کسی زمانے میں گاندھی جی کے تین بندر دنیا بھر میں معروف
تھے لیکن آج کل ہندوستان کے تین مودی دنیا بھر میں مشہور ہوگئے ہیں۔
نریندر، سشیل اور للت مودی۔ ان میں سے ایک نریندر مودی کے ہاتھ کانوں پر
ہوتے ہیں ۔ وہ کسی کی نہیں سنتا۔نہ سنگھ پریوار کی نہ گاندھی پریوار کی اور
نہ اپنے پریوارکی جس میں پرورش پائی تھی۔ بس بے تکان بولتا رہتاہے۔ جو من
میں آئے بول دیتا ہے مثلاً اگر ہمیں واضح اکثریت حاصل ہوجائے تب بھی ہم
دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر مخلوط حکومت بنائیں گے۔ اب اس بیان پر تو کوئی
عقل کا اندھا ہی یقین کرسکتا ہےخاص طور پر نتیش کمار کا انجامِ بد دیکھنے
کے بعد کوئی جماعت بی جے پی کی حکومت میں شامل ہونا تو کجا اس کو اپنی
حکومت میں لینے سے پہلے بھی سو بار سوچے گی اس لئے کہ یہ لوگ نہ صرف جس
تھالی میں کھاتے ہیں اس میں سوراخ کرتے ہیں بلکہ اس کو چراکر لے جانے کی
سعی بھی کر ڈالتے ہیں۔ لیکن نریندرمودی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس کی
بات پر کوئی یقین کرتا ہے یا نہیں اس کا کام ہر روز نت نئے شوشے چھوڑتے
رہنا ہے اس لئے کہ ہر نئی بات کے ساتھ پرانی صحیح یا غلط بات بھلا دی جاتی
ہے۔
نریندر مودی کی اپنی جماعت میں ایک عقل کا اندھا سشیل مودی ہے جسے آج کل
لوگ پیار سے سومو کہہ کر پکارنے لگے ہیں ۔ اس سومو کی ہیڈ لائٹ بند ہے مطلب
اس کا ہاتھ آنکھوں پر ہے اس لئے اس کوئی زمینی حقیقت نظر نہیں آتی ۔ یہ
جو کچھ سنتا وہی بول دیتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ کہا کرتا تھا کہ نتیش کمار
مستقبل میں وزیر اعظم بن جائیں گے اب یہ کہتا ہے کہ نتیش کمار بہار کے وزیر
اعلیٰ بھی نہیں رہیں گے اس لئے کہ جے ڈی یوپچاس ارکان اسمبلی اس کے رابطے
میں ہیں۔ گویا جس طرح نریندر مودی آنکھیں کھول کر وزیراعظم بننے کے سپنے
دیکھ رہا ہے اسی طرح سشیل مودی آنکھیں موند کر وزیراعلیٰ بننے کے خواب سجا
رہا ہے لیکن جب انتخابی نتائج کا اعلان ہوگا تو ایک کی آنکھ کھل جائیگی
اور دوسرے کی بند ہو جائیگی۔
تیسرا مودی فی الحال ہندوستان سے فرار اور لندن میں مقیم ہے ۔ اس کا ہاتھ
منہ پر ہے یہ بولتا بہت کم ہے لیکن خوب اچھی طرح دیکھ سن کر ایسی چال چلتا
ہے کہ تمام مخالفین چاروں شانے چت ہو جاتے ہیں ۔للت مودی ۲۰۰۵ میں
راجھستان کرکٹ بورڈ کا صدر منتخب ہوا اور شردپوار سے سانٹھ گانٹھ کرکے بی
سی سی آئی اور آئی سی سی کے صدرجگموہن ڈالمیا کی چھٹی کروادی۔ اس کارنامہ
کا انعام یہ ملا کہ بی سی سی آئی کا نائب صدر بنا دیا گیا۔ اس کے بعد
۲۰۰۸ میں اس نے آئی پی ایل کا تماشہ شروع کیا اور اس کا کمشنر بن گیا۔
۲۰۱۰ میں اس پر بدعنوانی کے کئی الزامات لگے اور بی سی سی آئی نے للت
مودی پر تاحیات پابندی لگا دی۔ للت جیل جانے کے بجائے لندن چلا گیا لیکن
وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے ریموٹ کنٹرول سے راجھستان کرکٹ ایسو سی ایشین
کا انتخاب لڑا۔
بغیر کسی انتخابی جائزے کے کرکٹ بورڈ کی سمجھ میں آگیا کہ اس انتخاب کا
