لیجیے صاحب ایک اور دھرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے! اب کیا ہو
گا اب کیا ہو گا؟ دھرنا ہو گا دھرنا ہو گا!! سننے میں آیا ہے کہ اس مرتبہ
دھرنے والی سرکار اسلام آباد اور کنٹینر والے پیر صاحب انتخابات میں
دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے راولپنڈی پہنچیں گے۔
اسلام آباد کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا ہے دھرنے دینے والوں کو۔ مری کے پہاڑوں
سے اترتی مسحور کن ہوائیں، خوبصورت ماحول، دلفریب چہرے اور جوشیلے نوجوان
جن کا ہوش سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ۔
It's Party Time for PTI Youth and Workers-
یہاں پاکستان تحریکِ انصاف کی دھرنا پارٹی خان صاحب کی قیادت میں اسلام
آباد میں چل رہی ہو گی اُدھر ساتھ ہی راولپنڈی میں پاکستان عوامی تحریک کے
علامہ طاہرالقادری اپنی پارٹی کی پارٹی کو لیڈ کر رہے ہوں گے۔ پتا نہیں
کینیڈا بیٹھے بیٹھے اچانک پاکستان سے اتنی محبت کی کیا ہوک اٹھتی ہے کہ یہ
صاحب اپنا کاروبار چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کا نظام ٹھیک کرنے آن دھمکتے ہیں۔
ویسے ان کا یہ دھرنا بھی اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کنٹینر والا دھرنا تھا
یا شاید اس سے بھی بڑھ کر! ملاحظہ کیجیے کہ ایک ایسی جماعت جس نے 2013 کے
عام انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اور انتخابات کا بائیکاٹ کیے رکھا آج
انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہے! کمال نہیں ہے؟ جب مینڈیٹ
ملا ہی نہیں تو چوری کیسے ہو گیا؟
اس نظام پر تنقید وہ کرے جو اس نظام کا حصہ بنا اور اس نظام کا مقابلہ کیا!
مذہب بیچ کر ڈالر کمانے والوں کو نظام میں خلل ڈالنے کو کوئی حق حاصل نہیں
!یوں بھی انقلاب کے داعی علامہ صاحب اپنے آپ کو شاید امام خمینی کا کلون
سمجھتے ہیں ۔ لیکن ان کے لئے یہ بھی سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ نہ پاکستان
ایران ہے اور نہ ہی پاکستان کی اکثریتی عوام کسی خونی انقلاب کی خواہاں ہے
اور وہ بھی کسی ایسے کینیڈین پلٹ پیر کے ہاتھوں جو شدید سردی میں خود گرم
کنٹینر میں بیٹھ کر انقلاب کے نعرے مارے اور اس کے سادہ لوح مرید ٹھٹھرتی
سردی اور بارش میں اپنے شیر خوار بچے گودوں میں اٹھائے پیر صاحب کی کرامات
کے منتظر رہیں۔ پیر عام مریدین کی زندگی میں بہتری نہیں لا سکتا ہاں البتہ
مریدین پیر کی زندگی جنت ضرور بنا دیتے ہیں!
پاکستان تحریک انصاف کی 11 مئی کی پارٹی معاف کیجیے گا 11 مئی کے دھرنے کا
منطقی انجام اس جماعت کے دیگر دھرنوں جیسا ہی ہونا چاہیے۔ نیٹو سپلائی کے
خلاف دھرنوں کا انجام یا نتائج سب کے سامنے ہیں۔ کیونکہ پاکستان تحریکِ
انصاف سیاسی شعور کے حساب سے نابالغ ہے اور خان صاحب سمیت اس کے کارکنان
انتہائی جذباتی اور اس ذہنی بیماری کا شکار ہیں کہ جماعت کے قائد اور اس کے
کارکنان سے زیادہ نیک نیت اور محب وطن پاکستانی کرہ ارض پر موجود نہیں تو
چلیے اگر ایک لمحے کے لئے اس جماعت کو پاکستان کی حب الوطن ترین جماعت مان
بھی لیا جائے تو پھر پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا اپنی ہی صوبائی حکومت کے
خلاف پولیو کو قابو کرنے میں ناکامی پر پشاور میں کیا جانا چاہیے۔ ایک
دھرنا دہشت گردوں کی بھرپور سیاسی حمایت کرنے کے خلاف فاٹا وزیرستان میں
ہونا چاہیے۔ صوبائی محکموں میں کرپشن کے خلاف دھرنا ہونا چاہیے۔ این جی اوز
کے ڈالروں پر چلنے والے صوبے کے حکمرانوں کے خلاف دھرنا ہونا چاہیے۔صوبے کی
ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک بچی کچھی معیشت کو تباہ کر دینے کے خلاف بھی
دھرنا ہونا چاہیے۔ 90 دن میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے وعدے کو پوا
نہ کر دینے کے خلاف دھرنا ہونا چاہیے۔ اپنی حکومت کی ایک سالہ دلسوز صوبائی
کاکردگی کے خلاف بھی ایک دھرنا ضرور ہونا چاہیے۔ اپنے منشور کو عملی جامہ
پہنانے میں مکمل ناکامی کے خلاف بھی دھرنا ضروری ہے!!! فہرست طویل ہے۔ حب
الوطن ترین جماعت روز اپنے خلاف اپنے صوبے میں ایک دھرنا بھی دے تو پورا
سال پارٹی شارٹی میں نکل جائے گا۔ خوب گزرے گی پاکستان تحریکِ انصاف کے
نوجوانان کی۔ خوب ناچ گانا ہو گا۔ خوب جوڑے بنیں گے۔ سیاست کی سیاست،
دھرنوں کے دھرنے، محبتوں کی محبتیں!حضرت! نظام دھرنوں سے نہیں ایوان میں
قانون سازی سے درست کیا جاتا ہے، عقل و شعور کے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں،
مسلسل کوشش کی جاتی ہے۔پارلیمنٹ میں موجود پاکستان کی تیسری بڑی جماعت کو
یہ بات سمجھنے میں زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہیے پر سیاست کو کرکٹ کا میچ
سمجھ کر کھیلنے والوں کے اندر یا تو صبر کی کمی ہے یا پھر شعور و دانش کی ۔
خان صاحب کی جماعت معاملہ فہمی میں کم اور سیاسی طور پر نابالغ ہونے کے
ساتھ ساتھ غیر ذمہ دارانہ پر تشدد رویہ اپنانے کا ٹریک ریکارڈ بھی رکھتی
ہے! نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنا دھرنے سے بڑھ کر تشدد میں تبدیل ہو گیا تھا۔
جہاں محب الوطن ترین جماعت کے کارکنان قانون کے علاوہ ڈنڈے ہاتھ میں لے کر
ٹرک ڈرائیور حضرات کو بزورِ بازو روکنے چل پڑے اور کئی بے چارے ڈرائیور
حضرات ان کی حب الوطنی کا کافی شدت سے شکار ہوئے تھے۔
حب الوطنی کے فوبیا کا شکار جماعت اگر اپنے گریبان میں جھانک لے تو نہ صرف
دیگر شہروں و صوبوں کا امن و سکون برباد ہونے سے بچ جائے گا بلکہ پاکستان
کا سیاسی نظام جو دہائیوں کی محنت ، قربانیوں اور ملک دو لخت ہونے کے بعد
کسی لنگڑی لولی حالت میں چلنا شروع ہوا ہے اس پر مزید کسی وار کا اندیشہ
بھی پیدا نہیں ہوگا۔
1977کے عام انتخابات کے بعد بھٹو حکومت کے خلاف دھاندلی کے الزامات لگائے
گئے اور پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا۔ اس اتحاد کی جانب سے تمام بڑے
شہروں میں حکومت کے خلاف دھاندلی کے الزامات لگا کر مظاہرے شروع کیے گیے۔
پاکستان قومی اتحاد نے مظاہروں کو زور دینے کے مقصد سے مساجد اور مدرسوں کو
بھی نظامِ مصطفی کے نفاذ کے نام پر شامل کر لیا۔مظاہرے پرتشدد ہوتے گئے اور
نتیجہ جنرل ضیاء الحق کی صورت میں پاکستان نے 1988 تک بھگتا۔ اب پاکستان
قومی اتحاد بذاتِ خود کھڑا ہوا یا کھڑا کیا گیا پھر حالات خراب ہوئے یا
کرائے گئے میں متضاد رائے موجود ہے پر اُن تمام حالات کی بنیاد حکومت کے
خلاف الیکشن میں دھاندلی کے الزامات ہی بنے۔ حکومت کا تختہ الٹانے کے بعد
فوجی حکومت کی جانب سے الیکشن سیل بنا جس نے سیاستدانوں سے سیاسی حالات اور
فوج کے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق رائے جانی۔ وہ تمام سیاستدان جو
سیاسی و جمہوری طریقہ سے شاید کبھی وزیرِ اعظم کے عہدے تک نہیں پہنچ سکتے
تھے اُس الیکشن سیل میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد سیاسی جماعتوں کو متحد
کرنے اور فوج کے ماتحت ملک چلانے کے لئے اپنی گراں قدر خدمات فراہم کرنے پر
مکمل آمادہ تھے۔
اب خان صاحب اور علامہ صاحب کو کھڑا کیا گیا ہے یا خود سے کھڑے ہوئے ہیں!
بات سیاسی نظام پر ہی آتی ہے۔ بہرحال بدترین جمہوریت عمدہ ترین آمریت سے ہر
حال میں بہتر ہے!!
|