جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے

یہ واقعہ جو میں آپ کو سنانے لگا ہوں یہ بالکل سچا ہے۔اور میں ہی اس واقعہ کا اہم کردار ہوں ۔یہ واقعہ کچھ یوں ہے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا۔ہم تحصیل سرائے عالمگیر کے ایک قصبہ کھمبی میں رہتے ہیں۔جون کے مہینے کی سخت گرمیوں کے دن تھے اور سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔اور ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آسمان سے آگ کے گولے برسائے جا رہے ہوں۔ہر چرند پرند اور انسان بھی اس گرمی سے پریشان نظر آ رہے تھے۔سخت گرمیوں کے دن تھے ان دنوں لوگ دوپہر کو گھروں میں سو رہے ہوتے ہیں اور باہر گلیوں میں ہو کا عالم ہوتا ہے۔سورج بھی ان دنوں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور دہکتا ہے۔اور اکثر لوگ گرمی کی وجہ سے باہر نہیں نکلتے۔اور گھروں میں سونے ہی کو بہتر سمجھتے ہیں۔عام لوگوں کی طرح ہم سب گھر والے بھی روز کے معمول کی طرح سوئے ہوئے تھے۔کہ اچانک فون کی گھنٹی بجنے سے ہم سب ہی اٹھ گئے۔ تقریباً یہ دوپہر کے ایک بجے کا وقت ہو گامیرے والد صاحب نے فون سنا تو دوسری طرف لندن سے میری خالہ تھیں۔یہ ہماری بہت اچھی خالہ ہیں۔اور اکثر ہمیں فون کرتی رہتی ہیں۔اپنے اور ہمارے متعلق گاہے بگاہے فون کر کے پوچھتی رہتی ہیں۔یہ میری امی سے بڑی ہیں۔اور کافی عرصے سے لندن میں اپنے میاں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔اب ان کے میاں وفات پا چکے ہیں لیکن جب یہ واقعہ ہوا تھا تب وہ زندہ تھے ۔فون پر میرے والدصاحب نے بات مکمل کر لی تو میری امی سے خالہ بات کرنے لگیں اور کہا کہ وہ اپنے والد صاحب یعنی میرے نانا سے بات کرنے کی خواہش مند ہیں ۔کیونکہ نانا کے گھر میں ابھی فون نہیں لگا تھا بلکہ پورے گاؤں میں ابھی فون نیا نیا آیا تھا اور یہ صرف چند ہی گھروں میں فون لگے ہوئے تھے ۔تو مجھے ابو جی نے کہا کہ جب تک تمہاری امی خالہ سے فون پر بات کرتی ہے تب تک تم نانا جی کو بھلا لاؤ تا کہ وہ بھی خالہ سے بات کر لیں ۔میں نے ہاتھ منہ دھونے کے بعد کپڑے تبدیل کئے اور نانا جی کو بلانے کے لئے نانا کے گھر کی طرف چل پڑا۔نانا کا گھر ہمارے اسی گاؤں میں تھا لیکن ذرا فاصلے پر تھا ۔تقریباً پیدل دس سے پندرہ منٹ کا فاصلہ ہو گا۔ابھی میں گھر سے تھوڑی دور ہی پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھ سات سال کا بچہ بجلی کے کھمبے سے چپٹا ہوا ہے۔اور زور زور سے رو رہا ہے اور چلا رہا ہے۔مجھے ایسے لگا جیسے کانپ رہا ہو ۔میں سمجھ گیا کہ بچہ بجلی کے کھمبے میں کرنٹ آنے کی وجہ سے بجلی کے کھمبے کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔میں اسے ہاتھ کے ساتھ نہیں ہٹا سکتا تھا۔اس لئے ایک لکڑی کے ڈنڈے کی تلاش میں میں ایک گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہوگیا وہ لوگ بھی سوئے ہوئے تھے شائد ان گھر والوں میں سے کوئی ایک جاگ رہا تھا۔اس نے مجھے پریشان دیکھ کر باہر صحن میں آگیا اور مجھ سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو میں کہا کہ جلدی سے مجھے ایک عدد لکڑی کا ڈنڈا دے دیں۔تو وہ لوگ گھبرا گئے کہ شائد میرا کسی سے جھگڑا ہو گیا ہے اور میں مارنے کے لئے ڈنڈا ڈھونڈ رہا ہوں ۔لیکن میں چلا کر کہا کہ باہر ایک بچہ بجلی کے کھمبے کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ میں زیادہ انتظار نہی کر سکتا تھا۔کیونکہ میرے دیر سے پہنچنے کی وجہ سے بچہ جان سے جا سکتا تھا۔اور یہ میں ہر گز نہیں چاہتا تھا۔اتنے میں میری نظر ایک کسی پر پڑی ۔میں نے اسے ہی غنیمت جانا حالانکہ کہ یہ میرے لئے بھی انتہائی خطرناک ہوسکتی تھی۔کیونکہ اس کے ایک طرف لوہے کا پھالہ سا بنا ہوا تھا۔لیکن مجھے اب بڑی احتیاط کے ساتھ اسے استعمال کرنا تھا۔میں لوہے کے پھالے سے ذرا ہٹ کر لکڑی کے دستے سے پکڑا اور بچے کے ایک ہاتھ کو اپنے پورے زور سے ہٹانے کی کوشش کی آخر کار ایک ہاتھ کو میں کھمبے سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اسی طرح پھر میں نے بچے کے دوسرے ہا تھ کو بھی بجلی کے کھمبے سے الگ کر دیا۔میرے پاس ہی کھڑے ایک آدمی نے بچے کو اٹھایا اور اس کے گھر کی طرف چل پڑا۔اور کافی لوگ جمع ہو چکے تھے ۔لیکن کیونکہ مجھے جلد ہی نانا جی کو بلانا تھا اس لئے میں میں نانا کے گھر کی طرف دوڑا کیونکہ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں والد صاحب دیر ہونے پر مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں ۔نانا کا گھر اب تھوڑی ہی دور تھا۔خیر میں نانا کے گھر پہنچا تو نانا جی سے خالہ کے فون کی بات کی انہوں نے اپنی پگڑی سر پر رکھی اور میرے ساتھ چل پڑے ۔راستے میں ابھی وہ تمام لوگ کھڑے تھے اور سب میرا نام لیکر ایک دوسرے کو بتا رہے تھے تو مجھے اس وقت بےحد خوشی ہوئی خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھ ناچیز سے یہ کام لیا ۔نانا جی بھی اتنے زیادہ لوگ دیکھ کر حیران ہوئے تو میں نے ان کو ساری بات بتائی۔واقعہ سچ کہتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کر کے جو خوشی حاصل ہو اصل میں وہی خوشی ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ
جسے اﷲ رکھے اسے کون چکھے

