیو نکہ دن بدن بو ڈو دہشت گرد وں کے ارادے مضبوط ہو تے جارہے ہیں او
رستم ایجاد کے نئے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں۔لسانی تعصب کے باعث اقلیتو ں کی
نسل کشی کی جارہی ہے یا پھر کو ئی دو سرے مفادات ہیں جو ان کو شر انگیزی پر
آمادہ کررہے ہیں ؟بادی النظر میں تو حقیقتاًایک ہی نقطہ نظر آرہا ہے کہ وہ
دوسری زبان بو لتے ہیں لیکن2012 کے عام فسادات اور ان دنو ں واقع ہو نے
والی پر تشدد کاروائیوں سے یہی صاف او ربے غبار نظر آرہا ہے کہ لسانی تفریق
اپنی جگہ لیکن یہ تفریق بھی تسلیم کرنا ہو گی کہ مسلمان ہو نے کی وجہ سے
ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اورجن کو نشانہ بنایا گیا تھا ان کا نام محمد
،احمد ،عبداﷲ،کلیم ،آصف اور شاہد وغیرہم تھا۔بو ڈو دہشت گردکایہ الزام کہ
وہ بو ڈو لینڈ میں داخل ہو کر بو ڈو شناخت او رخو د ساختہ روایت و ثقافت
کیلئے خطرہ بن چکے تھے تو یہ کلیہ او رنکتہ سراسر سم قاتل ہے کشمیر سے کنیا
کماری تک خواہ مختلف تہذیب و ثقافت کے علمبردار ہو ں کو ئی کسی کو اپنی
تہذیب و ثقافت کیلئے خطرہ خیال نہیں کرسکتا نیز یہ بھی کہ کو ئی کسی پر
اپنی روایت تھونپ بھی نہیں سکتا تو پھر مسلمانو ں کی بو دو باش اور ان کی
آفاقی تہذیب کیونکر ان کی تہذیب کیلئے خطرہ بن گئی؟ او رپھر اس الزام کے
بمو جب مسلمانوں کے ساتھ قتل و غارت گری کس آئین کی رو سے درست ہے ؟پہلے
مذکو رہ الزامات عائدکرکے شیطنت اوربو الہوسی بپاکی جاتی تھی لیکن ا س بار
شاطر نے اپنی چال ہی بدل دی اوریہ کہہ کر نصف شب میں یو رش و یلغار کردی کہ
چندن بھرماکو ووٹ کیو ں نہیں دیئے آخر اس خیرہ مذاقی او ر ننگ ظرفی کی بھی
کو ئی وجہ ہے ؟یہ ہندوستان ہے او ریہاں جسے چاہے ووٹ دے کو ئی قید نہیں اگر
بو ڈو دہشت گردو ں کا یہ الزام ہے تو اس ذیل میں الیکشن کمیشن کو بھی
بیدارہو ناہو گا کہ ووٹ جبراًیا دیگر جمہو ریت شکن تدابیر کے ذریعہ حاصل
کئے جارہے ہیں او ریہ تدابیر نہ تو جمہو ریت کے موافق ہے او رنہ ہی الیکشن
کمیشن کے مقررہ ضابطہ اخلاق کے مساوی ہیں بو ڈو دہشت گرد ی بغرض تمام جیسا
کہ مترشح ہو تا ہے وہ یہ کہ یہاں نہ تو لسانی تعصب کارفرما ہے او رنہ ہی
ووٹ نہ دینے کا غم و غصہ اس بار بھی اور گذشتہ ایام میں بھی ا س وجہ یہ
شیطنت وجو د پذیر ہو ئی کہ وہ مسلمان تھے او ران کا خون اس بناء ارزاں ہو
گیا کہ وہ ’رحمن ‘کے ساجد او رعبادت گذار ہیں ’اہرمن‘ کے نہیں گرچہ مختلف
زبان بو لنے والے ہو تے ہیں لیکن جب صدائے لا الہ بلند ہو تی ہے تو ایک ہی
لب و لہجہ او رایک ہی زبان میں ’’اﷲ اکبر‘‘کہتے ہو ئے ایک ہی صف میں کھڑے
ہو جاتے ہیں ان کا خون ا سوجہ سے بہایا گیا کہ وہ مسلمان ہیں او رہندو ستان
کیا اقوام عالم میں بھی مسلمانوں کا خون ارزاں ہو گیا ہے ان کا جرم صرف
اتناہے کہ وہ مسلمان ہیں او ر ان کا لازوال رشتہ مقدس اسلام سے ابد تک
کیلئے استوار ہے مظفر نگر میں بھی اسی بنیاد اور لازوال رشتہ کے باعث خون
کی ہولی کھیلی گئی تھی اور شام و فلسطین افغان و پاک میں بھی اسی رشتہ کی و
جہ سے خو ن مسلم ارزاں ہے ۔
جشن جمہو ریت کی تمام تیاریاں تو پو ری کرلی گئی ہیں اور ملک کے باشندے اس
لمحہ کے منتظر ہیں کہ جب یہ اعلان کیا جائے گا کہ جمہو ریت کی فتح ہو ئی ہے
او رفرقہ پرستی ،ہندو تو ا او رمو دیتو ا کی شرمناک او رذلت آمیز شکست ہو
ئی لیکن اس اعلان سے کچھ ایام قبل یہ فعل بد انجام دینے کی پر زور کو شش کی
