حکمرانوں سے ایک گزارش

اپوزیشن جماعتوں کے بعد مسلح افواج کی کور کمانڈرز کانفرنس میں امریکی امداد کے کیری لوگر بل پر تحفظات کے اظہار نے متذکرہ بل میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہونے کے عام آدمی کے خدشات کو یقین میں بدلنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاسی صورتحال کو بھی گویا بھونچال کی سی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔ بات اگر تحفظات کے اظہار اور حکومت کی جانب سے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ فوجی قیادت کو بھی اعتماد میں لینے کی یقین دہانیوں تک محدود رہتی تو شاید گزشتہ دو ہفتے سے جاری ”کھپ“ قدرے معدوم ہوجاتی لیکن کیا کیجئے کہ صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے فوج کو حدود سے ”تجاوز“ کا طعنہ دیکر ایک ایسا پینڈورا باکس کھول دیا ہے جس کے بند ہونے یا نہ ہونے کے عرصے کا تعین تو شاید ممکن نہیں البتہ اثرات بارے اندازے ضرور لگائے جاسکتے ہیں۔ اب اگر حکومت یہ کہے کہ متذکرہ بیان صدر کی سوچ کا اظہار نہیں تو یہ بلا شبہ موجودہ دور کا ایک بڑا لطیفہ ہی ہوگا کیونکہ جہاں تک ہمارا علم ہے فرحت اللہ بابر تو سانس لینے تک کے لیے صدارتی احکامات کے تابع ہیں لہٰذا ان کی جانب سے آصف علی زرداری کی مرضی کے بغیر اتنا بڑا بول بولنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہے کہ صدر مملکت نے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران حاصل ہونے والی ”تاریخی کامیابی“ پر مسلسل تنقید سے تنگ آکر ایک طرح سے نقادوں(بشمول فوجی قیادت)اپنے اختیارات باور کرائے ہیں۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ انہیں اس تنقید کے نتیجہ میں اپنے امریکی ہم منصب کی جانب سے امدادی بل پر دستخط مؤخر کرنے کا دکھ ہے یا پھر ناکامی میں تبدیل ہوتی کامیابی کا صدمہ، لیکن اتنا ضرور وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر اپنے مشیروں کے مشوروں کی روشنی میں انہوں نے واقعتاً اختیارات کے استعمال کی ٹھان لی تو نتائج تباہ کن ہونگے۔

کیری لوگر بل کیا ہے یا سیاسی عناصر اس پر کیوں تنقید کرتے رہے ہیں ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ انہی سطور میں تفصیلاً حقائق سے پردہ اٹھایا جاچکا ہے البتہ یہ سوال ابھی تک لا تعداد ذہنوں میں ہے کہ آخر پاک فوج کو اس امداد پر اعتراض کیوں ہے؟ جس کے جواب میں اتنی ہی گزارش کافی ہے کہ متذکرہ بل مجموعی طور پر واقعتاً غلامی ہی کی دستاویز ہے۔ بات اگر بل کی شرائط تک محدود رہتی تو فوجی قیادت کو اس جھنجھٹ میں پڑنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن ہماری حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس بل پر انتہا کے لے دے کے بعد امریکہ نے ایک ایسی منصوبہ بندی شروع کر دی کہ مجبوراً جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں کو اس معاملے میں واضح اور ٹھوس مؤقف کی شکل میں حکومت کو تحفظات کا اظہار کرنا پڑا۔ ہوا در اصل یہ کہ جب امریکی حکام نے یہ دیکھا کہ ڈالروں کا دانہ ڈالنے کے باوجود پاکستان میں بیشتر سیاسی قیادت ان کے دام میں پھنسے سے انکاری ہے تو وائٹ ہاﺅس کو بھی جان کے لالے پڑ گئے اور حکام نے باراک اوبامہ کو بل پر دستخط ملتوی کرنے کا مشور ہ دینے کے ساتھ ساتھ”پہلے پاکستان“ نامی منصوبے کی بنیاد رکھ دی جس کے مطابق افغانستان میں دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر بارود کے کھیل کو کابل سے پاکستان منتقل کرکے القاعدہ اور طالبان کے خاتمے کی آڑ میں ہمارے دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں از خود کارروائیوں کی پلاننگ کا مژدہ سنایا گیا جبکہ ساتھ ہی ساتھ پاک فوج کے دہشت گردوں کیخلاف اقدامات کو ناکافی قرار دیکراس پر تنقید اور براہ راست ٹکراﺅ کی بھی سازش تیار کی جو یقینی طور پر پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت پر حملہ ہوتی، سیاستدانوں کو تو اس کا شاید ادراک نہیں تھا لیکن فوجی قیادت امریکی ارادوں کو بھانپ گئی اور امداد کے نام پر آزادی رہن رکھنے والے بل پر تحفظات کا اظہار کرکے ایک طرح سے مزاحمت ہی کی گئی ہے جس کا مقصد دوستی کے لبادے میں چھپی مکاری کے توڑ کے سوا کچھ نہیں ویسے بھی ملٹری پر کنٹرول، سینئر فوجی حکام کی ترقیوں، فوجی بجٹ کی نگرانی، چین آف کمانڈ جیسے مطالبات اور پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر انتہا پسندوں کی معاونت کے الزمات ایسے قدغن ہیں کہ فوج کا رد عمل فطری محسوس ہوتا ہے۔

رہ گئی سیاستدانوں کی بات تو ممکن ہے بڑی حد تک وہ اپنی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لیے ہی واویلا کر رہے ہوں لیکن اب تو عوام میں سے بھی جو اس بل کا مطالعہ کرتا ہے، حقائق جاننے کے بعد اس کا رد عمل بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے تاہم حکومت کی جانب سے نہ صرف اس بل کو مقدس صحیفے سے تشبیہہ دی جارہی ہے بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق تو کچھ حامیوں کو باقاعدہ اس سلسلہ میں رائے عامہ ہموار کرنے پر لگانے کی اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں اور مطلوبہ تنائج سامنے نہ آنے کے بعد ”عوامی مینڈیڈیٹ“خاصا غصے میں دکھائی دینے لگا ہے جس کا ایک اظہار صدارتی ترجمان کا متذکرہ بالا بیان ہے جو سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں جمہوری حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات کی خلیج قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پورے نظام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بات پارلیمینٹ میں جانے کے بعد ایوان صدر منتخب ایوان کے فیصلے کا انتظار کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور عجلت یا پھر جوش جذبات میں اسی رستے پر قدم رکھ دیا گیا ہے جو بہر صورت ٹکراﺅ ہی پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور اس ٹکراﺅ سے بچاﺅ کا واحد راستہ اب بھی پارلیمنٹ ہی ہے لیکن جو اشارے مل رہے ہیں ان کے مطابق ایوان صدر کے ”ایگریسو“ رویے کے بعد پوری کی پوری حکومت بھی اختیارات کی ایسی یاد دہانیاں کروانے پر تلی بیٹھی ہے جن کو کسی بھی طور اچھا شگون تو قرار نہیں دیا جا سکتا البتہ پالیسی سازوں اور پھر ان کی پالیسیوں پر عمل کرنے والوں سے اتنی گزارش ضرور کی جاسکتی ہے کہ اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارنے کے بجائے حقائق کی تلخی کو سمجھیں کیونکہ اگر انہوں نے” فوج کی مخالفت کے باوجود زرداری حکومت کو خطرہ نہیں “کے الفاظ پر مشتمل امریکی بیان کی شہہ پر اٹ کھڑکا شروع کر دیا تو ملک سیاسی انارکی کا شکار ہوجائے گا جس کے نتیجہ میں ان کی حالت بھی اپنے پیش روﺅں (جو عوامی مقبولیت کے گھمنڈ میں ایسا ہی پنگا لے بیٹھے تھے ) سے قطعاً مختلف نہیں ہوگی ۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 58399 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.