مئی ۲۰۱۰ء کے ابتدائی دنوں میں مجھے سرگودھا یونیورسٹی کی
جانب سے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت
سے تقرر نامہ موصول ہوا، میں اس کے لیے پہلے سے تیار تھا چنانچہ میں نے
کراچی سے رخت سفر باندھا، ۱۰ مئی کے لیے شاہین ائر لائن سے لاہور کے لیے
سیٹ ریزرو کرالی، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے کیا
گیا ۔ کراچی کے تمام معاملات کو تیزی سے سمیٹا، گھروالوں کو اپنے اس فیصلہ
پر تیار کیا جس کے لیے مجھے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی البتہ میری شریک
سفر شہناز زیادہ فکر مند اور پریشان تھیں، لیکن اس بنا پر کہ مجھے جو یہ
اعزاز حاصل ہوا ہے مجھے اس کو لبیک کہنا چاہیے وہ بھی خوشی سے مجھے خدا
حافظ کہنے پر تیار ہوگئیں۔ میری بیٹی جو لاہورمیں کئی سالوں سے مقیم ہے اس
خبر پر خوش تھی کیونکہ اس فیصلہ پر عمل کی صورت میں اس کے والدین مستقبل
میں اس کے نذدیک ہو رہے تھے۔پیر ۱۰ مئی نے دستک دی ، تیاری مکمل ہوئی، خوشی
خوشی ائر پور پورٹ پہنچ گیا۔ شہناز، مہوش (میری بڑی بہو)،ڈاکٹر نبیل ،ڈاکٹر
ثمرہ (میری چھوٹی بہو) میرا ہر دلعزیز پوتا صائم عدیل مجھے ائر پورٹ خدا
حافظ کہنے میرے ساتھ تھے، بعد ازآں میرا بڑا بیٹا عدیل بھی اپنے آفس سے ائر
پورٹ آگیا۔ جیسے جیسے اپنوں سے رخصت ہونے کا وقت قریب آرہا تھا، میں اندر
ہی اندر اپنے آپ کو کمزور محسو س کررہا تھا۔جذبات کو قابو رکھنا مشکل ہورہا
تھا، میں کسی سے کچھ بھی نہ کہہ سکا، محسو س ہوا جیسے میری آواز بند ہوگئی
ہے، کوشش کی کے کچھ بول سکوں مگر الفاظ نہ نکل سکے۔ مشکل سے آنسوؤں کو روک
سکا پھر بھی انہوں نے میرا ساتھ نہ دیا ، بند گلے ، بھیگی آنکھوں اور
افسردہ چہرے کے ساتھ خاموشی سے اپنوں کو ایک ایک کرکے گلے لگا یا، اپنے
پوتے صائم کو ایک سے زیادہ بار پیا ر کیا،دل چاہ رہا تھا کہ اسے اپنے سینے
سے جدا نہ کروں، مجھے سب سے زیادہ صائم سے بچھڑ نے کا افسوس تھااور رہے
گا۔سامان کی ٹرالی کو دھکا دیتا ہوا، نیچی نگاہ کیے اپنی آئندہ منزل کی
جانب چل دیا۔ بورڈنگ کارڈ لے کر لاؤنج کی جانب چلا ، دل بیٹھا جارہا تھا،
سر بوجھل تھا، پھر بھی بھاری قدموں سے لاؤنج کی طرف بڑھا ، ائر پورٹ کے
مرکزی دروازہ کے ساتھ رنگین شیشے کے پیچھے لائن سے میرے جگر گوشے کھڑے مجھے
دیکھ رہے تھے، میں نے بھی ان کی جانب دیکھا، لیکن نظر نیچے کرکے ہاتھ ہلا
تا رہا ، مجھ میں انہیں دیکھنے کی تاب نہ تھی، میرا پوتا صائم اپنے ننھے
ننھے ہاتھوں سے مجھے خدا حا فظ کر رہا تھا۔اس کی اس ادا نے مجھے اندر سے
ہلا کر رکھ دیا ، میں نے سوچا کہ کہیں میں نے
غلط فیصلہ تو نہیں کیا ، میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر سب کو غور سے
