سنا ہے مارشل لا آنے والی ہے فوج کے لیے تو ہماری جان و
مال ہمارا تن من دھن سب حاضر ہے ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام
کرنا چاہیے ماضی میں چار مرتبہ مارشل لا نافذ ہوچکا ہے، اب نہ آمروں سے ڈر
لگتا ہے نہ مارشل لا سے، ہم نہیں جانتے کہ عمران خان وزیراعظم بن سکیں گے
یا نہیں، ہم حامد میر کو بھی جانتے ہیں اور انکے والد وارث میر کو بھی
جانتے ہیں۔ جیو اور آئی ایس آئی کا معاملہ اب پیمرا کے ہاتھ میں ہے، اور اب
پیمرا بھی آئی ایس آئی کے حق میں ہے اور جیو انتظامیہ کو لینے کے دینے پڑھ
گئے ہیں، افوائیں گردش کررہی ہیں کہ مارشل لا آنے والی ہے، عوام مارشل لا
کا ذکر سن سن کر مارشل لا زدہ ہوگے ہیں۔ اب عوام کو جمہوریت کے مقابلے میں
مارشل لا بہتر لگ رہا ہے، بقول بڑے بڑے دانشوروں کے سنئیر صحافیوں اور
معروف تجزیہ نگاروں کے ملک میں جمہوریت ہی سب سے بہترعمل ہے جمہوریت ہی میں
ملک عوام ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہوتی ہے، بات تو سچ ہے تو میں بھی
مارشل لا کے حق میں بالکل نہیں ہوں پر جمہوریت کرنے کا سلیقہ بھی تو ہو
ڈھنگ بھی تو ہو۔ مارشل لا کمزور جمہوریت اور نا اہل قیادت کی وجہ سے آتا ہے،
خواہ لولی لنگڑی ہی کیوں نہ ہو موجودہ حکومت کی کارکردگی سے آپ مطمئن ہیں۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی اگر تسلی بخش ہوتی تو یہ سوالات وجود میں نہیں
آتے اور نہ لوگ سڑکوں پر نکلتے اور نہ گیارہ مئی کو احتجاج ہوتا-
مسلم لیگ ن نے عوام کو مایوس کیا ہے انہوں نے جو وعدے کیے وہ پورے نہیں کیے
اور اب بھی جو بیان دے رہے ہیں تقریريں کرتے ہیں باتیں کرتے ہیں تو 8 سال
بعد کی بات کرتے ہیں جبکہ انکی حکومت چار سال کی باقی ہے، پتا نہیں چار سال
بھی مکمل کرسکیں گی یا نہیں بات آج کی کرنی چاہیے کل کی بات کل کریں ماضی
یا مستقبل پر معاملات کو چھوڑ کر آج کو فراموش کرنا عقلمندی نہیں آج ہم
زندہ ہیں آج کے متعلق سوچنا زیادہ ضروری ہے، 8 سال بعد کیا ہوگا اور کون
ہوگا کوئی نہیں جانتا ایسے حالات سے گریز کرنا چاہیے جو مارشل لا کو دعوت
دیتے ہیں جب حالات بد سے بدتر ہوجائیں تو ظاہر ہے مارشل لا آسکتا ہے، یہی
وجہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری عمران خان اور شیخ رشید صاحب ڈٹ چکے ہیں،
حکومت کے خلاف اللہ تعالی انکو انکے مقصد میں کامیابی عطا فرمائے، اس
فرسودہ نظام کے خلاف اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں، جب تک یہ فرسودہ
جاگیردارنہ نظام ختم نہیں ہوجاتا ملک حقیقی جمہوری ملک نہیں کہلا سکتا-
جنرل راحیل شریف ایک شہید کے بھائی ہے انہوں نے خود آیئن اور جمہوریت کی
بالادستی کی بات کی ہے، جنرل راحیل شریف کے متعلق اچھی رپورٹس ہیں وہ خود
جمہوریت اور آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں، ہم فوج کو عزت و احترام
کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس ادارے پر اعتماد ضروری ہے ہمیں اپنی افواج سے
پیار ہیں ہم انہیں چاک و چوبند سرحدوں پر دیکھنا جاہتے ہیں اور ہم اپنی
مسلح افواج کے ساتھ ساتھ ہیں،
موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرسکے گی یا نہیں یہ موجودہ حکومت کی کارکردگی
