مشرف کے دستور کے باغی جاوید ہاشمی نے ایکبار پھر نواز
شریف کو یقین دھانی کروائی ہے کہ اگر ان پر ابتلا اور مشکلات کا وقت آیا تو
وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ جاوید ہاشمی نہ صرف سابق آمر جنرل پرویز مشرف
کے غیر جمہوری نظام کے باغی تھے بلکہ وہ نواز شریف کی جمہوری آمریت کے
ضابطوں کے بھی باغی مانے جاتے ہیں۔اگر ایسا درست نہ ہوتا تو جاوید ہاشمی
جیسا سچا کھرا آدمی جھوٹ کے نرغے میں کیونکر جاتا……میں سمجھتا ہوں جاوید
ہاشمی ہر اس آمر کا باغی ہے جو آئین کا کھلواڑ کرے چاہے یہ آئین ملکی آئین
ہو یا چاہے یہ سیاسی جماعت کا اپناجماعتی آئین ہو……کون آئین کی پابندی اور
پاسداری کرتا ہے اور کون آئین کی دھجیاں آڑاتا ہے……
ہر سیاسی جماعت کے اندر آئین کی بالا دستی اور پاسداری زیر بحث رہتی ہے……
کبھی کھبار یہ بحث اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا یعنی میڈیا تک بھی
پہنچ جاتی ہے……یہ امر بھی خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا
سربراہ جماعت کے دیگر راہنماوں ، عہدے داروں اور کارکنان کے لیے اسی طرح
شجر ممنوع قرار پاتا ہے ۔جیسے مارشل لا کے دنوں میں سیاسی جماعتیں اور انکے
سربراہان خود شجر ممنوعہ قرار پا جاتے ہیں۔
میرے ناقص خیال مین اگر سیاست دان اپنے اوپر جان چھڑکنے والے کارکنان، عہدے
داران اور دیگر راہنماوں کو جماعتی امور اور اپنی ذات سے وابستہ امور پر
بات کرنے سوال پوچھنے کی اجازت مرحمت فرما دیں تو یقین جانیے یہی کارکنان
،عہدے داران اور رہنما ان کی جانب اٹھنے والی ہر آواز، ہر قدم کو روکنے میں
پیش پیش دکھائی دیں گے…… نہ جانے ہمارے محبوب سیاسی راہنما وں کو کس بات کا
خدشہ لا حق رہتا ہے۔کہ اگر انکی ذات ،سیاست تک عوام ،کارکنان اور دیگر
رہنماوں کی رسائی ممکن ہوگئی تو قیامت برپا ہو جائیگی۔
سیاست دان کی اپنی ذاتی زندگی ہوتی ہی نہیں،کیونکہ عوامی راہنما عوام کی
پراپرٹی ہوتے ہیں۔ عوام کو اپنے محبوب راہنماوں کی ذاتی ،نجی اور سیاسی
زندگی کے بارے میں معلومات رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ جو سیاست دان
اپنی نجی زندگی بھی رکھنا چاہتے ہیں اور سیاست بھی کرنے کی دل میں آرزو
رکھتے ہیں ۔تو انہیں سیاسی زندگی اور نجی زندگی میں سے کسی ایک کا انتخاب
کرنا ہوگا۔یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دونوں ایک ساتھ چلیں۔
مخدوم امین فہیم اور راجہ پرویز اشرف کے خلوص اور اپنے قائد سے وفاداری
نبھانے کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے پر مجھے داد دینی پڑتی ہے ۔ دونوں راہنما
پچھلے پانچ سال پاکستان پر حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی پارلمنٹرین
کے بانی صدر اور جنرل سکریٹری ہونے کے باوجو سکینڈ لائین میں بیٹھتے رہے
ہیں۔ کبھی آصف علی زرداری کے فیصلوں کے خلاف نہیں گے بلکہ ایسا کرنے سے
متعلق ان دونوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔اگر آصف علی زرداری کے فیصلے سے
اختلاف رائے کر بھی لیتے تو انہیں کون روک سکتا تھا ۔کیونکہ الیکشن کمیشن
میں جو پیپلز پارٹی رجسٹرڈ تھی اور جس کے ٹکٹ پر پیپلز پارٹی کے لوگ الیکشن
لڑنے کے لیے میدان میں اتر ے تھے اسکے ٹکٹ انہیں دونوں کے دستخطوں سے جاری
ہوئے تھے۔ لیکن آفرین ہے ۔مخدوم امین فہیم اور راجہ پرویز اشرف کے کہ انہوں
نے ’’اف‘‘ تک نہیں کیمیں اسے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سمیت انکے
خاندان کی قربانیوں کی تاثیر ہی کہوں گا -
خیر قربانی اور وفاداری میں جاوید ہاشمی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ نواز
شریف نے جدہ روانگی کے وقت جاوید ہاشمی کی ذات پر جس اعتماد کا اظہار کیا
تھا ۔جاوید ہاشمی اس پر سو فیصد پورے اترے تھے۔ لیکن کمی نواز شریف کی طرف
سے رہی کہ انہوں نے جاوید ہاشمی کی قربانی اور وفاداری کی قدر نہیں کی۔ یہی
وجہ ہے کہ جب نواز شریف بے نظیر کی سیاست کے صدقے وطن واپس آئے تو انہوں نے
سیاسی بصرت کا مظاہر ہ نہیں کیا۔اور جاوید ہاشمی کو عزت وقار دینے کی بجائے
انہیں نظرانداز کرنا شروع کر دیا اور چودہری نثار سمیت ایسے راہنما وں کو
عزت بخشی جانے لگی جو مشرف سے رابطے میں رہے۔ اور قید و بند کی صعوبتوں سے
محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی رعنائیوں کو انجوائے کرتے رہے۔
آنے والے دن ایکبار پھر پھولوں کی سیج کی بجائے کانٹوں کا بستر بننے والے
ہیں۔ اسی لیے میں نے لکھا ہے کہ وفاداریوں کے امتحان کا موسم آنے والا ہے۔
دیکھتے ہیں کہ اس بار نواز شریف کی منتخب ٹیم میں سے کون جاوید ہاشمی بنتا
ہے؟اور نواز شریف کے اعتماد کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ وفاداریوں کے امتحان کا
یہ موسم سب سیاسی جماعتوں کے لیے یکساں ہوگا۔ |