یہ ایک حقیقت ہے کہ سچ بہت اچھا ہے اور سچ بولنے والا
عظیم، لیکن اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ سچ معاشرے کے طاقتور و ں کے لیے
ہمیشہ نا قابلِ قبول رہا ہے، بالخصوص ا یسے معاشروں میں جہاں طاقت اور
اختیار کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ جس معاشرے میں \"جس کی
لاٹھی اُس کی بھینس\" کا قانون ہو وہاں اگر کوئی ایسا سچ بولا جائے جو
مقتدر قوتوں کے مفادات کے خلاف ہو تو بولنے والوں کو اپنے سچ کی بھاری قیمت
چکانی پڑتی ہے ۔جس سچ سے معاشرے کے طاقتور طبقے کے مفادات اور ذات پر ضرب
نہیں لگتی ایسے بے ضرر سچ پر اُن کو اعتراض نہیں ہوتا،لیکن جو سچ اُن کے
لیے کڑوا ہوتا ہے وہ سچ اگر سقراط بولے تو اُسے زہر کا پیالا پینا پڑتا ہے،
منصور بولے تو اُسے پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑتا ہے اور آج اگر کوئی سر
پھرا بولے تو اُسے بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ہمارے ہاں بھی یہی چلن
ہے اور برسوں سے ہے، ہر اُس معاشرے کی طرح جس میں قانون اور انصاف کی
حکمرانی نہیں ہوتی، طاقتور اور کمزور کے لیے انصاف کے الگ الگ پیمانے ہوتے
ہیں،ایسے معاشروں میں سچ بولناموت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔
کافی عرصہ پہلے حامد میر نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی حیات
اللہ کی صحافتی زندگی اور اُس کی المناک موت پر ایک کالم لکھا تھا، بقول
حامد میر کے حیات اللہ وہ صحافی تھا جس نے سب سے پہلے وزیرستان میں امریکی
ڈرون حملوں کا اور اُن حملوں میں بے گناہ افراد کی ہلاکتوں کا انکشاف کیا
تھا اور اس سے متعلق حقائق قوم کے سامنے لایا تھا،ان انکشافات کے کچھ ہی
عرصے بعد اُس کو اغوا کر لیا گیا تھا اور پھر چند ماہ بعد اُسے گولی مار دی
گئی تھی ۔ اس کالم کے بعد میں نے سوچاتھاکہ ہمارا معاشرہ جس ڈگرپرچل رہاہے
بہتر یہی ہے کہ اس معاشرے میں کوئی خطرناک سچ نہ بولا جائے، اور نہ ہی ایسا
کوئی سچ لکھا جائے جو کسی طاقتور کے مفادات کو زک پہنچائے۔اب خودحامد میرکو
نشانہ بنایا گیا ہے تو میں ایک پھر ایسا ہی سوچ رہا ہوں بلکہ بہت سارے اور
لوگ بھی شائد اسی طرز پر سوچ رہے ہوں گے۔ میری جو کیفیت ہے اس پرمجھے بہت
پہلے پڑھا گیا ایک شعریاد آرہا ہے،شعر صیح یاد نہیں اس لیے الفاظ آگے پیچھے
ہوسکتے ہیں،اُمید مفہوم پھر بھی سمجھ میں آجائے گا
سچ اچھاپر اس کے لیے کوئی اورمرے تواوراچھا
ہمنوا میں بھی کوئی منصور ہوں جو سولی چڑھوں
مجھے سقراط کی طرح زہر پینے کا شوق ہے، نہ منصور کی طرح پھانسی چڑھنے کا
،نہ ہی دور جدید کے صحافیوں کی طرح گولیاں کھانے کا،اس لیے میں یہی سوچ رہا
ہوں اب صرف بے ضررقسم کے سچ بولا کروں گا۔
حیات اللہ کے قاتل کون تھے اور حامد میر پر حملہ کن لوگوں نے کیا، اس کا
علم ابھی کسی کو نہیں لیکن اتنا علم سب کو ہے کہ یہ نشانہ سچ بولنے کی وجہ
سے بنے۔ ہمارے ہاں طاقت کے بے شمار مراکز ہیں ، افراد بھی ، ادارے بھی،
تنظیمیں بھی ،وارلارڈز بھی، لینڈمافیابھی، گینگ بھی اور پتا نہیں کیا
کیا،اب تو ایک اور خطرناک مرکز کا اضافہ ہو چکا ہے اور وہ ہیں طالبان، اِن
میں سے کس کو حامد میر کا کون سا سچ اتنابُرا لگاہے جس کے نتیجے میں اُن پر
قاتلانہ حملہ ہوا ہے اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے،گو مختلف قسم کی قیاس
آرائیاں کی جا رہی لیکن بنا کسی ثبوت کے ۔حامد میر کے نظریات،سوچ اور طریقہ
کار سے بہت سارے لوگوں کی طرح مجھے بھی اختلاف ہے، اِن سارے اختلافات کے
باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کی حامد میر پر حملہ دراصل سچ کو
دبانے کی ایک کوشش ہے کیونکہ طاقت سے ہمیشہ سچ کو ہی دبانے کی کوشش کی جاتی
ہے جھوٹ اور پروپیگنڈے کو نہیں۔جھوٹے اور خوشامدی لوگ گولیوں کا نشانہ نہیں
بنتے،وہ تو اس معاشرے کامیاب رہتے ہیں اعلی عہدوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔خود
جنگ اور جیو گروپ میں موجودکچھ لوگ اس کی زندہ مثال ہیں ،نام لینے کی ضرورت
نہیں سب کو علم ہے،ان کو ایسے عہدوں سے نوازا گیاجن کی ابجد سے بھی وہ واقف
نہیں،لیکن ملک کے اندر موجود بڑوں اور باہر سے ملک پر اثر انداز ہونے والوں
کو خوش کرنے کا ہنر اُن کو آتا ہے۔
سچ بولنے کی پاداش میں کسی صحافی کے ساتھ ایسا سلوک ہمارے ہاں پہلی بار
نہیں ہوا،،ہفت روزہ تکبیر کراچی کے ایڈیٹر، بے باک صحافی صلاح الدین کو بھی
اسی طرح سچ بولنے کے جرم میں روشنیوں کے شہر کو تاریکیوں کے شہر میں بدلنے
والے کچھ طاقتور لوگوں نے مار دیاتھا،اس بات کو بیس برس بیت چکے ہیں قاتل
آج تک نہیں پکڑے گے۔ولی خان بابر بھی سچ بولنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار
گیا،اور بھی بے شمار نام ہیں سب کا ذکر ایک کالم میں ممکن نہیں اس کے لیے
تو ایک کتاب کی ضرورت ہے۔لیکن کیا ایسے سچ کو دبایا جا سکتا ہے؟کیا موت کا
ڈراوا دے کر لوگوں کو سچ بولنے سے روکا جا سکتا ہے؟؟ایسا ممکن نہیں،اگر
ایسا ہوتاتو دنیا سے سچ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں
ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جو اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر سچ بولتے ہیں۔میں
اور میرے جیسے کچھ اور اگر\" میں بھی کوئی منصور ہوں جو سولی چڑھوں\" کے
اُصول پر کاربند رہنا چاہتے ہیں تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، شائد ہم سے
بھی زیادہ اس معاشرے میں حبیب جالب کی طرح یہ صدا لگانے موجود ہوں
میں خائف نہیں تختہء دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوارسے
ظلم کی بات کو،جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا |