خدا جھوٹ نہ بولنے دے خدا جھوٹ نہ بولنے دے ضمیر کا سودا
کیا نہ کبھی ایسا ممکن ہو سکے گا لیکن یہ بات حقیقت کہ مسلم لیگ نواز سے
عوام کی جو توقعات وابستہ تھی وہ پوری نہیں عمران خان نے ڈی چوک پر دھنادلی
کے خلاف ااحتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا تو ساری نواز لیگ بوکھلاٹ کا
شکار تھی ،خواجہ سعد رفیق ، پرویز رشید اور رانا ثنا ء اﷲ جس قدر کردار کشی
کر سکے انہوں نے کی تحریک انصاف کے زرائع کے مطابق پنجاب سمیت دوسرے علاقوں
سے آنے والوں ان کے کارکنوں کے راستے مین رکاوٹیں کھڑی کر کہ ان کو روکا جا
رہا ہے احتجاج عمران خان کا حق ہے اور جمہوری حق اور جب کوئی سیاست دان
اپنا جمہوری حق استعمال کر ئے تو راستہ کی رکاوٹ بن جا نا کسی صورت بہتر
نہیں اس بات کی بھی اطلاعات ملی کے لاری اڈے اور پیٹرول پمپ بند کیے جا رہے
ہیں لیکن شاہد مسلم لیگ نواز کو اس بات کا بلکل علم نہیں کہ دوسری سیاسی
جماعتوں کے پاس ان کے کارکن ہوتے ہیں جو پارٹی سربراہ کی بات سنتے ہیں لیکن
تحریک انصاف میں صورتحا ل مختلف ہے عمران خان کو پاگلوں کی ایک ایسی فوج
میسر ہے جو اس کے حکم پر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہو جاتی ہے ڈی چوک کے
دھرنے میں شیخ رشید کے ایک جملے نے ماحول اس قدر جذباتی کر دیا کہ تحریک
انصاف کے جنونی کارکن پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کو تیار ہو گئے تھے -
صرف چار حلقوں کی ہی تو بات تھی عمران خان کی تسلی کے لیے کروا دیے جاتے
عمران خان کی اس بات میں وزن ہے کہ اگر یہ خوف زدہ نہیں تو چار حلقوں میں
ری کاونٹنگ یا انگھوٹے کے نشانات چیک کرنے میں کیا حرج ہے اور حکومتی وزراء
کے بیانات سن کر ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ان کو عمران خان کی طاقت کا اندازہ
نہیں ان کو شاہد اس بات کو علم نہیں کہ عمران خان کی طرف سے چلائی جانے
والی یہ تحریک اس ملک کو مڈ ٹرم انتخابات کی طرف لے جا سکتے ہیں پہلی مرتبہ
انتخابات میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ ووٹ دینے نکلے میڈیا نے بھی کردار ادا
کیا لیکن اسل وجہ عمران خان تھا اور اگر انتخابی نتائج یوں ہی تبدیل کیے
جاتے رئے تو ہمارے سیاستدان اور میڈیا جس قدر مرضی ہے چلاتا رہے کوئی ووٹ
دینے گھروں سے باہر نہیں نکلے گا ۔
ایک معاملہ جو آج کل ہر جگہ موضوع بحث بنا ہو ا ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان
نے گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کا زمہ دار ٹھہرا کر جیو اور جنگ کا باہیکاٹ
کر دیا پٹھان ہے چپ رہنا تو اس نے سیکھا نہیں چاہتا تو وہ بھی زرداری اور
میاں نواز شریف کی طرح کوئی گول مو ل بیان دے کر تماشا دیکھتا اور ایک ٹی
وی چینل اور ایک ملکی ادارے کے درمیان پیدا ہونے والا فساد چلتا ہی رہتا
لیکن وہ بول پڑا جیو نیوز کے سینئر اینکر پرسن حامد میر پر حملہ ہوا تو
عمران خان نے مذت کی کرنی بھی چاہیے تھی کیونکہ اب اختلاف رائے کی بنیاد پر
کسی کو جان سے مار دیں یہ کوئی قانون نہیں اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ حامد
میر صاحب نے جب اپنے اوپر ہونے والے قاتلانے حملے کا الزام آئی ایس چیف نے
لگایا تو سارا جیو گروپ یک زبان ہو کر آرمی چیف اور ملک کے احساس ادارے کے
پیچھے پڑ گیا ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر ریٹنگ بڑھانے کے لیے وہ الفاظ
استعمال کیے گئے کہ خدا کی پناہ حالانکہ یہ معاملہ حل ہونے کے اور بہت سارے
طریقے موجود تھے اب جب عمران خان نے انتخابی دھاندلی کا زمہ دار ٹھہرا کر
جیو اور جنگ کے باہیکاٹ کا اعلان کر دیا تو سارا جنگ اور جیو عمران خان کے
پیچھے پڑ گیا پیدا ہونے سے آج تلک جو بات بھی ایسی میسر آئی جس سے اس کی
کردار کشی ہو رہی ہو ٹی وی سکرین پر چلا دیا لیکن یہ سخت حماقت ہے آخر یہ
سب ہو کیا رہا ہے میڈیا کی آزادی پر ہم سب یقین رکھتے ہیں لیکن کیا میڈیا
اتنا بھی آزاد ہو سکتا ہے کہ جب چاہیے کسی کی پگڑی اچھالے اس کا اندازہ
نہیں تھا خیر جیسے ہو گا دیکھا جائے گا لیکن جو صورتحال چل رہی ہے اس ملک
کے لیے کسی صورت اچھی نہیں ہے تازہ اطلاعات ہیں کہ فیصل آباد میں ہونے والا
تحریک انصاف کا احتجاجی جلسہ جو 23مئی کو ہونا تھا اب 25مئی کو ہو گا اور
جس طرح عمران خان نے ڈی چوک بھر کر اپنا دعوہ سچ کر دیکھایا اگر اس ہی طرح
یہ احتجاج تحریک پورے پاکستان میں چل نکلی تو سیاسی منظر نامے پر بڑی
تبدیلیاں آ سکتی ہیں اور عمران خان کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ وہ پاکستان کے
کسی بھی شہر مٰں احتجاجی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرے کیا 35پنکچروں کی حقیقت
معلوم ہو سکے گئی ، عمران خان کے بتائے ہوئے 4حلقوں میں انگھوٹے کی نشانات
چیک کیے جائیں گے اور جنگ اور جیو کس سمت جارہے ہیں اس بات کا بھی لگ پتا
جائے گا کچھ دنوں میں عمران خان کا دی چوک پر اپنے خطاب کے دوران کہنا تھا
کہ ایک سال میں بہت بور ہو ا ہوں اور میرے کارکن بھی بور ہوئے ہیں لیکن اب
آج سے دھاندلی کی حکومت کے خلاف فیصلہ کن راونڈ کھیلیں گے الیکشن کمیشن اور
عدالتوں کے چکر کاٹ کر ایک سال کے بعد عمران خان کارکنوں کو لے کر سڑکوں پر
آ گئے گرما گرم سیاسی ماحول سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انتخابات کا سال ہے
نوجوان عمران خان کی طاقت ہیں اور اس طاقت کا ستعمال کر کے عمران خان سیاسی
منظر نامہ تبدیل کر سکتا ہے ۔
ہم ہی کو جرت اظہار کا سلیقہ ہے
صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے |