آلو ہمارے ملک میں اب ایسی نایاب جنس ہے جسے وزیرخزانہ
بذات خود تڑیاں لگاتے ہیں لیکن اس کی قیمت قابو میں آنے کا نام ہی نہیں
لیتی۔اس سے پہلے ڈالر بھی بہت آنکھیں دکھا رہا تھا۔ سو کے آنکڑے تو اس نے
کب کے پار کر لئے تھے۔یار لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ اب ایک سو پچیس ہی پہ جا
کے رکے گا۔ شیخ صاحب کہ بقول خود شیخ پتر ہیں اس معاملے میں اتنے جذباتی
ہوئے کہ انہوں نے وزہر خزانہ اور حکومت کو چیلینج کر دیا کہ اگر ڈالر
اٹھانوے روپے پہ آ گیا تو میں اسمبلی میں اپنی رکنیت سے مستعفی ہو جاؤں
گا۔بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔اﷲ کریم نے اسحاق ڈار کی عزت رکھنا تھی۔سعودی
عرب نے شاید اپنی زکوۃ نکالی اور جب ڈالروں کا سیلاب ملک میں آیا تو ڈالر
خود بخود اٹھانوے کیا چھیانوے روپے پہ آ گیا۔شیخ پتر سے بجا طور پہ استعفیٰ
طلب کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا۔جہاں آصف زرداری کے چاک کئے ہوئے پیٹ سے
نکلی ہوئی دولت پڑی ہے اسی کے ساتھ میرا میرے اپنے ہاتھ سے لکھا استعفیٰ
پڑا ہے جسے چاپئیے جائے اور جا کے اٹھا لے۔مطلب یہ کہ اس طرح کی باتیں عمل
کے لئے نہیں صرف بڑھک بازی کے لئے ہوتی ہیں۔پھر اسحق ڈار نے کون سا ایسا
تیر مارا ہے کہ ڈالر نیچے آیا ہو ۔
ڈالر کے پر کٹے ہیں تو آلو کو پر لگ گئے ہیں۔یوں تو آلو کی بڑی اہمیت ہے کہ
سیاست میں بھی کبھی اس کا بڑا مقام رہا ہے۔یہ مخالفین پہ پھبتیوں کے کام
آیا کرتا تھا لیکن وہ پاکستان میں غربت کا زمانہ تھا۔ اب ان کاموں کے لئے
مہنگی اجناس کا استعمال ہوتا ہے۔کوئی کسی کو ایل این جی کا نام لے کے
چھیڑتا ہے۔کسی کو کسی سے ڈیزل کی بو آتی ہے اور کوئی کسی کو زچ کرنے کے لئے
کسی بینک کا نام لے دیتا ہے۔آلو اب اپنی سیاسی افادیت کھو چکا لیکن یہ ان
ماؤں کا آخری سہارا تھا جو صبح صبح اس کو کاٹ پیٹ کے اپنے بچوں کا لنچ
بناتی ہیں۔شام کو ان کی بھوک دور کرنے کو یہی آلو کام آتا تھا۔ایک کلو آلو
چھیل کے اس میں دو کلو پانی ڈال کے اسے شوربے کا خوب صورت نام دیا جاتا اور
پھرپورا گھرانہ اس پانی سے کھانا کھا لیتا تھا۔اب پچاس روپیہ لے کے سبزی
فروش سے آلو کی فرمائش کرو تو وہ طنزیہ ہنسی ہنستا ہے۔جیسے کوئی سو روپیہ
دے کے سنار سے ایک تولہ سونا مانگ لے۔ممکن ہے کل کلاں ہم بھارت کو موسٹ
فیورڈ نیشن کا سٹیٹس دے دیں اور وہ اس کے بدلے میں ہمیں آلو دان کردیں تو
اس کی قیمت بھی قابو میں آ جائے۔اس کے بغیر اب آلو کو قابو کرنا کافی مشکل
نظر آتا ہے۔شیخ رشید ایک بار پھر اعلان کر سکتے ہیں کہ اگر آلو سستا ہو گیا
تو میں۔۔۔
آلو سے پہلے بجلی عنقا تھی۔پیپلز پارٹی کے دور میں یہ خواجہ آصف عرف خواجہ
سلاجیت ہی تھے جو بجلی کی لوڈ شیڈنگ پہ حکومت کے لتے لیا کرتے تھے۔پھر
پنگچر لگے اور خواجہ صاحب وزیر پانی و بجلی بنا دئیے گئے۔وزیر بنے تو دھائی
چھوڑ دھواں دینے لگے کہ لوڈ شیڈنگ ہمارے اس دور حکومت میں تو ختم نہیں ہو
سکتی۔وہ شہباز شریف جو اپنے افسروں کے ساتھ مینارِ پاکستان پہ بجلی کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے ڈرامہ بازی کیا کرتے تھے۔جو اپنی مائیک توڑ تقریروں میں