جارہی ہے کہ مسلم مخالف سمیات غیر مسلم کے دلو ں میں اس قدر انڈیل دیا جائے
کہ بھیانک خیز صو رتحال میں یہ عناصر اپنے بال و پر کھولے او راس کا لازمی
نتیجہ نہتے مسلمانو ں پر اثر انداز ہو ۔مو دی نے اپنی احمقانہ گفتگو میں
وہی کیا ہے ۲۷/اپریل کو مو دی نے پناہ گزیں بنگلہ دیشیو ں کو للکارتے ہو ئے
دھمکی دی کہ وہ ۱۶/مئی کے بعد اپنا بو ریابستر باندھ لیں گو یا مو دی کو ا
سکا مکمل یقین ہو گیا ہے کہ وہ ۱۶/مئی کے بعد ہندو ستان کی قسمت کا مالک ہو
گا او رتمام اختیارات ا سکے قبضہ میں ہو ں گے یہ قبل از وقت دماغی خلل او
رعقل کے غیر متو ازن ہو نے دلیل نہیں تو او رکیا ہے؟ اب ذرا ا س تلخ حقیقت
کی طرف نظر کریں کہ بو ڈو بھی اپنی دہشت گردی بنگلہ دیشیو ں کے ہی وجہ سے
قائم کیے ہو ئے ہیں او راسی مفروضہ کی وجہ سے آسام دم مسلم سے لا لہ زار ہے
تو وہیں مو دی بھی بنگلہ دیشیو ں کو ۱۶/ مئی کے بعدٹھکانے لگانے پر بضدہے
،بنگال کے پناہ گزیں بین الاقوامی معاہد ہ کے مطابق ہندو ستان میں بو دو
باش اختیا ر کئے ہو ئے ہیں لیکن ایک مو دی ہے جسے بین الا قوامی معاہد ہ کا
علم نہیں او رمزید طرہ یہ کہ خودکو ممکنہ وزیر اعظم کیلئے خیال کرتا ہے !دو
نو ں پہلو ایک ہی جیسے ہیں او ر باہم ایک دو سرے کے معاون و مددگاربھی ،بو
ڈو دہشت گر دوں کو ’’گجراتی دہشت گرد‘‘ کے ا س بیان سے مزید تقویت ملی ہے
کہ جسے ہم اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ واقعی بنگلہ دیشی ہیں او
رہمارے یہ افعال مکروہ نہیں بلکہ محبوب ہیں !بڑی حیرانی اور تاسف کا مقام
ہے کہ آخرش جو شخص بین الا قوامی معاہدو ں کا علم نہ رکھتا ہو تو وہ کیو
نکر ۶۰/سالہ قدیم جمہو ریت کے مندر کا ہبل اعظم ہو گا مزید طرہ یہ کہ راج
ناتھ سنگھ نے بھی یہ کہہ کر ا سکی تائید کی ہے کہ بنگلہ دیشی تارکین و طن
کے مسائل حکومت کے سب سے اہم ایجنڈو ں میں سے ہو نگے گو یا راج ناتھ سنگھ
نے بھی یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ۱۶/مئی کے بعد ملک کی تصویر مختلف ہو گی
۔الغرض لب لباب یہ ہے کہ آسامی مسلمانوں پر ظلم و تشدد او رتختہ مشق بنائے
جانے کا یہ مکروہ او رقبیح عمل مودی کے شر اندیشانہ بیا نات کا مظہر ہے او
ریہ صاف عیا ں ہو گیا کہ دو نو ں ایک ہی عنصر کے دو مختلف شکلیں ہیں او ردو
نو ں کا رشتہ باہمی امتزاج کا ایک بت عریاں ہے۔
آسام ہو یا پھر کو ئی دو سراعلاقہ آخر مسلمانو ں کو ہی کیو ں ایجادستم
کیلئے اپنی تجرہ گاہ تصو رکیا جاتا ہے ؟کیا مسلمان اس قدر حس و شعو رسے
عاری ہوچکے ہیں کہ زخم مسلسل بھی درد کا احساس نہیں دلا سکتا اور کیا یہ
نہتے مسلمانوں کی تخلیق اسی وجہ سے ہوئی ہے کہ ان کو کرب پیہم پہو نچایا
جائے او رصو رتحال اس قدر الم انگیز ہو کہ کو ئی دلا سا دینے والا بھی نہ
ہو۔ حکومت مسلمانوں کے تحفظ کے تئیں پابند عہد ہے تو پھر ا س ذیل میں پید
اشدہ اشکالات کی بابت فیصلہ کن اقدام سے گریز پاکیو ں ہے ؟گـو گو ئی حکومت
ہو یا پھر مرکزی حکومت ان کیلئے لازمی ہے کہ بو ڈو دہشت گرد،الفا او ر دیگر
دہشت گردوں کیخلاف ایسی محاذ آرائی کی جائے کہ پھر دو بارہ سر نہ ابھارے
اور رہی سہی جو جمہو ری رمق ہے وہ بحال رہے لیکن ایسا باربار کیو ں ہو تا
ہے کہ حکومت وعدے اور تسلیاں دیتی ہے لیکن بو ڈو دہشت گرد حکومت کے اعلانات
کو خاطر میں لاتے ہی نہیں گو یا اس وسیع و عریض ہندو ستان میں ایک ایسا بھی
خطہ ہے جو حکومتی دسترس سے خارج ہے او رحکومت صرف کف افسوس ملنے پر ہی
اکتفا کرتی ہے ۔ |