ہاں ہم فوج کے ساتھ ہیں

کتنے اچھے ہوتے ہیں وہ لوگ جو جس کا کھاتے ہیں بلند آہنگ سے اسی کے گیت گاتے ہیں۔ آقائے ولی نعمت کی طرف پشت نہیں کرتے اور اس کے بلند اقبال کے لئے منہ کھول کے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کے دعائیں کرتے ہیں۔ کتا بھی اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔اس کا کھاتا ہے اور اسی کے در اقدس پہ لوٹنیاں لگاتا ہے۔مالک بھلے ہیجڑہ یا طوائف ہی کیوں نہ ہو۔ محنتانہ یا مزدوری اور چیز ہے اور مستحسن بھی کہ اﷲ کریم کے محبوب ﷺ نے مزدور کو اﷲ کا دوست قرار دیا ہے لیکن غلامی! یہ دوسری چیز ہے۔پیسے اور مراعات کے لئے اپنی روح کسی کے ہاتھ گروی رکھنا مشکل کام ہے اور یہ انہی کا کام ہے جن کی کمینگی ہے زیاد۔جن کا ضمیر زندہ ہے وہ حق کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔جن کا پیٹ ہی زندہ رہ گیا ہو انہیں روٹی میں رب دکھتا ہے اور بس۔اس کا لیکن کیا کیا جائے کہ جن کی تربیت ہی مداری کے بندر کی طرح ہو ان سے آزادی کی توقع عبث ہے۔ ان سے ضمیر کی بات کرنا بھی شاید بے ضمیری ہے۔جن کے خون میں بے وفائی ہو،چاپلوسی ہو خوشامد ہو ان سے جذبہ حریت کا مطالبہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیل کے گھونسلے میں ماس تلاش کرے۔

میرے قارئین حیران ہوں گے کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں تو تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ کل ایک معاصر میں ایک بالکے نے اپنے پرکھوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ان صحافیوں اور اینکرز پہ زبانِ طعن دراز کی ہے جو فوج کے ساتھ ہیں۔ہاں میں فوج کے ساتھ ہوں اور اس کی حرمت اور تقدس کے لئے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا۔اس لئے نہیں کہ فوج زور آور ہے۔میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے کتنا خلاف ہوں۔ میں نے ایک سابق فوجی ہوتے ہوئے بھی آج تک کبھی ایوب یحییٰ ضیاء اور مشرف کی کبھی تحسین نہیں کی۔ میں اپنے کالموں میں اکثر ضیاء کو اس ملک میں گلے کاٹتے اسلام کا ذمہ دار مانتا ہوں۔میں مشرف کی ماڈریشن کو علت کہتا رہا ہوں۔لیکن فوج میرے نزدیک اس لئے محترم ہے کہ یہ میرے وطن کی فوج ہے۔اس وطن کی جہاں سے میرے آقا و مولا ﷺ کو ٹھنڈی ہوائیں آیا کرتی تھیں۔اسی نے وہ معرکے لڑنے ہیں جن کی پیشگوئی کی گئی ہے۔

ہاں میں آئی ایس کے ساتھ ہوں۔اس لئے کہ یہ وطن کے دشمنوں کی ہر حرکت پہ کڑی نظر رکھتی ہے۔یہ ان سارے بد معاشوں کی بھی نگران ہے جو پیسہ لے کے اپنے ہی وطن کی لٹیا ڈبونے کے چکر میں رہتے ہیں۔یہ ملک دشمنوں کی دشمن ہے اس لئے میں اسے دوست رکھتا ہوں۔دنیا میں پاکستان شاید واحد ملک ہے کہ لوگ اس کا کھاتے بھی ہیں اور اس پہ غراتے بھی ہیں۔ خوشامد کے بل بوتے پہ مسجد کی سیڑھیوں سے اٹھ کے اسی پاکستان کے سفیر بن جانے والوں کی اولاد آج اسی پاکستان پہ طعنہ زن ہے تو خامشی کفر ہے۔ہاں ہم فوج اور آئی ایس آئی کے پشتیبان ہیں ان کروڑوں لوگوں کی طرح جنہوں نے پچھلے دو ہفتوں میں ملک دشمنوں پہ اتنی لعنت بھیجی ہے کہ ان کے لئے سر اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔اب وہ اپنے ہی اخبار میں پیمرا کے سامنے پاک افواج کی عظمت کے گن گانے لگے ہیں اور اندر کے صفحات میں ان کے ٹٹ پونجئیے ابھی تک فوج اور اس کے چاہنے والوں کو گالیاں دے رہے ہیں۔انہیں آخر پٹے کیوں نہیں ڈالے جاتے۔جیسے یہ مالک کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں ان کا گمان ہے کہ ساری بستی کی بستی انہی کی طرح راتب ملنے پہ آواز بلند کرتی ہے۔یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ان کا پیٹ بھرتا ہے تو آواز بلند ہوتی ہے اسی طرح باقی لوگوں کے ساتھ بھی معاملہ ہو گا تو یہ بالکے سن رکھیں کہ ایسا نہیں ہے۔ضمیر نام کی بھی ایک چیز ہوتی ہے بے ضمیری کی منڈی میں جس کا گذر نہیں۔ہم میں اورآپ میں یہی فرق ہے کہ آپ آقاؤں کے لئے لکھتے ہیں اور ہم بھائیوں کے لئے۔ فوجی ہمارے آقا نہیں۔ہم ان سے سوائے ان کی جانوں کے اور کچھ طلب نہیں کرتے۔وہ بھی جانیں لٹانے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔انہوں نے مادر وطن کی مانگ بھرنے کے لئے اتنا خون دیا ہے کہ اب اس خون کی لالی سوائے منافقوں اور دلالوں کے ہر چہرے پہ نظر آنے لگی ہے۔اس کے مقابلے میں آپ ہمیں فوج کے اشاروں پہ ناچنے والی پتلیاں کہیں گے تو آپ کو بہت کچھ سننا بھی پڑے گا۔

