نوبل کمیٹی کا بارک اوباما کو نوبل انعام دنیا چاپلوسی ہے یا اور کچھ

نوبل کمیٹی نے نوبل انعام اوباما کے سر مار کر کھلی جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے.....
نوبل کمیٹی کا اوباما کو صدرات کے پہلے ہی سال میں نوبل انعام کا حقدار ٹھیرانا معنی خیز ہے۔
بارک اوباما+نوبل انعام اور نوبل کمیٹی کا چاپلوسی کا چکر

ایک خبر جو گزشتہ دنوں صرف ایک سال پرانے ہی یعنی نئے امریکی صدر بارک اوباما کو امن کا نوبل انعام ملنے کے حوالے سے نہ صرف ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے لوگوں تک یہ خبر پہنچائی بلکہ دنیا بھر کے میڈیا نے بھی اپنے اپنے انداز سے اِس خبر کو خاصی اہمیت کے ساتھ شائع اور ٹیلی کاسٹ بھی کیا ہے۔

جبکہ اِسی حوالے سے دوسری خبر یہ بھی ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور آئی اے ای اے کے سربراہ محمد البرادی سمیت متعدد عالمی رہنماؤں نے امریکی صدر باریک اوباما کو امن کا نوبل انعام ملنے کو سراہتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما کو مبارکباد کے پیغامات بھی بھیجے ہیں اور اِن عالمی رہنماؤں نے اپنے اِن پیغامات میں اپنے جذبات کا اظہار کچھ اِس طرح سے بھی کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اوباما سے زیادہ انہیں ہی نوبل انعام ملنے کی ساری خوشی ہے اور یہ انعام جیسے انہیں ملا ہے۔ اوباما کو نوبل انعام ملنے پر محمد البرادی نے تو انتہائی جوشیلے انداز سے کہا ہے کہ اوباما عالمی امن کو دوبارہ روشن کرنے والی امید ہیں۔ اِسی طرح سے افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے تو حد ہی کردی اور وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما کو امن کا نوبل انعام ملنے پر اتنے خوش ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما کو عالمی امن کے لئے دنیا کا بڑا نوبل انعام ملنا امن کی جیت ہے اور اوباما ہی وہ درست شخص تھے کہ جنہیں اِس سال امن کا یہ نوبل انعام ملنا ہی چاہئے تھا۔

بہرحال! مگر میرے نزدیک تو اِس ساری خبر میں دراصل حقیقت اور سچ صرف اتناہی ہے کہ موجودہ امریکی صدر بارک اوباما نوبل انعام حاصل کرنے والے تیسرے امریکی صدر ضرور ہیں اور بس ......اِس کے علاوہ اِس انعام کی میرے خیال سے اور کوئی حقیقت یوں بھی اَب نہیں رہی ہے کہ نوبل کمیٹی نے اِس سال امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوباما کو اِن کے اقتدار کا پہلا سال جیسے تیسے مکمل ہونے پر اِنہیں یہ کہتے ہوئے کہ مسلم امہ سے بہترین رابطے سمیت انہیں اِن کی بے مثل اور غیر معمولی کوششوں کے اعتراف اور بہترین سفارتکاری کی خدمات کے عوض ہی نہیں بلکہ انہیں ساری دنیا میں جوہری اسلحہ کے پھیلاؤ کو روکنے اور امن کے لئے اہم ترین کردار اداکرنے پر نوبل انعام کا حقدار ٹہرایا اور انہیں امن کا نوبل انعام دے ڈالا ہے۔

حالانکہ جس بنا پر انہیں نوبل کمیٹی نے امن کا نوبل انعام کا حقدار ٹہرایا ہے۔ انہوں نے اپنے اقتدار کے پہلے سال میں تو ابھی تک تو ایسا کوئی انوکھا کارنامہ انجام ہی نہیں دیا ہے کہ جس کی بنا پر انہیں امن کا یہ انعام یوں دے دیا جاتا۔ عالمی مبصرین کے نزدیک انہیں اِن کے اقتدار کے پہلے ہی سال میں یوں بغیر کچھ کئے دھرے بڑی آسانی سے امن کا نوبل انعام مل جانا یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ نوبل کمیٹی نے اِن تمام اشخاص کی امن کے لئے کی جانے والی خدمات اور محنت پر پانی پھیر دیا ہے جو بڑے عرصے سے دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنے نئے آڈیاز(حکمت ِعملیوں) کے ساتھ صرف اِس عمل میں مصروف ہیں کہ دنیا میں کسی بھی طرح سے امن قائم ہوجائے اور دنیا گُل و گُلزار اور امن کا عظیم گہوارہ بن جائے۔

