لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ایک بار پھر اپنا آپ دیکھا رہا ہے
شہروں میں دس سے بارہ اور دیہاتوں میں بارہ سے سولہ گھنٹے کی طویل اور غیر
اعلانیہ لوڈ شیدنگ سے لوگوں کے کاروبار متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو
بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کونسی و
جوہات ہیں جس کی وجہ سے حکومت لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرنے میں ناکام ہے
باوجود اس کے کہ حکومت نے گردشی قرضے کو ختم کر دیا ہے تمام واجبات جو کہ
مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے بقایا تھے وہ وہ وصول کر لئے گئے
ہیں بجلی چوروں کے خلاف کاروائیاں کی گئی کئی بڑئے لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ریگولائز کیا گیا پورے ملک میں مفت انرجی
سیور تقسیم کئے گئے لیکن لوڈشیدنگ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں رہی اور
ایک عذاب مسلسل کی طرح پاکستانی قوم پر مسلط ہے یہ بات بہت اہم تھی کہ
حکومت نے آتے ہی گردشی قرضوں کو لوڈشیدنگ کی سب سے بڑی وجہ جانتے ہوئے تمام
گردشی قرضہ ادا کرنے کا جو اقدام کیا وہ اچھا اقدام تھا مگر تب سے لیکر آج
تک یہ گردشی قرضہ ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے اور اگر اس کا کوئی حل نہ
نکالا گیا تو ایک بار پھر یہ اسی سٹیج پر پہنچ جائے گا جہاں سے اسے واپس
کیا گیا تھا لوڈ شیڈنگ کی بڑی وجہ یہ گردشی قرضہ ہے جو ہر روز ایک ارب روپے
کے حساب سے بڑھ رہا ہے اور اس کی اثرات معیشت اور عوام پر یکساں طور نظر آ
رہے ہیں جس سے وزارت خزانہ بھی پریشان ہے اور حکومت بھی موجودہ حکومت کو
اقتدار سنبھالے ایک سال ہو چکا ہے تاہم اب تک صرف منصوبوں کی افتتاح کی
خبریں ہی نظر آئی ہیں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے گزشتہ تقریباً 13
برسوں میں کسی بھی حکومت نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جس کے نتیجے میں
عوام کو سابقہ برسوں کی طرح ان دنوں میں لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
جس کے اثرات عوام کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت پر بھی پڑ رہے ہیں جس کی وجہ
سے حکومت کے وہ وعدے جھوٹے ہو رہے ہیں جو الیکشنوں کے دنوں میں انھوں نے
عوام سے کیے تھے موجودہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ملک کو ان مسائل سے نجات
دلانے کے لئے اقدامات اٹھائیں گے اور خاص طور پر ملک میں بجلی کی کمی کو
پورا کرنے میں کوئی کسر آٹھا نہیں رکھیں گے بعض سیاست دان تو ان مسئلے کو
چھ ماہ میں حل کرنے کے دعوئے کرتے نظر آ رہے تھے اس وقت جو صور حال ہے اس
کو دیکھتے ہوئے بلکل نہیں لگتا کہ حکومت شاید اس ٹرم میں اس بحران کو قابو
کر سکتی ہے۔ ملک میں توانائی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کے
اقدامات کے علاوہ صارفین کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا
کیونکہ ہر شہری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مسائل کے حل کے لیے اپنی ذمہ داری
پوری کرے ہمارے ہاں تاجر اور بڑے تجارتی ادارے حکومت کی اس تجویز پر کان
دھرنے پر تیار نہیں کہ شام پڑتے ہی دکانیں اور بازار وغیرہ بند کر دیئے
جائیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے کاروبار پر منفی اثرات
مرتب ہوں گے ایسے موقع پر اگر حکومت سختی کا مظاہرہ کرتی ہے تو کچھ سیاسی
جماعتیں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے ان تاجر تنظیموں کے ساتھ کھڑی نظر آتی
ہیں جس کی وجہ سے حکومت ایسا کرنے سے بھی کترا رہی ہے بیرونی دنیا میں اگر
دیکھا جائے تو بہت سے ممالک میں غروب آفتاب کے بعد دوکانیں اور شاپنگ مال
بند ہو جاتے ہیں تاہم ہمارے یہاں ضد کا رویہ کار فرما ہے حالانکہ ہمیں
توانائی کے جس بحران کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ دن کی روشنی کا زیادہ
سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ دکانیں صبح نو بجے کھول کر شام چھ بجے بند کر
دی جائیں اس طرح کم از کم ایک ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہو سکے گی حکومت اس
سلسلے میں انجمن تاجران کے نمائندوں سے مذاکرات کر کے مارکیٹوں کے اوقات
اپنی ضرورت کے مطابق طے کرے تاکہ ملک میں اس بحران سے ہونے والا نقصان کم
کیا جا سکے۔ اسی طرح شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر بھی لائٹنگ کے لیے بجلی
کابے جاستعمال بند کیا جائے تا کہ غیر ضروری طور پر بھی بجلی ضائع نہ ہو
حکومت بجلی چوری کو روکنے کے لیے مہم کو مزید تیز کرے اور مؤثر بنائے اور ا
س میں کسی بھی سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر کام کرئے اور بڑے لوگوں پر
بھی ہاتھ ڈالے تاکہ یہ بحران کم ہو سکے صارفین بھی بجلی کی الیکٹرونکس
اشیاء کا استعمال کم کریں تا کہ انہیں اور صنعتوں کو مسلسل بجلی مل سکے اگر
باریک بینی سے دیکھا جائے تو لوڈشیڈنگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے مگر نالائق
لوگوں کی نالائقیوں کی وجہ سے یہ اتنا بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے محکمہ واپڈا
میں اور بجلی کی بڑ ی کمپنیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر کڑی نظر رکھی جائے
اس بارے میں یقینا ہر پاکستانی کے ساتھ حکومت کو بھی تشویش ہے مگر یہ مسئلہ
تب ہی حل ہو سکتا ہے جب حکومت اس کے خاتمے کے لئے نمائشی نہیں بلکہ عملی
اقدامات اٹھاتے ہوئے اس مسئلے کے حل کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرئے
توانائی کے نئے منصوبے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو پایہ تکمیل تک بھی
پہنچایا جائے حکومت کو چاہیے کہ اس موقع پر اپنی کارکردگی سے اس مسئلے کا
بہتر حل نکالے اور عوام کو صبر کرنے کا کہنے کے بجائے بجلی مہیا کر کے اپنا
ووٹ بینک بہتر کرئے دوسری صورت میں حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ سابق دونوں
حکومتوں کی کارکردگی میں سب سے بڑے سوالیہ نشان کے طور پر یہی لوڈ شیڈنگ
تھی جس نے ان کو اقتدار کے ایوانوں سے باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا
۔ |