آپ جن کی ہمدردری میں مرے جاتے ہیں ان کی تو تاریخ ہی یہ ہے کہ ان کے پرکھوں نے بھی ہمیشہ اقتدار کی گود میں بیٹھ کے موج اڑائی۔مرغان باد نما کی اصطلاح شاید انہی کے لئے ایجاد ہوئی۔جہیڑا جتے اوھدے نال کا فقرہ بھی پاکستانیوں نے شاید انہی کے لئے کہاتھا۔ اب یہ اپنے آپ کو گینگسٹر بنا کے پیش کر رہے ہیں لیکن یہ ہیں ایسے نہیں۔ ہم ان کا کچا چٹھہ خوب جانتے ہیں۔ پہلے یہ خوشامد کر کے مال بٹورتے تھے اب یہ بد معاشی سے کام نکالنا چاہتے ہیں تو بھائی خود ہی انصاف کریں کہ ہم گلی کے ٹنڈے کے ساتھ کھڑے ہوں،ملک کو بیچنے والوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔دلالوں کے ساتھ کھڑے ہوں یا ان کے ساتھ جو صبح و مسا اس دھرتی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ہاں ہم فوج کے ساتھ ہیں۔ہاں ہم فوج کے پٹھو بھی ہیں ہاں ہم فوج اور آئی ایس آئی سے معاوضہ بھی لیتے ہیں لیکن یہ معاوضہ بھارت سے نہیں آتا۔ ہم تو ان سے ان کی جان لیتے ہیں۔ان کی ملک کے لئے وفاداری ہمیں ان کا پٹھو بناتی ہے۔ہمیں ہر الزام قبول لیکن ہماری وفاداری فوج اور آئی ایس آئی کے ساتھ اس لئے ہے کہ یہ ہمارے ملک کے ادارے ہیں۔یہ پاکستان کے ادارے ہیں۔ان کی محبتیں اور محنتیں پاکستان کے لئے ہیں۔

ہم فوج کے سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ فوج اپنا کام چھوڑ کے ملکی معاملات سنبھال لے۔جب تک فوج یہ کر رہی تھی آپ کا ادارہ تو فوج کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑا تھا۔ جب سے فوج نے اپنے آپ کو ان معاملات سے علیحدہ کیا ہے آپ کے لوگ لٹھ لے کے اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔نہیں ! اب ہم آپ کو ایسا کرنے نہیں دیں گے۔آپ نے زیادہ پاؤں پسارے تو آپ کے خون کے ایک ایک قطرے کا کہ وہ کن وسائل سے پیدا ہوا کچا چٹھا بیان کریں گے۔آپ ہمیں فوج کے پٹھو ہونے کا طعنہ دے کے اپنے بھائیوں کی مدد سے نہیں روک سکتے۔پٹھو تو آپ بھی ہیں۔دلالی تو آپ کے ہاں بھی ہوتی ہے۔ذرا سوچئے کون کاز کا پٹھو ہے اور کون راتب کا۔سنو
گدی سے نکل آئیں گی طرار زبانیں
گر ہم نے سر عام صداقت کو پکارا
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268740 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More