نتیجہ کیا نکلنے والاہے ۔ بی سی سی آئی نے اس انتخاب کے خلاف سپریم کورٹ
کے دروازے پر دستک دی ۔ ۶ مرتبہ اس کے اعلان پر روک لگوائی لیکن جب ساتویں
مرتبہ عدالت عالیہ نے اس کی اجازت دی تو ایک ایسا نتیجہ نکلا جس کا خواب نہ
سشیل مودی دیکھ سکتا ہے اور نہ نریندر مودی۔ للت مودی نے اپنے مخالف کو ۵
کے مقابلے ۲۴ ووٹوں سے شکست دےدی۔ ان نتائج میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ
انتخاب میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس میں کسی شریف اور بدمعاش کی کوئی قید
نہیں۔ بڑا سے بڑا بدعنوان بڑی سے بڑی کامیابی درج کروا سکتا ہے ۔ ہوس
کےبازارمیں ایمان اسی طرح بکتا ہے جس طرح کے اس انتخابی مہم کے دوران
ہندوستان کی عوام نے ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے نام نہاد صحافیوں اور
دانشوروں کو بکتے ہوئے دیکھا۔
اندراگاندھی اورنریندر مودی جیسے لوگوں کی آمد سے قبلجس طرح سیاست سلجھے
ہوئے شریف لوگوں کا میدان تھا اسی طرح للت مودی اورجگموہن ڈالمیا جیسے
لوگوں سے پہلے کرکٹ پروقار لوگوں کاکھیل ( جنٹلمینس گیم) کہلاتا تھا۔ ابیہ
عالم ہے کہ آئی پی ایل کو کھلے عام جواریوں کی دولت پر چلنے والاعیاشی کا
کوٹھا قرار دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام تر لعنت ملامت کے باوجود بدنامِ
زمانہ للت مودی راجھستان کرکٹ ایسوسی ایشن کا صدر منتخب ہو جاتا ہے۔ ایسا
ہی کچھ سیاست کے میدان میں ہوسکتا ہے اس لئے کہ قومی سیاست کی حالت کرکٹ کی
دنیا سے بدتر ہے۔ اخلاقی و معاشی انحطاط کے چلتےسیاسی منظر نامے پر رونما
ہونے والی تبدیلی فلمی دنیا کی طرح ہے جہاں کسی زمانے میں میں ’’ آپ آئے
تو خیالِ دلِ ناشاد آیا ‘‘ گایا اور سنا جاتا تھا اور اب ’’میں نے ماری
انٹری یار دل میں بجی گھنٹی یار پم پم پم‘‘نے لے لی ہے ۔ عوام کاالعنام کا
تو یہ حال ہے بھیڑ بکریوں کی طرح جو بھی چارہ ان کے آگے ڈال دیا جاتا ہے
وہ اس سے کام و دہن کی آگ بجھانے میں جٹ جاتےہیں ۔
نریندر مودی نے اپنے حالیہ انٹرویو میں ایک سمجھداری کی بات یہ کہی کہ
سرکار بنانےاور سرکار چلانے میں فرق ہے۔ یہ درست ہے کہ لیکن گزشتہ چار ماہ
کے اندر سیاستدانوں کی جانب سے جس قوائد کا مظاہرہ ہوا ہے اس میں ساری توجہ
سرکار بچانے یا سرکار ہتھیانے پر مرکوز تھی۔ حزب اقتدار یوپی اے کسی طرح
اپنی حکومت کو بچانے کیلئے ہاتھ پیر مار رہاتھا اور این ڈی اے اسے ہتھیانے
کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی۔ علاقائی جماعتیں زیادہ سے زیادہ
نشستیں حاصل کرکےمستقبل کی مخلوط حکومت سازی میں اپنا حصہ بڑھانے کی تگ و
دو میں لگی ہوئی تھیں۔ حکومت کون بنائے گا اورکیسے بنائے گا اس سوال پر
سارے تجزیہ نگار اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے لیکن حکومت کیسے چلائی
جائیگی؟ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کسی نے نہیں کی۔ حکومت چلانے کے
حوالے سےسب سے اہم اور بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ آئندہ حکومت کس کے مفاد