دیکھاایک ایک کرکے سب کو دعا دی، خدا حافظ کہا اور آگے کی جانب بڑھ گیا۔
جنت نگاہ شہر کراچی کو جہاں میرا سنہرا بچپن گذرا ، رسیلی جوانی کی بہاریں
پھلی پھولیں اور پھر بڑھاپے کی دہلیز پر بھی اسی شہر میں قدم رکھا۔ اس کی
رونقوں کو ، بہاروں اور محفلوں کو ، دوستوں کو، عزیزوں کو، پیاروں کو الغرض
ہر ایک کو چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا۔وسیم فاضلی کے یہ اشعار میرے جذبات کی کچھ
عکاسی کررہے تھے
مجھ کو مت روک کہ ترے لیے جانا ہے مجھے
تجھ سے جو سیکھا ہے، دنیا کو سیکھا نا ہے مجھے
اپنا غم کیا ، غمِ دوراں کو مٹانا ہے مجھے
اب میں جاتا ہوں میرے گلشنِ امید سلام
جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھا ، بیلٹ کسی ، موبائل پر ایک بار پھر شہناز
کوخدا حافظ کہا، اسی دوران لاہور سے میری بیٹی فاھینہ کا بھی فون آیا اسے
بھی اپنے پہنچنے کی اطلا ع دی۔فضائی میزبان نے سفر کی دعا پڑھی اور اعلان
کیا کہ ہم انشاء اﷲ ۳۳ ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے ایک گھنٹہ
چالیس منٹ میں لاہور پہنچیں گے۔کیپٹن اسد بھٹ ہمارے جہاز کا ناخدا تھا۔میں
ذہن کو دوسری جانب مائل کرنے کے لئے مضامین کی پروف ریڈنگ میں مصروف ہوگیا،
میرے اس عمل نے میرے خیالات کو مختلف سمت منتقل کر دیا، بیشتر وقت مضامین
کی پروف ریڈنگ میں گزرگیا۔
جہاز کی پرواز ہموار ہوئی تو ہوائی میزبانوں نے تواضع کا اہتمام شروع
کیا،طبیعت کھانے کی طرف بالکل مائل نہیں تھی، بس منزل پر پہنچنے کی جلدی
تھی۔ ذہن میں بار بار تما م لوگوں کے افسر دہ چہرے آرہے تھے، آنکھ میں آئے
ہوئے آنسوؤں کو خاموشی سے پونچھتا رہا، اپنے آپ کو یہ تسلی دیتا رہا کہ یہ
میرا اپنا فیصلہ ہے اور اپنی خوشی سے کیا ہے۔ یہ فیصلہ میں نے ایک عظیم
مقصد کے لیے کیااسی کے لیے میں اپنے بسے بسائی اور ہر طرح کی سہولتوں سے
مزین گھر کو خیر باد کہہ رہا ہوں۔میرے پیش نظر ملازمت کا حصول یا اس سے
ملنے والی رقم ہر گز ہرگز نہیں تھی۔ میں تمام زندگی قناعت پسند رہا ہوں اور
اس اصول پر عمل پیرا بھی کہ انسان کو اتنے ہی پیر پھیلانے چاہیں جتنی بڑی
چادر ہو۔ الحمدا ﷲ میری تمام زندگی بہت خوش گوار اورمطمئن رہی ۔ میں تو
اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کی لاج رکھنا چاہتا ہوں جو قدرت نے مجھے انتھک محنت
اور کوششوں کے بعد عطا کی ہے۔میرا خیال ہے کہ ابھی مجھ میں اتنی ہمت اور
حوصلہ ہے کہ میں اپنے علم سے دوسروں کو فیض یاب کرسکوں۔جامعہ سر گودھا میں
میرا بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر تقرر میرے لیے ایک اعزاز تھا، میں اس
اعزاز کی ہر صورت میں تکریم چاہتا تھا۔باوجود اس کے کہ سرگودھا جو شاہینوں
کا شہر کہلاتا ہے، عوام الناس کے لیے ائیر پورٹ کی سہولت سے بھی محروم
ہے۔جب کہ میں اپنی کمر کی تکلیف کے پیش نظر ریل یا بس کے ذریعہ طویل سفر
نہیں کرسکتا، مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ مجھے لاہور یا فیصل آباد تک
ہوائی سفر کرنا ہوگا اس کے بعد بذریعہ بس (ڈیووDeawo )تقریباً ڈھائی گھنٹے
کاسفر کرنا ہوگا۔ ان سب قباحتوں کے باوجود میں نے اس اعزاز کے حصول کو اپنا
مقصد بنا یا ۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا کبھی افسر دہ ہوجاتا اور کبھی اپنے
فیصلہ پر اطمینان کا اظہار کرتا رہا۔میری آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر
جاتیں اور میں رازداری سے انہیں پونچھ لیتا، بار بار آنسوؤں کو سمجھاتا رہا
لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔بقول میر دردؔ
کرتا رہا میں دیدہٓ گریا کی احتیاط
پر ہوسکی نہ اشک کے طوفاں کی احتیاط
کیپٹن اسد بھٹ پرواز کی انتہائی بلندی پر ہوائی جہاز کو اپنی منزل کی جانب
تیزی سے لیے جارہا تھا، فضاء میں سکوت تھا، خاموشی چھائی ہوئی تھی،
مسافرکھا پی کرغنودگی میں چلے گئے تھے اور اس انتظا ر میں تھے کہ فضائی میز
بان اعلان کرے گی کہ خواتین و حضرات ہم تھوڑی ہی دیر میں لاہور کے علامہ
اقبال انٹر نیشنل ائر پورٹ پراتر نے والے ہیں ، وقت قریب آرہا تھا، ہوائی
جہاز کی کھڑکیوں سے نیچے کی جانب بہت ہی معمولی معمو لی روشنیاں محسوس
ہورہی تھیں،محسوس ہوا کہ جہاز نے بلندی سے نیچے کی جانب رخ کیا ،گویا
لینڈنگ کی ابتدا کی،اس کے ساتھ ہی فضاء میں شدید شور بپا ہوگیا، جہاز کبھی
دائیں اور کبھی بائیں ڈولنے لگا، ہوائی جہاز کی کھڑکیوں سے باہر کی جانب
آسمانی بجلی شدید طریقے سے اپنے جوہر دکھا رہی تھی، ہوا انتہا ئی تیز چل
رہی تھی، ایسا محسو س ہو رہا تھا کہ جیسے ہم کسی ایسی گاڑی میں سفر کر رہے
ہیں جو انتہائی تیز چل رہی ہو اوروہ گاڑی بغیر ٹائر کے ہو، تمام مسافر اس
صورت حال میں بوکھلا کر رہ گئے، اﷲ ہو اکبر ، کلمہ طیبہ کی صدائیں بلند
ہونے لگیں، چند ہی لمحوں میں کپتان جہاز کو بلندی جانب لے گیا، اس نے محسوس
کیا کہ فضاء نا ہموار ہے، اس عمل سے غیر یقینی کی کیفیت ختم ہوگئی، لیکن
چند لمحوں بعدہی جہاز کو دوبارہ لیڈنگ کی غرض سے نیچے لا یاگیا ، وہی کیفیت
دوبارہ شروع ہوگئی، نا معلوم کیوں کپتان نے اس عمل کوتیسری بار بھی دھرایا،
ایسا لگتا تھا کہ وہ ہر صورت میں ہوائی جہاز کو لاہور ہی میں لینڈ کرنا چا
ھتاہے۔ تیسری بار جب یہی صورت حال ہوئی تو مسافروں کے صبر کا پیمانہ لبریز
ہوگیا، ہر ایک کی زبان پر کلمہ طیبہ تھا ، آنکھیں بند کر کے بلند آواز سے
کلمہ پڑھنا شروع کر دیا، یہ وہ وقت تھا جب ہم نے موت کو بہت نزدیک سے
دیکھا، جہاز میں انتہائی شور برپا تھا، لوگوں نے چلانا شروع کردیا، کپتان
