سابق آرمی چیف و سابق صدرپاکستان اور ریٹائرڈفوجی جرنیل
پرویز مشرف پر مقدمہ غداری کی ضدنے حکومت و فوج کے درمیان جن تلخیوں کو جنم
دیا انہیں کم کرنے کی بجائے حکومت نے کور کمانڈرز کی تقرری کے اختیارات کی
وزیراعظم کو تفویض اور آئی ایس آئی کوحکومت کے تابع کرنے کی پالیسی کیلئے
ان تلخیوں کو مزید ایندھن فراہم کیا جبکہ جیو اور آئی ایس آئی جنگ میں جیو
کے حق میں جانبدارانہ حکومتی کردار اس تلخیوں کی اس آگ پرپنکھا جھلنے کے
مترادف ہے دوسری جانب گیارہ مئی کو ایک طرف اسلام آباد کے ڈی چوک میں عمران
خان کیجانب سے پرجوش کارکنوں کے سامنے چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی
تصدیق، انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے اور ڈاکٹر طاہر
القادری کی تنظیم کی جانب سے پاکستان کے 26 شہروں میں ہونیوالے اجتماعات
میں کینیڈا سے ٹیلیفونک خطاب میں قاہرالقادری کے موجودہ پارلیمانی سسٹم کو
آئینی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر مسترد کئے جانے کے بعدوزیراعظم میاں نواز
شریف کیلئے مشکلات کھڑی کردی ہیں اور ان حالات میں قومی اسمبلی میں قائد
حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی جانب سے آمریت کے سائے بڑھنے کا اقرار اور
عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے تحت سابق چیف الیکشن کمشنرفخرالدین
جی ابراہیم کی طرح الیکشن کمیشن کے دیگر تمام اراکین سے مستعفی ہونے
کامطالبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت بند گلی کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ
قومی رائے کے مطابق حکومت کو عمران خان کے الزامات کا جواب دینا چاہئے اور
عمران خان کے مطالبے پر چاروں حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کرانی
چاہئے مگر حکومتی حلقے اس سے ڈررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے ان
حلقوں میں انتخابی دھاندلی کا الزام سچ ثابت ہوجائے گا جس سے پوری انتخابی
مہم مشکوک ہوجائے گی اور مسلم لیگ (ن) کا عوامی مینڈیٹ بھی بے اعتبار
ہوجائے گا جبکہ عوام بالخصوص تعلیم یافتہ نوجوان نسل یعنی آئندہ انتخابات
میں کلیدی کردار ادا کرنے والے طبقے پر اثر انداز ہونے والے سوشل میڈیا پر
طاہرالقادری کے مطالبے کو حمایت حاصل ہورہی ہے ان حالات میں جب تحریک انصاف
اور ڈاکٹر طاہرالقادری حکومت کی آئینی مدت کیلئے خطرہ بنتے دکھائی دے رہے
ہیں اور فوج سے حکومتی تعلقات پہلے ہی خراب ہیں جبکہ آئی اسی آئی کیخلاف
جیو کی نشریات کے بعد فوج کے حق میں عوامی مظاہروں اور دیگر میڈیاانڈسٹری
کے گروپس میں بٹ جانے کے باوجود حکومت کی جانب سے جیو کی حمایت نے نہ صرف
مسلم لیگ (ن) اور حکومت کی عوامی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ میڈیا
انڈسٹری میں بھی دوستوں سے محروم کردیا ہے ان حالات میں الطاف حسین کو
واپسی سے روکنے یا الطاف حسین کی وطن واپسی کو اپنے مفاد کیلئے استعمال
کرنے اور متحدہ قومی موومنٹ سے اپنی شرائط منوانے کیلئے الطاف حسین کے
شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجراء میں تاخیری حربوں کااستعمال حکومت کیلئے
مزید مسائل کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اسلئے حکمرانوں کو بیک وقت تمام محاذوں
پر ''چو مکھی '' لڑنے کی بجائے اعتدال و تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور جلد
بازی میں طاقتور ترین بننے کی پالیسی چھوڑ کر اختیارات کی تقسیم کے ذریعے
بہترین ٹیم کی تنظیم و ترتیب کے اصول کے تحت ملک و قوم کی خدمت کویقینی
بنانا ہوگا بصورت دیگر تیز رفتاری سے دوڑتے ہوئے بند گلی میں پہنچ جانے
والے اکثر ''ان کاؤنٹر '' کاشکار ہوجایا کرتے ہیں اور نوازشریف حکومت کے
ساتھ دوبار پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے اس لئے ماضی کے تجربات سے استفادہ حاصل
نہ کرنا حماقت کی علامت ہوتی ہے اور احمقوں کو اختیار و اقتدار میں رکھنا
قوم کے مستقبل کیلئے خطرات پیدا کرتا ہے ! |