کسی کو ا چھالگے یا برا، طاہر القادری کو یہ کریڈٹ دینا
پڑے گا کہ انہوں نے پچھلی بار ہزاروں لوگوں کو کئی روز تک اسلام آباد میں
جمع کرکے کمال کردکھایا تھا۔ سخت سردی اور بارش میں خواتین، بچوں، نوجوانوں
اور بوڑھوں کا ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹنا واقعی حیرت انگیز بات تھی۔ اتنی
استقامت اور جوش وخروش کے باوجود خالی ہاتھ لوٹنے کے ذمہ دار دھرنے کے شرکا
نہیں بلکہ خود ’’قائد انقلاب‘‘ تھے۔ اس موضوع پر بہت طویل بحث مباحثہ
ہوسکتا ہے ،مگر خلاصہ یہ ہے کہ طاہر القادری صاحب تین باتوں کی وجہ سے
ناکام رہے تھے۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کے موقف میں تضاد بہت تھا، یہ صبح ایک
بات کرتے اور شام کو یوٹرن لے لیتے۔ دراصل ان کی خواہش یہ تھی کہ ایک طویل
المدتی عبوری حکومت قائم کی جائے، مگر میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے یہ اپنے اس
موقف پر قائم نہ رہ سکے۔ اپنی شرائط کو کم کرتے کرتے دفعہ 62 اور 63 کے
نفاذ پر آکر رک گئے اور آخر میں اس سے بھی جان چھڑا کر چلتے بنے۔ ناکامی کی
دوسری وجہ ماحول کا سازگار نہ ہونا تھا، قوم انتخابات کی دہلیز پر کھڑی تھی،
ایسے میں اچانک قادری صاحب ’’یہ شادی نہیں ہونے دوں گا‘‘ جیسے ڈائیلاگ
مارتے ہوئے نمودار ہوگئے۔ عوام نے طاہر القادری کے اس اچانک ظہور کو سازش
سمجھا اور وہ آخر تک اس تاثر کو زائل نہ کرسکے۔ تیسری اور آخری بات یہ کہ
علامہ صاحب جس طرح کے نعرے بلند کررہے تھے، جو خوب صورت مطالبات پیش کررہے
تھے، ان سے بیشتر لوگ متفق تھے مگر طاہر القادری کی شخصیت کسی انقلاب سے
میچ نہیں کررہی تھی۔
طاہر القادری صاحب ایک بار پھر میدان میں کود پڑے ہیں۔11 مئی کو ان کی طرف
سے موجودہ نظام کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ چوں کہ
ان دنوں پاکستان شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے، اس لیے وہ خود تو کینیڈا سے
تشریف نہیں لارہے، البتہ وہ ٹیلی فون پر ’’انقلاب‘‘ کی قیادت فرمارہے ہیں۔
طاہر القادری جو کچھ کہہ رہے ہیں، لوگ اس سے ایک سو ایک فیصد متفق ہیں۔
واقعی یہ ظلم وناانصافی کا نظام پاش پاش ہونا چاہیے، مگر عوام کو قادری
صاحب پر ایک فیصد بھی اعتماد نہیں ہے۔ عوام انہیں قائد انقلاب بنانے کے موڈ
میں نہیں ہیں، اس لیے طاہر القادری صاحب کی اگلے دو تین روز میں شروع ہونے
والی مہم کا انجام بھی پچھلے دھرنے جیسا ہی ہوگا، البتہ عمران خان کا
معاملہ مختلف ہے۔
حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر اپوزیشن کی جانب سے مظاہروں اور وائٹ پیپر
جیسی چیزوں کا اجرا معمول کی بات ہے۔ حکومتیں بھی عموماً ہر سال بعد اپنی
کارکردگی کو عوام کے سامنے لاتی ہیں، اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات دیے
جاتے ہیں۔ کل یعنی 11 مئی کو حکومت اپنی پہلی سال گرہ منا رہی ہے۔ پیپلز
پارٹی نے غالباً کسی معاہدے کے تحت ستو پی لیا ہے ،اس لیے اپوزیشن کا کردار
پی ٹی آئی نبھا رہی ہے اور اس نے کل سڑکوں پر آنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح
کے مظاہروں کا رواج ہونے کے باوجود چوں کہ 11 مئی کا دن اس بار ایک میڈیا
گروپ اور فوج کے درمیان کشیدگی کے ماحول میں آیا ہے، اس لیے تحریک انصاف کی
ریلیوں کے متعلق بھی طرح طرح کی چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں
والا معاملہ ہے۔
تحریک انصاف کی ریلیوں کے پیچھے اصل ماجرا کیا ہے؟ ہمارے خیال میں اس ریلی
کو کسی بڑی احتجاجی تحریک کا نقطۂ آغاز کی بجائے سالانہ روایتی احتجاج ہی
سمجھا جانا چاہیے، البتہ جہاں تک انتخابی دھاندلیوں کا معاملہ ہے، تحریک
انصاف کو بھی معلوم ہے کہ اس سے ملنا ملانا کچھ نہیں ہے۔ سارا شور شرابہ
صرف کارکنوں کو مطمئن رکھنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف بڑے جوش
وخروش اور انقلابی نعروں سے میدان میں آئی تھی، اس نے خاموش اکثریت کو
متحرک کیا تھا، روایتی جماعتوں سے مایوس لوگ اس کے ساتھ آملے تھے۔ اب اگر
یہ انتخابات میں شکست تسلیم کرلے تو اس کا تو سارا ڈھانچہ ہی بکھر جائے گا،
کارکن مایوس ہوکر دوبارہ سو جائیں گے، اس لیے یہ اگلے انتخابات تک ہر صورت
اس ایشو کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گی۔ 4 حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کا
معاملہ بھی اسی لیے اٹھایا جارہا ہے، کیوں کہ اگر ان اہم حلقوں میں دھاندلی
ثابت ہوگئی تو تحریک انصاف کو ’’مستند‘‘ ثبوت ہاتھ لگ جائیں گے، جس سے اگلے
انتخابات تک خوب کام لیا جاسکے گا۔ باقی آپ بھی جانتے ہیں کہ دس بیس لوگوں
کو دھاندلی کی وجہ سے نااہل قرار بھی دے دیا جائے تب بھی حکومت کو کوئی فرق
نہیں پڑتا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے دھاندلی کے کیسنر سامنے آنے سے حکومت کی
ساکھ متاثر ہوگی،جس کی وجہ سے اسے قبل از وقت مستعفی بھی ہونا پڑسکتا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اس مہم کا تعلق خالصتاً پارٹی کے
اندرونی معاملات سے ہے۔ ہاں عمران خان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ
انتخابات کو شفاف بنائے بغیر جمہوریت بے معنی ہے۔ خان صاحب کی اس بات میں
بھی بڑا وزن ہے کہ اگلے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے پچھلے انتخابات میں
دھاندلی کرنے والوں کو سزا دینا ضروری ہے۔ صرف تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ
تمام جماعتوں کو دھاندلی کی شکایات ہیں۔ حکومت دھاندلی کا دفاع کرنے کی
بجائے ایسا کیوں نہیں کرتی کہ سب جماعتوں کو جمع کرکے اگلے انتخابات کو
شفاف بنانے کے مشن پر ابھی سے کام شروع کردے۔ اس کام کے لیے یہ بہترین موقع
ہے، ایک تو اس وقت لوہا گرم ہے، ہر طرف دھاندلی دھاندلی کا شور مچاہوا ہے،
اس لیے سب لوگوں کو جمع کرنا بہت حد تک آسان ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ
دھاندلیوں سے پاک انتخابات کا منصوبہ کافی وقت چاہتا ہے۔ اس وقت تحریک
انصاف کا موقف خاصا کمزور ہے، کیوں کہ زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ
صرف شکست کی وجہ سے شور کررہی ہے۔ اگر وہ ماضی کی دھاندلیوں پر مٹی ڈال کر
اگلے انتخابات کو شفاف بنوانے پر توجہ مرکوز رکھے تو اسے عوام اور دیگر
سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی مل سکتی ہے۔ اس طرح وہ حکومت پر بھی دباؤ ڈال
سکے گی۔
تحریک انصاف لوڈشیڈنگ کے ہتھیار کو بھی حکومت کے خلاف استعمال کررہی ہے۔
وزرا نے جوابی طورپر عمران خان کو نشانے پر لے لیا ہے، حالاں کہ ا نہیں
ناراض نہیں ہونا چاہیے، اپوزیشن کو یہ ہتھیار تو خود حکومت نے پیش کیا ہے۔
بلاشبہ حکومت نے عوام کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ عمران خان کے احتجاج کے
اعلان کے بعد وزیر اعظم توانائی بحران ختم کرنے کے لیے اجلاس پر اجلاس
کررہے ہیں، قوم کو خوش خبری سنائی جارہی ہے کہ 11 مئی سے لوڈشیڈنگ کم
ہوجائے گی۔ اب آپ ہی بتائیے اس اندازِ حکمرانی کو کیا کہیں؟ حکومت مخالف
تحریکوں کی حمایت کرنے کو دل نہیں چاہتا، کیوں کہ ملکی حالات اس طرح کی
تحریکوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ دوسری طرف احتجاجی تحریکوں کی مخالفت بھی
کیسے کریں؟ جب تک لوگ سڑکوں پر نہ نکلیں ،حکومت حرکت میں نہیں آتی۔ ہمیں تو
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ |