امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا تو صدر بش نے اسے
امریکہ پر حملہ قرار دیا اور پھر ساری دنیا کو خطرے کا خوف دلا کر عالم
اسلام اور پاکستان کو تباہ کر دیا۔ ممبئی ہوٹل پر حملے کے بعد بھارتی
حکمرانوں اور میڈیا نے پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا اور ناکام کرنے
کیلئے بے قرار ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے فوجی مرکز جی ایچ کیو پر
حملے کے بعد صدر زرداری کیا کرتے ہیں؟ وہ نہیں کرتے تو جنرل کیانی کیا کرتے
ہیں؟ یہ پاکستان پر حملہ ہے۔ شرم اور غصے سے ہمارا خون ابل رہا ہے۔ اس میں
اپنے بھی شامل ہیں اور کچھ اپنے بھارت اور امریکہ کی غلامی اور سلامی میں
جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ کیا بات ہے کہ حکومت پاکستان اور کسی حکمران نے اس واقعہ
پر اتنی گرمجوشی نہیں دکھائی جتنی وہ معمولی سے معمولی دہشت گردانہ واقعہ
پر دکھاتے ہیں اور اس واقعے کی کڑیاں وزیرستان کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیتے
ہیں پچھلے کالم میں بتایا گیا تھا کہ ایک وزیرستان اسلام آباد میں بھی ہے
اور وہ وزیروں کا علاقہ ہے۔ یہ وزیر صدر زرداری کے ہیں۔ وزیراعظم بھی انہی
کا ہے۔ کیا اس شکست کا ردعمل صرف یہ ہے کہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ وزیرستان
میں کارروائی ناگزیر ہو گئی ہے۔ جی ایچ کیو کے خلاف شرمناک کارروائی کے
فوری بعد اس بیان کی کیا ضرورت تھی؟ وہ لوگ کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ طالبان
اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور رہ گئے ہیں اب یہ بھی کہیں کہ ایوان صدر٬
وزیراعظم ہاؤس٬ سپریم کورٹ٬ پارلیمنٹ اور اسلام آباد کا وزیرستان اب جی ایچ
کیو سے کتنے دور ہیں۔ جی ایچ کیو پر حملہ باوردی لوگوں نے کیا ہے۔ وردی کا
یہ استعمال توہین ہے۔ کیا اس توہین کو آرمی کمانڈرز نے محسوس کیا ہے۔ ایوان
صدر کی حفاظت پر فوجی مامور ہیں۔ سوات مالاکنڈ کے کامیاب آپریشن اور کیری
لوگر بل کے ناکام آپریشن کے بعد جی ایچ کیو پر حملہ ہوا ہے۔ فوج کی نیک
نامی پر کالک کون مل رہا ہے؟ سوات امن معاہدے کی طرح وزیرستان امن معاہدہ
بھی ہونا چاہئے تھا۔ اس سے پہلے ایسے ہی ایک معاہدے کے بعد نیک محمد قتل
ہوا تھا۔ بیت اللہ محسود کے قتل سے پہلے کیا کچھ ہوا ہے۔ مولانا فضل
الرحمٰن سے پوچھیں۔ امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے بیت اللہ محسود کے
قتل کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کی حکومت کی طرف سے بے چارے رحمٰن ملک کو لینا پڑا
ہے یعنی صرف بیان دینا پڑا ہے۔ لینا دینا ہماری حکومتوں کی مجبوری ہے۔ بیت
اللہ محسود کو قتل کرنے کی کئی بار پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے نشاندہی
کی مگر امریکہ اینٹی پاکستان یعنی پرو امریکہ بھارت لوگوں کو مارنا نہیں
چاہتا۔ وہ تو انہیں پالتا پوستا رہتا ہے۔ امریکہ کی مجبوری ہے کہ وہ پاک
فوج اور آئی ایس آئی وغیرہ کی مدد کے بغیر اس خطے میں کچھ نہیں کر سکتا مگر
وہ پاکستان کو کمزور بھی کرنا چاہتا ہے خود امداد دیتا ہے تو شرطیں لگاتا
ہے اور امداد لیتے ہوئے غیر مشروط کی پابندی لگاتا ہے۔ امریکہ کو پتہ ہے کہ
بھارت اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا مگر پاکستان کے سینے پر مونگ دلنے کیلئے
کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔ امریکیوں اور ہمارے حکمرانوں کو پتہ ہے کہ پاک
فوج کے جوانوں اور افسروں کے دلوں میں یہ احساس جاگزیں کیا جاتا ہے کہ
بھارت ہمارا دشمن ہے اور بھارت بھی یہی سمجھتا ہے کہ پاکستان ہمارا دشمن ہے٬
کبھی بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا اظہار نہیں کیا مگر
ہمارے حکمرانوں کو پاک بھارت دوستی کا بخار چڑھا رہتا ہے۔ یہ ’’ حرارت‘‘
فرینڈلی اپوزیشن کے بڑے سیاستدانوں میں بھی ہے۔
یہ نہیں کہ پاک فوج وزیرستان میں آپریشن نہیں کرنا چاہتی وہ ان نام نہاد
طالبان کے خلاف ایکشن کرنا چاہتی ہے جو اینٹی پاکستان ہیں جو پورے ملک میں
دہشت گردی کی آگ سلگائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا آخری نشانہ جی ایچ کیو تھا۔
جو ہماری رسوائی جگ ہنسائی اور گہری ڈپریشن کا باعث بنا ہے۔ پاک فوج کو
سلام کہنے والوں کو کیا پیغام ملا ہے۔ یہ طالبان روس کی طرح امریکہ کو بھی
یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ امریکہ بھارت ان طالبان کے خلاف ایکشن کرانا
چاہتے ہیں جو ’’پرو پاکستان‘‘ ہیں۔ جو امریکہ بھارت اور ان کی کٹھ پتلی
افغان حکومت کے ایجنٹ ہیں٬ ان کا اسلحہ اور کرنسی پاکستان کے خلاف استعمال
ہو رہے ہیں۔ پاک فوج اسی طرح کا آپریشن کرے جو سوات مالاکنڈ میں کیا گیا ہے
جس سے امریکہ بھارت اسرائیل اور افغان حکومت پریشان ہوئے ہیں۔ اس گوریلا
جنگ میں جو کامیابی پاک فوج اور آئی ایس آئی کو ملی ہے اس کی مثال نہیں
ملتی۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کے مقابلے میں ہار چکا ہے۔ اب چاہتا ہے
کہ پاکستان بھی ہار جائے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم آئی ایس آئی کے مداح
ہو۔ تو پھر کیسے جی ایچ کیو پر حملہ ہو گیا۔ آئی ایس آئی اور خفیہ ایجنسیاں
کہاں تھیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ یہ تو ہمارے لئے داغ ہزیمت ہے۔ سقوط مشرقی
پاکستان کا دکھ تازہ ہو گیا۔ جی ایچ کیو پر حملہ امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور
پنٹاگان سے بڑا حملہ ہے۔ پاک فوج نے تو دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا
دیا۔ اب ڈاکٹر عثمان آئی ایس آئی کے قابو آیا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح
کامیاب ہوتی ہے۔ اس میں امریکہ اور بھارت بھی شامل ہیں۔ جرات اور مہارت کے
ساتھ تفتیش کرو۔ سب کچھ سامنے لاؤ دشمنوں کو کبھی معاف نہ کرو۔ جو اپنے اس
غداری میں شامل ہیں۔ انہیں بھی بے نقاب کرو۔ ہمارا شہید بریگیڈیئر اور کرنل
گیٹ پر تو نہیں کھڑے تھے اور اتنے بہت بندے کس طرح یرغمال بنے۔ امریکی کہہ
رہے ہیں کہ ان میں پاک فوج کے اپنے بندے بھی تھے۔ وہ کون ہیں؟ پتہ کرو اور
جلدی کرو ورنہ پاک فوج کے دیوانے لوگ پاگل ہو جائیں گے اس سے زیادہ ہمارے
ساتھ کیا ہو گا۔
امریکہ نے بیت اللہ محسود کو مارا کہ ان کے پاس ان سے زیادہ ظالم اور اینٹی
پاکستان حکیم اللہ محسود ہے۔ اب جو کارروائیاں ہو رہی ہیں تو کیا یہ امریکی
بھارتی منصوبہ بندی کی کامیابی نہیں؟ اسے ناکام کرنا پاک فوج کا کام ہے۔
ورنہ؟ اس کے بعد میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن
کی سنئے۔ ’’پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں‘‘ یہ طنز ہے وہ تو
کہتے تھے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے والے ہیں۔ اس
بات کے پیچھے کیا سازش ہے۔ جی ایچ کیو پر حملے سے امریکہ اور بھارت نے کیا
پیغام دیا ہے؟ یہ کوئی کمپرومائز امریکہ اور بھارت سے نہ کریں۔ |