میں چلائی جائیگی؟ ان سیاستدانوں کیلئے جن کی بڑی تعداد پہلے ہی کروڈپتی بن
چکی ہے؟ یاان سرمایہ داروں کی خاطر کہ جن کی دولت کے سہارے یہ انتخاب لڑا
گیا ہے ؟ یاپھراس عوام کی فلاح بہبود کیلئے بھی کچھ کرے گی جن کے ووٹوں سے
حکمراں کا انتخاب ہورہا ہے؟
ان انتخابات کا اگر کوئی تعلق عوام کی فلاح و بہبود سے ہوتا تو اس میں وہ
مسائل زیر بحث لائے جاتے جن سے لوگ پریشان ہیں ۔ نریندر مودی ایک ظالم
حکمراں ہے اس لئے ہر انصاف پسند انسان چاہتا ہے کہ مودی نہ صرف اقتدار سے
دور رہے بلکہ ذلیل و خوار بھیہو ۔ ان لوگوں میں مسلمان بھی شامل ہیں لیکن
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں کے مسائل مثلاًفرقہ
وارانہ فسادات ، مسلمانوں کی بیجا گرفتاریاں اور انکاؤنٹرس ۔ تعلیمی و
معاشی پسماندگی کیلئے جس قدر بی جے پی ذمہ دار ہے کانگریس بھی اس سے کم
نہیں ہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ ملک کی دیگر عوام کے بھی بے شمار مسائل ہیں جن
کی زد مسلمانوں پر کچھ زیادہ ہی پڑتی ہے مثلاً مہنگائی ،غربت و بے روزگاری
۔ صحت عامہ کی سہولیات کا ناپید ہونا یا کم ہونا۔انصاف کا حصول بے حد مشکل
اور بے حد مہنگا ہونا۔ شہری سہولیا ت ۔ سڑک بجلی پانی ، تعلیم کے معیارمیں
پایا جانے والا زبردست تفاوت، خواتین پر ہونے والے مظالم میں بے دریغ
اضافہوغیرہ وغیرہ ۔
ان مسائل پر یا تو سرے سے انتخابی مہم کے دوران گفتگو نہیں ہوئی یا اگر
ہوئی بھی ہے تو الزام تراشی کے انداز میں ایک دوسرے کواس کیلئے موردِ سزا
ٹھہرایا گیا۔ ہر کوئی یہ دعویٰ کرتارہاہے کہ مہنگائی کم کردے گا ۔ اس کے
اقتدار میں آنے سےغربت کا خاتمہ ہو جائیگا اور نوجوانوں کو روزگار مل
جائیگا لیکن کوئی یہ نہیں بتاتاتھا کہ یہ سب کیسے ہوگا؟ وہ کون سے اقدامات
کئے جائیں گے جن سے اس سمت پیش رفت ہوگی؟ ان سنجیدہ باتوں کو نہ ذرائع
ابلاغ میں جگہ ملتی تھی اور نہ عوام اس پر گفتگو کرتے تھے ۔ کبھی چائے،
کبھی ٹوپی، کبھی اونچ نیچ ، کبھی ذات پات یہی سب موضوعِ بحث بنا رہتا ہے۔
عقل تو یہ کہتی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے عوام کو جن سہولتوں کی فراہمی کا
وعدہ کیا ہے اس کے نتیجے میں سرکاری خزانے کا خسارہ لازماً بڑھے گا۔ ان
سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والے صنعتکار اس کی قیمت عوام سے وصول کریں گے
اور اس کے نتیجے میں گرانی یقینا ً بڑھے گی۔
یہ اندازہ لگایا جارہا ہے آئندہ چند سالوں میں ہندوستانی عوام کی اکثریت
شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیگی جس کے سبب شہروں کی سڑکوں کیلئے اس
کو سنبھالنا مشکل ہو جائیگا ۔ ٹرافک اور فضائی آلودگی پر قابو پانا نا
ممکن ہوگا لیکن یہ ہمارے سیاستدانوں کیلئے کو مسئلہ ہی نہیں ہے۔ سرکاری
اسکولوں کا برا حال ہے اور طبی سہولیات کے معاملے میں ہندوستان عالمی معیار
۱۲۰۰ پر ایک کے بجائے ۱۷۰۰ لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے اور یہ تقسیم بھی مساوی
نہیں ہے۔ عدالتوں کے دروازے ویسے تو تمام لوگوں کیلئے کھلے ہوئے ہیں لیکن