اس واقعہ کو تقریباً پچیس سال ہونے کو ہیں کہ ایک روز میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا کیونکہ میں اب لاہور میں ہی رہتا ہوں اور یہاں مجھے پچیس سال ہو چکے ہیں کہ اچانک ایک نوجوان میرے سامنے آیا۔پہلے سلام کیا اور پھر پوچھا کہ کیا آپ نے مجھے پہچانا ہے۔تو میرا جواب تھا کہ نہیں۔وہ بولا میں وہی ہوں جس کو آپ نے بچپن میں بجلی کے کھمبے سے بچایا تھا۔میں آپ کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا ۔کیونکہ آپ نے مجھے اپنی جان پر کھیل کر بچایا تھا۔میں اس جوان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور میں نے اسے کہا کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔یہ سب میرے رب کی طرف سے تھا اور تمہاری زندگی ابی لکھی ہوئی تھی اور اس رب نے مجھے تمہیں بچانے کے لئے ایک بہانہ بنایا اور میرا گزر وہاں سے ہوا اور مجھے اﷲ نے ہمت دی اور تم بچ گے۔یقین جانیں اسے دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی ۔میں یہ بات بھول چکا تھا مگر اس نوجوان کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ تمام واقعہ میری نظروں کے سامنے آ گیا ۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالٰی سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھیں ۔آمین۔

H/Dr Ch Tanweer Sarwar
About the Author: H/Dr Ch Tanweer Sarwar Read More Articles by H/Dr Ch Tanweer Sarwar: 320 Articles with 1925490 views I am homeo physician,writer,author,graphic designer and poet.I have written five computer books.I like also read islamic books.I love recite Quran dai.. View More