سمیت عملے کی بے حسی کا یہ عالم کہ کوئی کچھ بتا نے کو تیار نہیں کہ ایسا
کیوں ہورہاہے۔ بالا آخر کپتان جہاز کو لاہور شہر پر بلندی پر لے گیا، جس کے
با عث جہاز کی استقرای کیفیت میں ٹہراؤ آگیا، مسافروں نے شکر کا سانس
لیا،فلائٹ نارمل ہوگئی، جہاز کی رفتار وہی تھی، جو روشنیاں نظر آئی تھیں وہ
نظر آنا بند ہوگئیں، اب فضائی میزبان نے اعلان کیا کہ خواتین وحضرات لاہور
میں موسم خراب ہونے کے باعث پرواز نا ہمور ہوگئی تھی، تاہم یہ صورت حال غیر
متوقع نہیں تھی، پریشانی کی کوئی بات نہیں، اب بھی اس نے یہ نہیں بتا یا کہ
اب ہمارا سفر کس جانب ہے۔یہ اعلان کرکے وہ خاموش ہوئی، جہاز مسلسل مائل با
پرواز تھا ، اب تک تو جہاز کو لاہور میں اتر جانا چاہیے تھا، لیکن نہیں
معلوم ہم کہا ں جارہے ہیں، سفر طویل ہوتا جارہا تھا، رات کے ۱۰ بج چکے تھا،
جہاز اندھیری فضاء میں مسلسل دوڑے چلے جارہا تھا،ساڑے دس بجے محسوس ہوا کہ
جہاز کسی شہر کے اوپر پرواز کررہا ہے، روشنیاں نظر آنے لگیں، خیال تھا کہ
لاہورکا موسم کچھ بہتر ہوگیا ہے اور ہم جلد اپنی منزل کو پا لیں گے۔جہاز نے
لینڈنگ کی ابتدا کی ، کسی قسم کی کوئی بات محسو س نہیں ہوئی، اس دور ان
فضائی میزبان نے اپنا مائیک کھولا اور بناوٹی آواز سے گویا ہوئی’ خواتین و
حضرات ہم بے نظیر بھٹو انٹر نیشنل ائر پورٹ پر اتر نے والے ہیں ـ‘۔ سب
مسافر حیران و پریشان کہ ہم لا ہور کے بجائے اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ لیکن
ساتھ ہی اﷲ کا شکر بھی ادا کیا کہ اﷲ نے ہمیں دوسری زندگی دی، اکثر عورتیں
یہ کہتی ہوئی سنائی دیں کہ اس جہا ز میں کوئی نیک انسان سفر کر رہا ہے، بے
شک کچھ اسی قسم کا معاملا رہا ہوگا، اﷲ نے ہم سے ابھی کچھ کام لینا ہونگے،
کہتے ہیں کہ موت کاایک دن معین ہے، آج ہمارے لیے وہ دن نہیں آیا تھا، یہ تو
ایک جھٹکا تھا، جو قدرت نے دیا، یہ ہمارے لیے ایک پیغام تھا کہ اب بھی وقت
ہے ہم اپنے برے اعمال سے توبہ کرلیں۔اﷲ نے بڑا کرم کیا، تھوڑی دیر تو
مسافروں کو جہاز ہی میں رکھا گیا ، جب یہ فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر لاہور
جانا مناسب نہیں تو ہمیں جہاز سے لاؤنج میں منتقل کردیاگیاجہاں پر اکثر
مسافر سجدہ شکر ادا کرتے نظر آئے۔
اسلام آباد ائر پورٹ لاؤنج میں رات کے بارہ بج رہے تھے، منزل کی جانب سفرکے
آثار دور دور نظر نہیں آرہے تھے ، تمام ہی مسا فرپریشانی کی کیفیت میں
تھے،ہر ایک کو اپنی منزل پر پہنچنے کی فکر تھی ، ائر لائن کی انتظامیہ کی
جانب سے جب کسی بھی قسم کا تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا ، مسافروں کو اپنے
ذرائع سے لاہور کا موسم بہتر ہوجانے کی اطلاعات مل چکی تھیں ، وہ بادوباراں