ان نیایہ مندروں کے پروہت وکیل صاحبان کی فیس اگر کوئی عام آدمی سنے تو بے
ہوش ہوجائے۔ ارون جیٹلی کی اعلان کردہ سیکڑوں کروڈ کی دولت سے اس کا اندازہ
لگایا جاسکتا ہے۔مودی کہتاہے گنگا کا پانی آلودہ ہو چکا ہے تو کیجریوال کے
مطابق سابرمتی کا پانی زیادہ آلودگی کا شکار ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام
سیاسی جماعتوں کی طرح ملک کی ساری ندیاں آلودہ ہو چکی ہیں اور اس کی وجہ
سے ملک کے عوام اپنے بنیادی حق یعنی پینے کے صاف پانی سے محروم کردئیے گئے
ہیں۔
گزشتہ سال دہلی ، ممبئی ،جئے پوراور کولکتہ خواتین پر ہونے والے مظالم کے
سبب سرخیوں میں رہے۔ دہلی میں عصمت دری و قتل کا بہیمانہ واقعہ ، ممبئی میں
زانیوں کو موت کی سزا اور کولکتہ و جے پور میں غیرملکی خواتین تک سےبدسلوکی
اخباروں میں چھائے رہی ۔ اسپر بڑے بڑے عوامی احتجاج ہوئے لیکن جب الیکشن
کاابخار چڑھا تو لوگ انہیں بھول گئے۔ بدعنوانی کے خلاف چلنے والی عظیم
تحریک کے باوجود ساری جماعتوں نے دھڑلے کے ساتھ بدعنوان رہنماؤں کو ٹکٹ سے
نوازکر یہ ثابت کردیا کہ ان چیزوں کوانتخابی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں ہے
اور تو اور غنڈے بدمعاش بھی اس انتخاب میں تمام ہی جماعتوں کے ٹکٹ پر اپنی
قسمت آزمانے کیلئے میدان میں اترے ۔کسی نے انہیں ہندوتوا کی سرفرازی کیلئے
ووٹ دیا کوئی سیکولرزم کے تحفظ کی خاطران کی نصرت و حمایت پر اتر آیا
۔سنگین جرائم مثلاً قتل و غارتگری وغیرہ کیلئے موردِ الزام ٹھہرنے والے
امیدوار کی تعداد گزشتہ پانچ سالوں میں ۶۰۸ سے بڑھ کر ۸۸۹ یعنی ۸ فیصد سے
۱۱ فیصد تک پہنچ گئی۔
ہندوستانی سیاست میں زور بازو کے علاوہ دولت کی ریل پیل نے بھی ساری دنیا
کو چونکا دیا ہے ۔۲۰۰۴ کے اندر انتخاب لڑنے والے کروڈ پتی امیدواروں کی
تعداد صرف ۱۳ فیصد تھی ۲۰۰۹ کے آتے آتے اس میں ۳ فیصد کا اضافہ ہوا اور
یہ تعداد ۱۶ فیصد پر جاپہنچی لیکن پھر اس کے بعد ۵ سالوں میں یہ تعداد ۲۷
فیصد پر پہنچ گئی۔ اس بار ۲۲۰۸ کروڈ پتی امیدوار اپنی قسمت آزما رہے
ہیں۔ایسا نہیں ہے ان میں بڑی تعداد بدعنوان ترین یو پی اے کے امیدواروں کی
ہے بلکہ کل دولت جس کا اعلان ہوا ہے اس میں کانگریس کے امیدواروں کی اوسط
میراث ۱۳ کروڈ ہےیعنی ۷۹ فیصدکانگریسی امیدوار کروڈ پٹی ہیں تو بی جے پی کے
لوگوں کی اوسط جائیداد بھی ۱۰ کروڈ ہے اور ۷۳ فیصد کروڈ پتی لوگوں پر بی جے
پی نے نظر کرم کی ہے۔ اقتدار کے بغیر یہ حال ہے توخدا نا خواستہ اقتدار
حاصل ہو جانے پر کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ہندوستان کا
غریب ترین طبقہ دلت سماج ہے انکی جماعت بہوجن سماج پارٹی بھی اس معاملے میں
پیچھے نہیں ہے۔بی ایس پی کے ۱۱ فیصد امیدوار کروڈ پتی ہیں ان کی اوسط
دولتساڑھے تین کروڈ ہے جبکہ بدعنوانی کے خلاف جہاد چھیڑنے والیعام لوگوں کی
عام آدمی پارٹی کے امیدواروں میں ایک تہائی کروڈ پتی ہیںاس طرح عاپ
امیدواروں کی اوسط جائیدادپونے تین کروڈ بنتی ہے ۔ خدا کرے کہ ان لوگوں نے
پورا پورا ٹیکس ادا کیا ہو۔