اور اِس کے ساتھ ہی مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنے اور لکھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ نوبل کمیٹی نے امریکی صدر بارک اوباما کو نوبل انعام کا حقدار ٹہرا کر نہ صرف نئے سیاہ فام امریکی صدر بارک اوباما کی چاپلوسی ہی کی ہے بلکہ اِس نوبل کمیٹی نے اپنے اِس قول و فعل سے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ یہ ایک کھلم کھلا جانبداری برتنے والی کمیٹی ہے۔ جِسے اَب ہر حال ختم ہوجانا چاہئے اور اِس کی جگہ کوئی دوسری نوبل کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئے کہ جو غیر جانبداری ہو۔ ورنہ موجودہ جانبدار نوبل کمیٹی کو اَب دنیا بھر سے اپنے اوپر ہونے والی شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلکہ اِن تنقیدوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے اپنے آپ کو سرنگوں بھی رکھنا پڑے گا کیوں کہ اِس نوبل کمیٹی نے غلطی ہی ایسی سنگین کی ہے ۔

اِس لئے بھی کہ اب اِس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ نوبل کمیٹی نے اوباما کو امن کا نوبل انعام دے کر اِن تمام اشخاص جو ایک بڑے عرصے سے دنیا میں قیام امن اور حقوق انسانی کی خدمت کے لئے متحرک ہیں جن میں زمبابوے کے وزیر اعظم مورگن سونگیرائی اور کولمبیا کے ایک سینیٹر کے ساتھ ساتھ چین کے حکومت مخالف رہنما اور افغانستان میں حقوق انسانی کے لئے سرگرم کارکن کی کھلی حق تلفی بھی کی ہے۔ جس پر آج دنیا بھر کے دانشور انگنشت دندان ہیں کہ نوبل کمیٹی نے کھلی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما کی چاپلوسی میں انہیں امن کا نوبل انعام دیا ہے اور اُن تمام افراد جو امن کے نوبل انعام کے لئے فیورٹ قرار پائے تھے اور جن کی امن کے لئے پیش کی گئیں خدمات بھی دنیا کے سامنے تھیں۔ یوں اِن تمام افراد اور اِن کی دنیا میں امن کے قیام کے لئے پیش کی جانے والی تمام خدمات کو مسترد کر کے امن کے انعام کے لئے قائم نوبل کمیٹی نے امریکی صدر بارک اوباما کو امن کا نوبل انعام دے کر اپنے آپ کو مشکوک بنالیا ہے۔ اب یہاں ساری دنیا کے لئے سوچنے اور سمجھنے کا مقام تو یہ ہے کہ وہ یہ سوچے کہ نوبل کمیٹی نے آخر ایسا کیوں کیا ہے.....؟ اور کیا یہ نوبل کمیٹی ہر بار ایسا ہی کرتی رہے گی....؟اور آخر کب تک یہ نوبل کمیٹی لوگوں کی حق تلفی کرتے ہوئے.... اصل حقداروں کو اِن کے نوبل انعام کے حق سے محروم رکھے گی....؟

بہرکیف! ہماری جانب سے بھی ایک سال پرانے مگر پہلے سیاہ فام امریکی صدر بارک اوباما کو نوبل انعام ملنے پر مبارک ہو اور اِس کے ساتھ ہی بالخصوص مسلم امہ اتنی امید تو اِن سے ضرور رکھتی ہے کہ مسٹر اوباما اِس نوبل انعام کی ہی لاج رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے لئے امریکی رویوں میں ضرور نرمی لائیں گے تاکہ بالخصوص مسلم دنیا تو یہ کہہ سکے کہ واقعی مسٹراوباما کو جو امن کا نوبل انعام ملا تھا وہ بلکل درست تھا۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893541 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.