حکمران طبقہ امریکی اور آئی ایم ایف ایجنڈے اور صرف اپنے
سرمایہ دار طبقے کو نوازنے کیلئے نجکاری کر نا چاہتے ہیں تاکہ قومی ادارے
بیچ کر الیکشن میں ان کیلئے پیسہ خرچ کرنے والوں کو خوش کیا جا سکے اگر سر
مایہ دار حکمران قومی اداروں کو بیچنے سے باز نہ آئے انہوں محنت کشوں سے
جنگ کا سامنا کرنا پڑے گاعوام کو معیشت کی بھول بھلیوں میں دھکیلنے والے سر
مایہ دار حکمران گردشی قر ضی کی مسلسل رٹ لگا ئے رکھتے ہیں انہوں نے آتے ہی
گردشی قرضے کے پانچ سو ارب ادا کرنے کاکارنامہ قوم کو سنایا کہ اب لوڈشیڈنگ
مسئلہ حل ہو جائیگا مگر لوڈشیڈنگ کا عذاب تو نہ ٹل سکا البتہ مہنگائی کا نہ
تھمنے والا عذاب نازل ہوا بلکہ ڈالر کو پر لگ گئے اور روپیہ در بدر ہو گیا
اور حکمران مالا مال ہوگئے الیکشن سے پہلے نوازشریف اور شہباز شریف لوڈ
شیڈنگ ختم کرنے بڑے بڑے دعوے کئے شہباز شریف نے گذشتہ دور میں لوڈ شیڈنگ کے
خلاف مینار پا کستان میں احتجاجی کیمپ بھی لگائے مگر اب اپنی حکومت کے خلاف
بھی کرے گردشی قر ضوں کی ادائیگی سے نہ صرف حکمران بلکہ ان کے تمام چمچے اس
سے فیض یاب ہو تے ہیں اس سال لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کا بڑا عجیب بھونڈا طریقہ
اپنا یا جا رہا ہے جس علاقے میں آمدنی کم ہو گی وہاں لوڈشیڈنگ زیادہ اور
آمدنی والے علاقے میں لوڈشیڈنگ کم یعنی اے سی چلا نے والوں کیلئے کم لوڈ
شیڈنگ اور پنکھے اور بلب والے غریبوں کے لئے لوڈ شیڈنگ کا عذاب اگر حکمران
بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر نا چاہیں تو ایک دن میں ختم ہو سکتی ہے تمام آئی
پی پیز کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا
جائے اس سے نہ صرف بجلی سستی ہو گی بلکہ لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو جائیگی اور
صنعتوں کا رکا ہوا پہیہ بھی چل پڑے گا مگر دولت کی ہوس میں اندھے حکمران جن
کے ذاتی بینک اکاؤنٹ بیرونی ممالک میں ہیں یہ بڑی جلدی میں اونے پو نے قومی
ادارے بیچ کر لوٹ مار کر بھا گنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اسی وجہ سے
سرمایہ دار حکمران اور آئی ایم ایف کے پاس ڈوبتی معیشت کو سہارا صرف نجکاری
ہے اور اسی کے ذریعے ملکی خزانہ بھرا جا سکتاہے یہ ایسے ہی ہے جب کسی
منشیات کے عادی کی تمام جمع پونجی نشے کی نظر ہو جائے تو وہ گھر کے برتن
بیچ کر نشے کی ضرورت پوری کرتاہے یہ حکمران اپنے نفع کا نشہ اسی طرح پورا
کرنا چاہتے ہیں انہی حکمرانوں نے آتے ہی پینسٹھ قومی اثاثوں کو ملک کے
خسارے اور معاشی بدحالی کو ختم کرنے کی غرض سے بیچنے کا منصوبہ بنایا جنوری
کے اجلاس میں اکتیس قومی اداروں کو پہلی قسط میں بیچنے کا ارادا کر چکے ہیں
جن میں پی آئی اے ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس اور نیشنل پاور کمپنی کو فور طور
بیچنے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں اگر ہم حکمرانوں سیاستدانوں اور میڈیا کے
پروپگینڈوں کا جائزہ لیں تو گذشتہ کئی سالوں سے مہم چلائی جارہی ہے
نیشنلائزیشن کی ناکامی خساروں بدعنوانیوں کے بے شمار واقعات ایک مخصوص نقطہ
نظر سے دکھایا گیا کہ مزدور کام چور ہیں یہ کام نہیں کرتے ان کی وجہ سے
تمام قومی ادارے نقصان میں چلے گئے ہیں انہوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ان
قومی اداروں کو محنت کشوں نہیں بلکہ ان کے حواریوں نے لوٹا اور وہ انہی کے
خزانے بھرتے رہے انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ سرکاری اداروں کے ٹھیکوں سے
لیکر بھرتیوں تک تمام فیصلے مزدوروں نے نہیں بلکہ خود انہوں نے کئے
حکمرانوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسٹیل ملز پی آئی اے ریلوے واپڈا جیسے
ادارے سینکڑوں ارب کا خسارہ ریاست پر ڈال رہے ہیں حالا نکہ جتنے ادارے شارٹ
لسٹڈ کئے گئے ہیں ان میں کئی ادارے منافع میں چل رہے ہیں مثلا تیل اور گیس
کی ترقیاتی کمپنی اوڈی جی سی ایل وغیرہ ا حکمران طبقہ اپنے سرمایہ دار پیٹی
بھائیوں اور میاں منشا جیسے حواریوں کو نوازنہ چاہتے ہیں اس کے واضع فرق ہر
ذیشعور محنت کش پا کستانی کو نظر آئینگے صرف ہم ٹیکس کے شعبہ کو دیکھیں تو
ایک طبقاتی خلیج واضع نظر آتی ہے بالواسطہ ٹیکسز کے ذریعے عوام کی رہی سہی
جمع پو نجی لوٹی جارہی ہے اور صرف کڑوی گو لی عوام کو کھلائی جارہی ہے جبکہ
دولت مند افراد پرٹیکس نہ ہو نے کے برابر ہے جو سرمایہ دار پر ٹیکس لگتا ہے
وہ آگے صارف پر ڈال کر خود کو بچا لیتا ہے اسی طرح این ایل سی فوجی
فاؤنڈیشن سی ایس ڈی جیسے منافع بخش اداروں پر کو ئی ٹیکس نہیں ایک اندازے
کے مطابق ایسے بہت سے اداروں کو انکم ٹیکس سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی مد
میں سالا نہ کئی سو ارب کی چھوٹ دی جاتی ہے صرف ان ٹیکسوں کی وصولی کی مد
میں جی ڈی پی ایک فیصد سے زیادہ بڑھ سکتا ہے اسی طرح وہ آئی پی پیز جنہوں
نے پورے ملک کی عوام کو نچارکھا ہے ملک کی انڈسٹری کو تباہ کر رکھا ہے ان
کو نہ صرف ٹیکسوں کی چھوٹ ہے کیو نکہ ان آئی پی پیز کے مالکان بھی اسمبلیوں
میں بیٹھے ہیں ان بزدل حکمرانوں کی یہ جرات بھی نہیں کہ ان اداروں کو ایک
ساتھ بیچ سکیں بلکہ ان کے حصے بخرے کرکے اپنے چہیتوں کو نوازیں گے ریلوے
اور دیگر اداروں میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے پرائیویٹ ٹرینیں چل رہی ہیں جو
ابھی سے اربوں روپے قوم کا دبا کر بیٹھے ہیں جو پرائیویٹ ٹرینیں چل رہی ہیں
ان کا کوئی خرچہ نہیں عملہ ورکر لیبر سب کچھ قوم کا صرف رقم انہوں نے لینی
ہے ملک میں نئے انجن تیار کر نے کی صلاحیت موجود ہے صر ف کمیشن کی خا طر
باہر سے انجن منگوائے جا رہے ہیں واپڈا کو بیچنے کیلئے ایک لمبے عرصے کیلئے
پلیننگ کی جارہی ہے اس کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے تاکہ سرمایہ
دار نفعے والے حصے چن لیں اور نقصان والے قوم کے حصے میں آئی پی پیز کے
مالکان بھی انہی حکمرانوں میں سے ہیں جو گردشی قرضوں اور دوسرے ذرائع سے
اربوں کھربوں پتی بن چکے ہیں جبکہ پاکستان کامحنت کش ایک وقت کی روٹی کو
ترس رہا ہے اب یہ سر مائے دار واپڈا کے دیگر حصوں کی طرف گدھوں کی طرح نظر
رکھے ہو ئے ہیں یہ اتنے بے چین ہو رہے ہیں جس طرح گدھ نیم مردہ جا نور کو
مرنے سے پہلے نوچنہ شروع کردیتا ہے اسی طرح یہ ملک کے تمام پیداواری ذرائع