، شدید گرج و چمک جو عین اس وقت شروع ہوئی تھی جب ہمارا جہاز لاہور کی
سرزمین کو چھو لینے جارہا تھا، قدرت کو یہ منظور نہ تھا کہ ہم اس وقت لاہور
کی سرزمین پر قدم رکھتے ، انتظامیہ کے رویہ کے خلاف چند احباب نے احتجاج
شروع کردیا ، اس احتجاج میں خواتین بھی شامل ہوگئیں جس سے احتجاج میں گرمی
آگئی جو کار گر ثابت ہوئی، رات ساڑے بارہ بجے اعلان ہوا کہ مسافر لاہور
جانے کے لیے جہاز پر تشریف لے چلیں۔ سفر دوبارہ شروع ہوا، ڈیڑ ھ بجے ہم
لاہور پہنچ گئے، میں شروع ہی میں اپنی بیٹی فاھینہ اور عاصم کو ائر پورٹ
آنے کے لیے منع کرچکا تھا،بیٹی کے گھر پہنچا ، اس وقت رات کے دو بج رہے
تھے، میری بیٹی میری منتظر تھی، صبح سات بجے کے لیے ڈیوو میں میری سیٹ بک
ہوچکی تھی، وقت مقررہ پر سر گو دھا کا سفر شروع ہوا،صبح کاوقت اور پنجاب کے
خوبصورت لہلہاتے سر سبز علاقے حسین نظارہ پیش کررہے تھے، دو دریاؤں کے بیچ
واقع سر گودحا خوبصورت شہر ہے جو شاہینوں کا شہر کہلاتاہے، ۹ بجے سر گودہ
پہنچا، بس اسٹاپ پر سرگودہ یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفامیشن سائنس کے
چیر مین پرفیسر ڈاکٹر محمد فاضل اور شعبہ کے ایک سینئر استاد میاں محمد
اسلم بھٹی جو میرے ایم اے کے کلاس فیلو بھی ہیں مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔
فیصلہ ہوا کہ پہلے شیخ الجامعہ سے ملاقات کی جائے، چنانچہ ہم تینوں شیخ
الجامعہ کے دفتر پہنچے، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹرچودھری محمد اکرم سے
ملاقات ہوئی،خوش ہوئے اور خوش اخلاقی سے ملے، فاضل صاحب کو میرے قیام کے
بارے میں کچھ ہدایات دیں، پھر ایڈیشنل رجسٹرار چودھری اظہارالحق صاحب سے
ملاقات کی ، انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق پنجاب کے شہر میلسی سے ہے
تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، اس ملا قات کے بعد ہم اپنے شعبہ میں آگئے،
احباب سے تعارف ہوا، ٹیچرز ہاسٹل کا کمرہ نمبر ۵ میرے لیے مختص کیا گیا
تھا۔ دوری اورتنہائی کا احساس ایک قدرتی عمل تھا لیکن جس راستہ کا انتخاب
اپنی خوشی سے کیا جائے اس کے راستہ میں آنے والی مشکلات اور پریشانیاں اتنا
دکھ نہیں پہنچاتیں کیوں کہ ہم انہیں برداشت کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار
ہوتے ہیں۔ گھر سے باہر تنہا رہنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اپنے خیالوں
میں گم بہت دیر تک مختلف باتوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ اﷲسے دعا کی کہ اﷲ
تعالیٰ مجھے اپنے اس مقصد میں کامیاب کرے، راستے میں آنے والی مشکلات کو
برداشت کرنے کی ہمت اور طاقت دے اور مجھے ثابت قدم رکھے۔ آمین۔
۱۹ مئی ۲۰۱۰ء سرگودھا |