چھ ماہ کے اندر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے اور کہا کرتے کہ
ایسا نہ ہو تو میرا نام بدل دینا۔اقتدار ملنے پہ سر پکڑ کے بیٹھ گئے۔لوگوں
نے خود ہی ان کو شہباز شریف کی بجائے سوشل میڈیا پہ "شہناز شریف "لکھنا
شروع کر دیا ہے۔خواجہ صاحب سلاجیت والے وزارت دفاع کو پیارے ہوئے تو میاں
صاحبان نے اپنے ایک بھانجے کو بجلی کا چھوٹا وزیر بنا کے مسئلہ حل کر دیا۔
چھوٹے نے دوسرے چھوٹوں ہی کی طرح کا طرزِ عمل اختیار کیا۔ کبھی کے پی کے کے
وزیروں کو بجلی چور کہا تو کبھی سندھ کے لوگوں کو چور قرار دیا لیکن بجلی
کی لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو سکی۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔لوڈ شیڈنگ چھ سے
بڑھ کے اٹھارہ گھنٹے ہو گئی۔بڑھکیں بڑھتی گئیں اور بجلی کم ہوتی چلی
گئی۔گھروں میں پانی ختم ہو گیا ۔لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ہر طرف
ہاہاکار مچ گئی۔
پھر مئی کا مہنیہ شروع ہوا۔گیارہ مئی کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری
نے جلسوں اور دھرنوں کا اعلان کر رکھا تھا۔ کسی سیانے نے حکومت کو بتایا کہ
لوگ بھلے عمران اور قادری کے ایجنڈے پہ باہر نکلیں نہ نکلیں بجلی کی عدم
دستیابی پہ آپ کی حکومت کی اینٹ سے اینٹ ضرور بجا دینگے۔وزیر اعظم صاحب خود
اس مسئلے کے حل کے لئے سر جوڑ کے بیٹھ گئے۔اب حالت یہ ہے کہ نو مئی سے
لوڈشیڈنگ کا نام و نشان نہیں۔وہ جو شارٹ فال کا ذکر کرتے نہیں تھکتے تھے اب
خدا جانے انہوں نے یہ شارٹ فال کہاں سے پورا کر لیا ہے۔جیسے بھی ہوا اچھی
بات ہے۔عوام کو سہولت میسر ہے تو اس پہ حکومت کی تعریف کرنی چاہئیے لیکن اس
کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بھی جان لینا چاہئیے کہ وطن عزیز میں بات منوانے
کا طریقہ کیا ہے۔ جس مسئلے پہ آپ حکومت کا ٹینٹوا دبا سکتے ہیں وہ مسئلہ
دنوں میں حل ہو سکتا ہے بھلے ہی اس میں پہاڑ جیسی روکاوٹیں ہوں۔جس مسئلے پہ
آپ" دل کھویا کھویا گم صم" کر کے بیٹھیں گے اس مسئلے پہ یہ حکومت خود سے
کچھ کر کے نہیں دے گی۔
طاہر القادری اور عمران خان کا شکریہ کہ وہ انتخابی اصلاحات ہی کے لئے سہی
سڑکوں پہ تو آئے۔ان کا آنا مبارک۔انتخابی اصلاحات ہوں نہ ہوں ہمیں بجلی مل
رہی ہے۔شیخ سعدی بارش میں بھیگ رہے تھے کہ ایک کسان نے انہیں اور ان کے
گدھے کو اپنے برآمدے میں پناہ دی۔ان کی متشرع شکل دیکھ کے ان سے کہا کہ
میری بیوی در زہ میں ہے یعنی اس کا بچہ ہونے والا ہے اور وہ سخت تکلیف میں
ہے کوئی تعویز لکھ دو۔ شیخ نے لکھا کہ مجھے اور میرے گدھے کو بارش سے بچنے
کے لئے جگہ مل گئی ہے کسان کی بیوی بچے کو جنم دے یا بچی کو مجھے اس سے
کیا۔عورت کا در زہ ختم ہو گیا اور یہ تعویز آج بھی در زہ کے لئے استعمال
ہوتا ہے۔میں بھی یہی کہوں گا کہ قادری اور عمران کے دھرنے نے ہمیں بجلی دے
دی اب ان کے دھرنے سے بھلے جو بھی نکلے ہمیں اس سے کیا۔پاکستان کے لوگ لیکن
یاد رکھیں کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے کوئی بات نہیں مانتے۔ |