پر ہے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر چیلینچز کا سامنا ہے، پاکستان
واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی سے مالا مال ہے اللہ نے فرمایا ہے
کہ دشمنوں کے خلاف اپنے گھوڑے تیار رکھو، ہمارے گھوڑے دشمن بھارت کے گدھوں
سے ہزار گناہ بہتر ہیں، ہمارے لیڈروں میں حب الوطنی کا فقدان ہے انکے اثاثے
بیرون ممالک میں ہیں پر عوام میں حب الوطنی کی کمی نہیں بیشک ہم اچھی لیڈر
شپ کے لیے ترس گئے ہیں، حب الوطنی اچھی لیڈر شپ سے مل سکتی ہے۔ جیو اور آئی
ایس آئی کا معاملہ سب کے سامنے ہے حقائق سامنے آرہے ہیں جیو نے آئی ایس آئی
پر خود ہاتھ ڈالا ہے اور خود جنگ چھیڑی ہے مگر یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
جیو نے اس طرح پورے میڈیا کو بدنام کرکے میڈیا کے لیے نئے مسائل کھڑے
کردہیے ہیں، کل جیو نے اپنے پروگرام مارننگ شو میں جو ویڈیو چلائی اس پر ہر
فرقے اور ہر مسلک کے لوگوں کی دل آزاری ہوئی اور پوری عوام رنجیدہ ہیں
ریٹنگ کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے آپ کس حد تک گر سکتے ہیں میں
کوئی عالم دین نہیں ہوں لیکن اگر کوئی اہل بیت صحابہ کرام اور امہات
المئومینن کی شان میں گستاخی کرے اور میں سینہ تان کر کھڑا نہ ہوں تو پھر
لعنت ہے میرے یہاں ہونے پر پہلے جیو نے آئی ایس آئی کی شان میں گستاخی کی
اور اب اہل بیت کی شان میں گستاخی کردی۔ میڈیا کا کام عوام کو شعور فراہم
کرنا ہوتا ہے پر جیو عوام کو گمراہ کررہا ہے آخر یہ کھیل کب تک چلتا رہے
گا-
ہمارے یہاں ایسا سیاسی نظام رائج ہے کہ جس میں دولت مند ہی سیاست کرسکتا
ہے، اور غریب متوسطہ طبقے کو روٹی روزی سے فرصت نہیں، اور اگر کوئی پر عزم
نوجوان سیاست میں طبع آزمائی کی کوشش بھی کرتا ہے تو بہت جلد ایسے یہ احساس
ہوجاتا ہے کہ موجودہ نظام میں اس کے لیے سیاست میں جگہ بنانا ممکن نہیں۔
کیونکہ یہاں سیاست کرنا صرف دولت مند طبقے کا کام ہے، اور سیاسی نظام کو اس
طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ مخصوص ٹولے کے علاوہ یہاں کوئی اقتدار کے
ایوانوں تک پہنچ نہیں سکتا۔ تحریک استقلال نے 1979ء میں ہی قوم کو متناسب
نمائندگی کے تحت انتخابات کا منشور دیا تھا لیکن 33 سال تک متناسب نمائندگی
کا انتخابی نظام رائج نہ ہونے کی وجہ سے ملک کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔
اور مخصوص ٹولہ ہی چہرے بدل بدل کر اقتدار پر قابض رہا ہے، ہمارے
سیاستدانوں نے صرف وہ ترقیاتی و توانائی کے منصوبے بنائے جس میں بھاری
کمیشن مل سکتی تھی اور جن قومی مفاد کے منصوبوں میں کمیشن کا آسرا نہیں تھا
انہیں قومی اتفاق رائے کے نام پر متنازہ بنا دیا گیا، یہ مادر وطن جمہوریت
کے لائق نہیں ہے، قیام سے لے کر آج تک اس ملک اور عوام کو جمہوریت کے نام
پر الو اور بے وقوف بنایا گیا ہے، کل بھی اسی جمہوریت کے نام پر عوام کو
لوٹا کھسوٹا گیا اور آج بھی لوٹا کھسوٹا جارہا ہے، جب الیکشن کا وقت آتا ہے
تو یہ سیاست کے کھلاڑی ااپنی دلنیشن تقریروں اور وعدوں سے عوام کو سہانے
خواب دیکھا کر اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں اور جب قابض ہوجاتے ہیں تو عوام
کے خون کی آخری بوند تک کو نچور لیتے ہیں تو بھائی لوگوں ایسی سیاہ جمہوریت
سے تو آمریت اچھی ہے- |