آپ میری بات کوغلط اندازسے سمجھنے کی کوشش نہ کریں گے۔۔
میں نہ توملک میں فوجی حکومت کابھرپورحامی ہوں اور نہ جمہوری حکومت
کاپرستاریاگرویدہ۔ مجھے اس بات سے کوئی سروکارنہیں کہ اس قوم
کو’’ادھراُدھر‘‘ ہانکنے کے لیے اسلام آباد کی کرسی پرکوئی فوجی براجماں ہے
یا کوئی ’’منتخب‘‘ شخص اپنے نخرے دکھارہاہے، میرے لیے ’’ڈکٹیٹرشپ‘‘ یا
’’قوم کامنتخب‘‘ جیسی اصطلاحات بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔۔ ظاہرہے ان
جملوں سے آپ مجھے احمقوں کی جنت میں گھومنے والادنیاومافیہاسے بے خبرایک
پاگل تصورکریں گے اور بہت سارے قارئین دل ہی دل میں مجھے برابھلاکہہ
کرمختلف القابات دیں گے۔ کیوں نہ، پوری دنیاکے ’’عاقل‘‘ اور ’’دانا‘‘ لفظ
جمہوریت کاوردکریں اور دیگرنہ سہی کم ازکم افواج پاکستان کی نظریں
یاتلواریں ہروقت اسلام آباد کے حصول پرمرکوزرہیں (اگرچہ ویسے بھی سب کچھ ان
کے ہاتھوں میں ہیں) ایسے میں مجھ ناچیز کی کیاوقعت وحیثیت کہ دل میں دونوں
نظاموں کی تمنانہ رکھوں، بہرحال میں اپنے موقف پراب بھی قائم ہوں اوریہی
موقف پورے پاکستانی عوام کے لیے بھی پسندکرتاہوں، بعض لوگ میرے بارے میں یہ
بھی سوچیں گے کہ خودکسی حلقے سے انتخاب لڑکر پارلیمنٹ کا’’نعمت یافتہ‘‘
بننے کی صلاحیت وطاقت نہ رکھنے والے لوگ اس قسم کی جمہوریت مخالف باتیں
کرتے ہیں، یہ ان کی اپنی سوچ ہے، اگرچہ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بذات خودمیں نہ
تو پارلیمنٹ جانے کا خواہشمندہوں اور نہ اتنی استطاعت رکھتاہوں، خیرکچھ کچھ
شوق توہے کہ اپنے کالموں میں جوکچھ کہتاہوں وہاں جاکر اس کاعملی ثبوت پیش
کرسکوں، بس آپ میرے لیے دعائیں کریں،آمدم برسرمطلب! بہت ساری اخلاقی اور
جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم کو ’’یاداشت کی کمی‘‘ والامسئلہ
بھی درپیش ہے، گذشتہ لمحات کے ’’کردہ کرتوت‘‘ بہت جلداذہان کے پردوں سے
زائل ہوجاتے ہیں اور کوئی عکس یانقش ثبت نہیں رہتا ورنہ کیامجال کہ ازمودہ
کو دوبارہ ازمانے کاخیال تک ظاہرہو، معلوم نہیںیہ سیاست کے سیاہ خانے میں
سیاہ مست ’’سیاہ سَت‘‘ والے عوام پرکیاجادو کرجاتے ہیں کہ ان کے دل پھربھی
پرانے چہروں کی طرف مائل رہتے ہیں اور تمام ترناجائزکرتوتوں اور ناقص
پالیسیوں کے باوجودان کی حمایت کی جاتی ہے، بہرحال ہم کتناہی آہ وزاری کریں
قدرت کاغضب ہم سے ٹلنے والانہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بعض فیصلے انسانی
اعمال وکردار کی بنیادپر ہوتے ہیں۔۔ (ناراض نہ ہو،میں موضوع سے باہرنہیں
ہوں) ہمیں ابھی سمجھ آیا۔۔ روٹی، کپڑا، مکان کانعرہ لگانے والوں کامقصدیہ
نہیں تھاکہ عوام کومذکورہ اشیاء فراہم ہوں بلکہ مقصدیہ تھاکہ عوام کوان
چیزوں کاشدت سے احساس ہوجائے اور میرے خیال میں گذشتہ حکومت اس مقصدمیں
پوری طرح کامیاب رہی، کیونکہ بے تحاشامہنگائی اور سہولیات کی عدم فراہمی کے
باعث پاکستانی عوام روٹی کپڑاکے حصول کے لیے یقیناًترستے رہے، اب بہت سارے
دعووں کے ساتھ موجودہ حکومت اپنی ’’منزل‘‘ کی جانب رواں دواں ہے، معلوم
نہیں ہماری قوم اس پرانی آزمودہ ٹولے سے کیا کیا امیدیں رکھتی ہوگی بہرحال
خدا کرے حالت بہتری کی طرف جائے، کیوں نہیں، میراپاکستان کس سمت جارہاہے!
مہنگائی، بدامنی، لوٹ کھسوٹ، رشوت، سفارشات ، بیرونی قرضے او رلوڈشیڈنگ
سمیت بہت سارے مسائل کے درمیان پھنسی قوم بڑٖی بے چارگی کی شکار ہے۔ حکومت،
فوج، اور عوام۔۔۔ ملک کی تمام ستونوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں اور
ہرطرف عدم اعتمادکی فضا بنی ہوئی ہے، ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں
ابترصورت حال کے باعث لوگوں کاجینامشکل ہورہاہے، خیریہ فہرست توبڑی طویل ہے
اور لکھنے کے لیے چندکالم درکار ہیں البتہ میں اپنے دعوے کی طرف واپس
آتاہوں کہ مجھے اصحاب اقتدارکی فوجی یاغیرفوجی ہونے کی حیثیت سے کوئی
سروکار نہیں بلکہ میں ہمیشہ اطواروکردارپرنظررکھتاہوں، مجھے ایساسربراہ
مملکت چاہئے تواس پاک دھرتی کے نظریاتی تقاضوں کاپاسدارہو، اس ملک میں بسنے
والے لوگوں کا احترام دل میں رکھتاہو، ایسابادشاہ جس کی ترقی اور درازئ
عمرکے لیے لوگوں کورات کے وقت اٹھ کر سربسجودہوناپڑے، وہ جس کی حکومت میں
غریب سے غریب ترآدمی بھی سکون اور خوشحالی والی زندگی گزارسکے، میں اسلام
آبادکی کرسی پرایسامرددیکھناچاہتاہوں جس کے زورِبازو سے یہ ملک صحیح معنوں
میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بن سکے جہاں کسی بھی قسم کے لسانی، علاقائی اور
گروہی اختلافات کانام ونشان نہ ہو اورلوگ پیارومحبت سے بھائی چارے کی زندگی
بسرکریں، میں ایسادرویش صفت قائدپسندکروں گاجوذاتی عزت، شہرت اور دولت سے
ہٹ کر اس کی نظریں صرف عوامی خدمت پرلگی رہتی ہوں اور اس کاہرفیصلہ ذاتی
مفادات کے لیے نہیں بلکہ اس ملک کے عوام اور اجتماعی مفادات کے پیش نظرہو،
اگر ایسا ہواتوپھراس ملک کے کسی بھی کونے سے گلے شکوے یاآہ وزاری کی
آوازنہیں اٹھے گی۔ ملک پاکستان کومذکورہ مقاصداور منازل تک پہنچانے کے لیے
میں ایک لائق انسان دیکھنے کے لیے دست بدعاہوں، چاہے وہ لائق انسان کسی
باوردی فوجی کی شکل میں ہو یاشلوارقمیص میں ملبوس ’’مدعی جمہوریت‘‘ ہو۔ اب
قارئین خودفیصلہ کریں کہ میراموقف کتناوزنی ہے!۔۔میری دعوت۔۔ کہ ہمیں اللہ
تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے کیونکہ اعمالکم عمالکم کے تحت
ہمارے ہی ہاتھوں اور اعمال کے نتیجے میں ہمارے اوپرحکمران آتے ہیں ،بس اللہ
تعالی سے یہ دعاکرو کہ ہمیں نیک، صالح اور مخلص قیادت نصیب ہو۔۔ |