کو نیم مردہ کر کے قوم کو دکھایا جائے گا یہ ادارے ملک کی معیشت پر بوجھ بن
چکے ہیں لہذا ان کا بکنے ضروری ہے ان قو می اداروں کا بنیادی ڈھانچہ بر باد
کر نے کیلئے نااہل ڈئریکٹران بٹھائے جاتے ہیں جو قومی اداروں کو لوٹ کر ان
کی تجوریوں بھرتے ہیں اور قوم کودکھانے کیلئے گرفتار کراکے بعد میں رہا کر
کے کسی دوسرے ادارے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے وہ ان کیلئے مزید لوٹتا ہے
اس وقت پا کستان کی معیشت تباہ حال ہے اور اس وقت پا کستان پر بیرونی قرضہ
17356 ارب ہو چکا ہے اس حکومت نے آتے ہی بھیک ما نگنا شروع کردی انہوں پہلے
تین ماہ میں قرضے میں 1128روپے اضافہ کیا اس وقت ملک کا ہر شہری ایک لاکھ
سے زیادہ کا مقروض ہے کشکول توڑنے والوں نے آتے ہی6.7ارب ڈالر قرض لیا جو
2008میں لئے گئے قرض کی قسط ادا کرنے کی غرض سے لیا گیاپا کستان نے عالمی
مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ساٹھ ارب ڈالر دینے ہیں جو ڈی پی
کا62.7فیصد کی خطر ناک حد تک پہنچ چکاہے جبکہ پا کستان کے زرمبادلہ کے
زخائر اس وقت 3.2ارب ڈالر کی سطح تک گر چکے ہیں جبکہ جون2013کو11.01ارب
ڈالر تھے یعنی صرف چھ ماہ میں غیر ملکی زر مبادلہ ذخائر میں آٹھ ارب ڈالر
کی کمی آچکی ہے پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکو مت نے پانچ سالہ اقتدار میں اتنے
قر ضے لئے اتنے ساٹھ سالوں میں نہیں لئے ہو نگے2007میں پاکستان کا کل
قرضہ6691ارب ڈالر تھاجو جون2013میں16228ارب تک پہچ چکے تھے موجودہ حکومت نے
اپنی محنت کش عوام پر ٹیکسوں سے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملے کئے مگر پھر بھی
معیشت سنبھل نہ سکی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ1589ملین ڈالر ہو چکاہے پاکستان کے
حکمران اور عالمی مالیاتی ادارے معاشی مسائل کا حل صرف غیر ملکی سر مایہ
کاری کے طور پر پیش کیا ہے دراصل بیرونی سر مائے دار کو یہ بھی بتایا جا
رہا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکاہے اسی
لئے یہاں لیبر سستی ہو گی اور ان کے منافعوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا یہ
ملکی معیشت کی بہتری کیلئے نہیں بلکہ اپنے سرمایہ دار طبقے کے منافعوں
کیلئے کی کوشش کی جارہی ہے گذشتہ دہائی میں بنگلہ دیش بھارت چین اور دیگر
ترقی پذیر ممالک میں بیرونی سرمایہ کاری بے تحاشہ آئی مگر ملکی معیشت میں
کوئی بہتری نہ آئی کیو نکہ بیرونی سرا یہ کار تمام منافع یورپ اور امریکہ
بینکوں میں لے جاتے ہیں اور ان ممالک کے عوام کی غربت کبھی ختم نہیں ہو تی
ملک میں آنے والا ہر ڈالر اپنے ساتھ چودہ ڈالر ساتھ لیکر جاتاہے گر
حکمرانوں وڈیروں سرماداروں نے قومی ادارے بیچنے کی روش نہ تبدیل کی تو آج
سے لڑائی شروع ہو گئی جس کا فیصلہ ریاست کی سڑکوں پر ہوگا اگر ان اپنا
زیادہ منافع عزیز ہے ہمیں اپنے ملک اور محنت کش طبقہ یہ ریاست محنت کش
چلاتا ہے اور معیشت کا پہیہ بھی محنت کش چلاتا ہے اب فیصلہ بھی ہم کرینگے
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مسائل سے نکلنے کا حل سوشلزم نظام ہے - |