مجموعی طور ہندوستان کے انتخابی امیدواروں کی اوسط آمدنی ۳ کروڈ ۳۰ لاکھ
ہے جن میں چائے بیچنے والا نریندر مودی شامل ہے جو ڈیڑھ کروڈ کا مالک بن
گیا ہے لیکن جس عوام کے سامنے یہ امیدوار جھولی پھیلا کر ووٹ مانگ رہے ہیں
ان کی حالت زار کو عریاں کرنے والی ایک رپورٹ اقوام متحدہ کی جانب ان دنوں
سامنے آئی۔ دنیا بھر میں ۱۰۰کروڈ لوگ رفع حاجت کی مناسب سہولیات سے محروم
ہونے کے سبب کھلے میں فارغ ہونے کیلئے مجبور ہیں۔ ان میں سے ۸۳ فیصد لوگ دس
ممالک میں رہتے ہیں ۔ ان دس میں سے نو ملکوں میں ایسے لوگوں کی تعداد۲۳
کروڈ ہے جبکہ اکیلے ہندوستان میں اس سے دوگنا سے بھی زیادہ یعنی ۶۰ کروڈ۔
یہ ایک نہایت تلخ حقیقت ہے۔ اسی لئے شاید اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں
مودی نے کہا تھا میرے نزدیک دیوالیہ سے زیادہ اہمیت شوچالیہ کی ہے لیکن پھر
اس کے بعد لوگوں نے اسے سمجھایا کہ ایسا نہ کہے ورنہ وہ بھی اڈوانی کی
مانند نہ گھر کا رہے گا نہ گھاٹ کا اور اب یہ حال ہے مودی شوچالیہ کو بھول
کر رام مندر کی تصویر کے آگے رام راجیہ کا نعرہ بلند کرکے لوگوں کو احمق
بنا رہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کے ساتھ جمہوریت بے نقاب ہو چکی ہے ۔عوام کے ذریعہ
عوام کی خاطر عوام کے اقتدار کا کھوکھلا نعرہ اب بے معنیٰ ہو کر رہ گیا ہے
بلکہ عصرِ حاضر میں یہ عوام کے ذریعہ ،سرمایہ داروں کیلئے سیاستدانوں کی
حکومت میں تبدیل ہو چکاہے۔ اس صورتحال کو ایک بیل گاڑی کی مثال سے باآسانی
سمجھا جاسکتا ہے۔ بیل گاڑی میں سب سے آگے بیل نظر آتے ہیں ۔ جمہوری نظام
کی مانند اس گاڑی کا نام بیلوں سے منسوب ہوتا ہے۔ بیل اس کو چلانے کیلئے
بظاہر پیش پیش ہوتے ہیں ۔ وہی سب سے زیادہ محنت و مشقت کرتے ہیں لیکن ان کی
لگام اوپر بیٹھے گاڑی بان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو انہیں اپنی مرضی سے جس
طرف چاہتا ہے ہانک کر لے جاتاہے ۔
اس گاڑی میں لدا ہوا مال نہ بیلوں کا ہوتا ہے اورنہ گاڑی بان کا بلکہ اس کا
مالک ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا فردیعنی تاجر ہوتا ہے جس سے گاڑی بان
سودے بازی کرتا ہے۔ وہ تاجر کا مال مختلف بازاروں میں پہنچاتا ہے اوراپنا
کرایہ وصول کرتاہے ۔ اس منافع میں سے ایک قلیل رقم بیلوں کے چارے پر بھی
خرچ ہوتی ہے تاکہ وہ زندہ رہ کر خدمت گزاری کر سکیں لیکن اس کا بڑا حصہ بیل
گاڑی والے کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ ان دونوں سے زیادہ فائدہ وہ سرمایہ دار
اٹھاتا ہے جس کی مال برداری کی جاتی ہے۔ بیل گاڑی کا سفرمیں جھومتے چلتے
بیلوں کی نظرسےسرمایہ داراوجھل ہوتاہےجبکہ گاڑی بان کا تعلق بیلوں اور
سرمایہ داروں دونوں سے ہوتا ہے۔ ۔ سرمایہ دارانہ نظام جمہوریت کے اس
کاروبار میں بیلوں کے خون پسینے پر گاڑی بان اور تاجرخوب عیاشی کرتے ہیں
اور بیلوں کی مانند محنت و مشقت کرنے والے عوام کو ( معذرت کے ساتھ) یعقوب
تصور کے اس شعر پر اکتفا کرنا پڑتا ہے کہ ؎
کھلیانوں میں عمر ہماری بیت گئی
گھروالوں نے شیش محل تعمیر کیا
|